روزہ اوراس کے اغراض ومقاصد

روزہ اوراس کے اغراض ومقاصد

روزہ ،نفسانی خواہشوں سے اپنے آپ کوروکنے اورحرص وہوس کے ڈگمگانے والے موقعوں میں خودکوثابت قدم رکھنے کی مشق کانام ہے۔اسی لئے قرآن مجیدمیں اسے صبربھی کہاگیاہے جس کامعنیٰ’’ضبط نفس،ثابت قدمی اوراستقلال‘‘ہے۔عام طورسے نفسانی خواہشوں اورانسانی حرص وہوس کامظہرکھانا،پینااورجنسی تعلقات ہیں۔ان ہی چیزوں سے ایک مدت اوروقت متعین تک رکے رہنے کانام روزہ ہے۔ لیکن ان کے علاوہ،دل اورزبان کامحفوظ رکھنابھی بربنائے احادیث روزہ کی حقیقت میں شامل ہے۔
قرآن مجیدمیں ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کوتدریجی طورسے بیان کیاگیا ہے تاکہ نفس آہستہ آہستہ اس اہم ذمہ داری کے اٹھانے کے قابل ہوسکے چنانچہ آیت کی ابتداء ’’اے ایمان والو‘‘کے لفظ سے کرکے بتادیاکہ آگے جوحکم دیاجارہاہے چاہے وہ تم پرکتناہی شاق گذرے،لیکن جب کہ تم نے مجھے رب مان لیااورمجھے اپناحاکم تسلیم کرلیاتوایمان کاتقاضہ ہے کہ اسے مان لو! کیونکہ الفت میں برابرہے ،وفاہوکہ جفاہو ہرچیزمیں لذت ہے اگردل میں مزاہو۔پھرآگے تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایاکہ یہ مت سوچناکہ یہ مشقت صرف تمہیں ہی دی گئی ہے ،بلکہ تم سے پہلی امتوں پربھی اس کی فرضیت ہوئی تھی۔اس طرح اللہ نے اس گرانی اوربوجھ کوختم کیاجوانسان پرکسی ذمہ داری کوتنہااداکرنے کے احساس سے ہوتاہے۔
دوسرے مذاہب کے برخلاف مذہب اسلام نے روزہ کاجونقشہ پیش کیاہے وہ اپنے آپ میں مکمل ،جامع اورہمہ گیر ہے۔اورقوانین اورمقاصددونوں کے لحاظ سے مکمل ہے۔اس نے ایک ہی ساتھ پوری امت مسلمہ کوروزہ رکھنے کاحکم دے کراپنی آفاقیت وجامعیت وہمہ گیریت کوثابت کیاہے اوران تمام کمیوں سے جودوسرے مذاہب کے روزہ میں تھی،دورکیاہے ۔آفاقی مذہب، اسلام نے بہانے کے تمام دروازوں کوبندکرکے ایک وقت میں اورایک ہی مہینہ میں روزہ رکھنے کاحکم دے کر اخلاص وتقویٰ کی زبردست روح پھونک دی ہے۔اس نے اس کے مقاصدکویوں بیان کیا’’لعلکم تتقون‘‘تاکہ تم متقی بن جائویعنی تمہارے اندرتنہائیوں اوربازاروں میں بھی خداسے ڈرنے کی صفت پیداہوجائے۔چنانچہ ایک روزہ دار جب تنہائیوں میں بھی ہوتا ہے توبھی پانی کاایک گھونٹ نہیں پیتا ۔کیوں کہ اس وقت صرف اورصرف یہی احساس توہوتاہے کہ’’ اللہ دیکھ رہاہے‘‘۔اوریہی چیزاسے روکتی ہے نافرمانی سے۔بس تنہائیوں اورمحفلوں میںیہی احساس پیداکرناکہ’’ اللہ ہمیں دیکھ رہاہے‘‘ ،مقصدہے روزہ کا،اسی احساس کانام ’تقویٰ ‘ہے اوراسی کانام حدیث کی زبان میں’ احسان‘ ہے کہ’’ اللہ کوہم دیکھ رہے ہیں‘‘،یاکم ازکم یہ احساس ہوکہ ’’اللہ ہمیں دیکھ رہاہے‘‘،جیساکہ ام الاحادیث ،حدیث جبرئیل میں احسان کی یہی تشریح کی گئی ہے۔
پیغمبرانہ تاریخ کے اصول میں سے ہے کہ نبی،جب کمال انسانیت کوپہونچ کرفیضان نبوت کے قبول اوراستعدادکاانتظارکرتاہے تووہ ایک مدت کے لئے عالم انسانیت سے الگ ہوکر،ملکوتی خصائص میں جلوہ گرہوجاتاہے۔چنانچہ وادی سیناکے پرجلال پیغمبرحضرت موسیٰ علیہ السلام ،کوہ سعیرکے مقدس رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام،توریت وانجیل کے نزول سے پہلے ان مراحل سے گذرتے ہیں،خودفاران کی چوٹی سے طلوع ہونے والے آفتاب رسالت پیغمبرآخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ،کابھی نزول قرآن سے پہلے غارحرامیں جلوہ گررہنامشہوراحادیث سے ثابت ہے۔لہٰذانزول قرآن کے مہینہ میںاعتکاف کی تاکیداسی لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کچھ وقت تک کے لئے ہی سہی، عالم ملکوتی سے مناسبت پیداکرنے کے لئے اس کے خصائص کواپناتے ہوئے بھوکے پیاسے رہ کرتنہائیوں میں درمحبوب پرپڑجایاجائے۔جی ڈھونڈھتاہے پھروہی فرصت کہ،رات دن بیٹھے رہیں تصورجاناں کئے ہوئے۔
روزہ وہ اخلاقی تربیت گاہ ہے جہاں سے آدمی کامل ومکمل ہوکراس طرح نکلتاہے کہ خواہشات کی لگام اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے جسے وہ اللہ کی مرضی کی طرف موڑتاہے،وہ خواہشات کے تابع نہیں ہوتابلکہ وہ خواہشات پرحکومت کرتاہے۔اسی لئے روزہ کوان نوجوانوں کاعلاج بتایاجومالی مجبوری کی بناء پرنکاح کی قدرت نہیں رکھتے کیونکہ یہ بہت سے گناہوں سے انسان کومحفوظ رکھتاہے یہی وجہ ہے کہ روزہ کوبعض گناہوں کے کفارہ میں بھی بعض صورتوں میں واجب کیاگیاہے۔اس کے ذریعہ انسان میں خشیت الٰہی کی ایک کیفیت پیداہوجاتی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک افطارکاوقت نہیں ہوتااوراللہ کامنادی اپنی اذان کے ذریعہ اِذن نہیں دے دیتااس سے ایک سکنڈپہلے بھی ہم حکم عدولی نہیں کرسکتے۔سامنے کھانے ،پینے کی عمدہ چیزیں رکھی ہوتی ہیں،لیکن اسے ہاتھ نہیں لگاسکتے توجب صرف اورصرف اللہ کی مرضی پرجائزاورحلال چیزوں کوانسان چھوڑسکتاہے توممنوعات ومحرمات کوتووہ بدرجہ اتم ہاتھ نہیں لگاسکتا،ایک مومن سے یہی امیدکی جاتی ہے ،اسی کی مشق کرائی جاتی ہے اوراسے اسی کااحساس روزہ کے ذریعہ کرایاجاتاہے کہ یہ کھانا،پینایہ سب تمہاری ضروریات میں داخل ہیںاورجائزہے اس کااستعمال تمہارے لئے ۔لیکن تم نے حلال چیزوں کوصرف خداکی رضاء کی خاطر چھوڑدیاتومحرمات کے پاس بھٹکنے کی جرات بھی تمہاری ایمانی شان کے منافی ہے۔آیت میں مذکور’’لعلکم تتقون ‘‘تاکہ تم تقویٰ والے بن جائو،کایہی مفہوم ہے اوراسی حقیقت کواس ’’لفظ تقویٰ‘‘ کے ذریعہ بے نقاب کیاگیاہے۔
روزہ کاایک مقصدیہ بھی ہے کہ انسان کوبھوکے رہ کر فاقہ کشوں پربیتی جانے والی مصیبتوں کااحساس ہو،یہی وجہ ہے کہ روایات میں رمضان کو صبراورغمخواری کامہینہ کہاگیا۔رمضان المبارک کے آخرمیں عیدالفطرسے پہلے پہلے،صدقہ فطردینے کوواجب قراردے کرغریبوں کے ساتھ اسی ہمدردی کوپیداکرنے کی ضرورت پرتوجہ دلائی گئی ہے ۔ نیزغریبوں کی کیفیت کاادراک کرکے جونعمتیں ملی ہیں ،ان کی اہمیت معلوم ہوجس کے نتیجہ میں شکرکی عادت پڑے روزہ کے مقصدکوبیان کرتے ہوئے’’لعلکم تشکرون‘تاکہ تم شکرگذاربنو‘سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب کسی مکان کی پینٹنگ کرنی ہوتی ہے تو اس پریونہی پینٹنگ شروع نہیں کردیتے ،بلکہ پہلے اسے کھرچتے ہیں،صاف کرتے ہیںپھراس پررنگ چڑھاتے ہیں تووہ دیرپاہوتاہے،چنانچہ دن بھرروزہ میںرکھ کرقلب انسانی کوکھرچاجاتاہے،اس کی خواہشات پرلگام لگائی جاتی ہے پھررات میں قرآن مجیدکی تلاوت کے ذریعہ اس کے قلب کو کلام الٰہی کے نور سے مزین کیاجاتاہے ،دن کے روزہ کے بعدرات میںتراویح کے اہتمام اورقرآن مجیدکی تلاوت کی کثرت کی احادیث میں موجودترغیبات سے یہی نکتہ معلوم ہوتاہے۔
یہ بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ انسان کوجب کسی سے محبت ہوجاتی ہے تواس محبت کا ایک درجہ یہ ہوتاہے کہ وہ، کھویاکھویاسارہنے لگتاہے،اسے محبوب کی یادمیں کھڑے ہوکر گنگناتارہنااچھالگتاہے،محبوب کی زبان سے نکلی ہوئی بات کووہ بارباردوہراتاہے۔پھرجب محبت اورآگے بڑھتی ہے تووہ، بھوکاپیاسارہنے لگتاہے،کھانے سے اسے رغبت نہیں ہوتی،کئی کئی دن یونہی گذرجاتے ہیں۔پھرمحبت کی چنگاری جب شعلہ بنتی ہے تومحبوب کی راہوں میں مال خرچ کرتاہے،روپئے لٹاتاہے ۔
اورجب یہ انتہاء کوپہونچ جاتی ہے تو پھروصال یارکیلئے اس کی گلیوں کاچکرلگانے لگتاہے،مال ،وقت اوردشواریوں کی پرواہ کئے بغیرمحبوب کے حصول میں دیوانہ واراس کے درودیوارتک پہونچ جاتاہے اوراس کی یہ حالت ہوجاتی ہے’’نہ غرض کسی سے نہ واسطہ ،مجھے کام اپنے ہی کام سے تیرے ذکرسے ،تیری فکرسے ،تیری یادسے ،ترے نام سے۔
نماز،خدا کی محبت اوراس کی یادمیں کھڑے ہوکراس کے کلام سے لذت پانے کانام ہے ،روزہ،اس کی محبت میں کھانے پینے کوچھوڑدینے کانام ہے ،زکوٰۃ اسے پانے کے لئے دولت لٹانے کانام ہے اورحج عشق ومحبت کے اس آخری مرحلہ کانام ہے جہاں صرف اورصرف محبوب کے درودیوارسے چپکے رہنے میں ہی لذت ملتی ہے۔اوراس کے گھرکے طواف میں ایک عجب سامزہ حاصل ہوتاہے اسی لئے دوسری عبادتوں کے برخلاف حج زندگی میں ایک ہی مرتبہ فرض کیاگیاجہاں انسان کووصال یارہوجاتاہے اورعشق کی ایسی تکمیل ہوجاتی ہے کہ وہ وہاں سے گناہوں سے ایساپاک وصاف ہوکرنکلتاہے جیسااپنی پیدائش کے دن تھا۔
اسلام نے روزہ میں صرف کھانے ،پینے اورجنسی تعلقات پرہی روک نہیں لگائی ہے بلکہ اس نے ہراس کام سے روکاہے جوروزہ کے مقصدکوپوراکرنے میں مخل ہوںچنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ کوئی روزہ کی حالت میں بدکلامی نہ کرے اوراگرکوئی اس پرآمادہ ہی ہوجائے توصاف کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔بخاری ،ترمذی اورابودائودشریف کی روایت کامفہوم ہے کہ کتنے روزہ دارایسے ہیں جن کوبھوک وپیاس کے علاوہ روزہ سے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
روزہ کے سلسلہ میں یہ اہم شرط بھی سامنے رہنی چاہئے کہ اسے دکھاوے اورنام ونمودسے پاک رکھاجائے،ایمان وایقان اوراحتساب کے ساتھ خالص خداکی رضاکے لئے اس عبادت کی انجام دہی ہو۔چنانچہ فرمایاآقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ’’من صام رمضان ایماناواحتساباغفرلہ ماتقدم من ذنبہ’جس نے روزے رکھے ایمان کے تقاضوں کوپوراکرتے ہوئے اوراس کے اجروثوا ب کوکوذہن میں رکھتے ہوئے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے‘‘۔ ان شرطوں کے اضافہ کے ساتھ یہ بتادیاکہ یہ روزہ محض اس لئے نہ رکھاجائے کہ لوگ بڑامتقی اورپرہیزگارسمجھیں یانہ رکھنے پر معاشرہ میں لوگ اس پرطنزنہ کریںگے ،یااس کے طبی فوائدکوسامنے رکھتے ہوئے بطورجسمانی علاج رکھ لیاجائے پھراس روزہ کاکوئی فائدہ نہیں ہوگااورروزہ کاجومقصدہے وہ اس سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اس کامقصدصرف اورصرف اللہ کی رضاہواوراسے عبادت سمجھ کرانجام دیاجائے ۔

محمدشارب ضیاء رحمانی
بصیرت نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں