رمضان کی رونق! اللہ اکبر!

رمضان کی رونق! اللہ اکبر!

رمضان المبارک کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو نعمتیں دی ہیں، بلکہ اپنی نعمتوں کو جس طرح ہم پر مکمل کیا ہے، اس کا شمار و اندازہ مشکل ہے۔ یہ نعمتیں روحانی بھی ہیں اور مادی بھی۔ انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ غرضیکہ احسانات اور انعامات کی بھرمار ہے جن کا شکر ادا کرتے سال گزر جائے اور اگلا رمضان آجائے تو بھی شکر ادا نہ ہو۔ اسی وجہ سے بعض اکابر سے منقول ہے کہ وہ رمضان کے بعد آدھا سال ان نعمتوں کے شکرانے میں گزارتے تھے جو انہیں اس مبارک مہینے میں حاصل ہوئیں اور بقیہ آدھا اگلے سال ان نعمتوں کے دوبارہ مل جانے کی دعائیں کرتے کرتے گزار دیتے تھے۔ بس بات اتنی سی ہے کہ ہر عبادت کی طرح اس مہینے کی عبادتوں کے بھی کچھ آداب ہیں۔ بس ان کو پورا کرلیا جائے تو کچھ ایسا باطنی اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے کہ انسان کو اس سے بڑی نعمت کوئی اور چیز لگتی ہی نہیں۔ من کی اس شانتی کے آگے ساری مادّی لذتیں ہیچ ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو روح کے ساتھ نفس بھی دیا ہے۔ جنتی روح صاف شفاف، صحت مند اور طاقت ور ہوگی، نفس اتنا ہی کمزور اور مسخر ہوگا اور نفس کو مسخر کرنے میں انسان کی روحانی معراج ہے۔ تمام مذاہب میں ریاضتوں کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ انسان نفس کی خباثتوں سے جان چھڑائے اور اس کی رذالتوں کا تصفیہ و تطہیر کرے۔
بس کامیاب انسان یہی ہے اور جو انسان جتنا زیادہ اس عمل میں ترقی کرے گا اتنا ہی کامل ہوتا جائے گا۔ خصوصاً پانچ بڑی روحانی بیماریاں ایسی ہیں جو متعدد دوسری چھوٹی بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔ ان کے ازالے اور علاج کا نام ہی تصوف و احسان ہے اور رمضان کو آداب کے مطابق گزارنے سے اللہ تعالیٰ یہ صلاحیت پیدا کردیتے ہیں کہ حسب مشقت و ریاضت ان پانچوں میں کمی ہوجاتی ہے، لہٰذا بزرگان دین میں اپنے مریدوں اور عام مسلمانوں پر پورے سال کی بہ نسبت اس مہینے میں خوب زیادہ محنت کرتے ہیں۔ وہ پانچ خطرناک بیماریاں یہ ہیں: تکبر، غضب، بخل، حرص اور شہوت۔ غور کیا جائے تو تمام انسانی عیبوں کی جڑ یہی پانچ چیزیں ہیں۔ انہی کی وجہ سے زندگی بھونچال کا شکار رہتی ہے۔ اگر ان کی اصلاح ہوجائے جس کا بہترین موقع انسان کو رمضان المبارک میں ملتا ہے، تو انسان کی زندگی بلکہ کائنات کے حالات ہی بہتر سے بہتر ہوجائیں۔

ان پانچ بڑی بیماریوں کی اصلاح کا موقع ملنے کے ساتھ اس مہینے میں انسان کو اسلام کی پانچوں بڑی عبادتوں پر عمل پیرا ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس مہینے میں پنج وقتہ جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی سے توفیق ملنے کے ساتھ مسجد اور تراویح کی نماز کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ بھی اکثر لوگ اسی مہینے میں دیتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان کروڑوں اربوں روپیہ زکوٰۃ کی مد میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور کئی گنا زیادہ ثواب پاتے ہیں۔ روزہ تو ماشاء اللہ ہے ہی اس مہینے کی پہچان۔ 15، 16 گھنٹے سے لے کر 20، 22 گھنٹے تک کا روزہ اللہ کے خوش نصیب اور باہمت بندے رکھتے ہیں۔ عورتیں اور بچے بھی اللہ کی محبت میں ہمت مردانہ دکھانے میں پیچھے نہیں رہتے۔ نماز، زکوٰۃ اور روزہ کے بعد مسلمانوں کی بڑی تعداد عمرہ کے لیے حرمین شریفین حاضری دیتی ہے جو ایک اعتبار سے ’’چھوٹا حج‘‘ ہے اور رمضان شریف کا عمرہ تو بس نصیب کی بات ہے۔ اللہ کے راستے میں اس کی خوشنودی کے لیے جہاد بالنفس یا جہاد بالمال میں بھی مسلمان پیچھے نہیں ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہم الحمدللہ امتیازی صفات کے حامل ہیں۔ غرضیکہ جس طرح سال بھر اللہ تعالیٰ کی مختلف انداز میں جان و مال پرستش مسلمانوں سے زیادہ روئے زمین کی کوئی مخلوق نہیں کرتی۔ اسی طرح رمضان المبارک میں تو کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ان جیسی ریاضت و عبادت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان عبادتوں اور دعائوں سے اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے انسانوں کے سال بھر تک کیے گئے گناہوں کا وبال ہٹاتے یا کم کرتے ہیں اور زمین کے باسیوں کو اپنی رحمتوں اور بخششوں سے نوازنے کے فیصلے کرتے ہیں۔ ایسا موقع کسی اور مہینے میں کہاں آتا ہے۔

ایک اور اجتماعی نعمت جس کا مظاہرہ حرمین شریفین اور غیرمسلم ممالک میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے، اور اس اجتماعی خوشی کا سبب ہوتا ہے جو سحر و افطار کے اجتماعی انتظامات کو دیکھ کر یا ان میں شریک ہوکر ملتی ہے۔ حرم مکی اور حرم مدنی میں دنیا کے سب سے بڑے دسترخوان لگتے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں خلق خدا کی خدمت و ضیافت ہوتی ہے کہ پوری دنیا میں اس کی کوئی نظیر ہی نہیں۔ ایک جائزے کے مطابق خانہ کعبہ میں افطاری کے لیے بچھائے جانے والے دسترخوان کی لمبائی 12 کلومیٹر طویل ہوتی ہے۔ اس دسترخوان کو طواف کرنے کی جگہ بچھایا جاتا ہے۔ اس پر 12 لاکھ روزہ دار ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں روزانہ اپنا روزہ کھولتے ہیں یعنی افطاری کرتے ہیں۔ اس افطاری پر روزانہ 10 لاکھ سعودی ریال خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی افطاری ہوتی ہے جو کہ صرف اور صرف 10 منٹ میں سمیٹ لی جاتی ہے۔ فرش کو دھوکر صاف ستھرا کردیا جاتا ہے۔ اس افطاری پر روزانہ 50 لاکھ کھجوریں کھانے کے لیے اور تقریباً 20 لاکھ کے قریب آبِ زم زم کی بوتلیں پینے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ سبحان اللہ! کعبے کی رونق، کعبے کا منظر! اللہ اکبر! اسی طرح منظر مسجد نبوی میں بھی ہوتا ہے۔

بعض غیرمسلم ممالک کے اسلامک سینٹرز میں جب مختلف اقوام، مختلف رنگ و نسل کے مسلمان افطاری سے پہلے جمع ہوکر انفرادی دعا میں مشغول ہوتے ہیں اور اذان کے الفاظ کے ساتھ ہی بسم اللہ پڑھ کے اکٹھے روزہ افطار کرتے ہیں وہ منظر غیرمسلم حضرات کے لیے انتہائی متاثر کن ہوتا ہے۔ اس طرح کے اجتماعات سے جو اسلامی اخوت، بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کی تصویر بنتی ہے وہ بلاشبہ رمضان المبارک ہی کی برکات ہیں۔

اس مہینے میں کچھ چیزیں ایسی میں جنہیں احتیاط اور اہتمام کیا جائے تو حدیث شریف کے مطابق یہ انسان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ مثلاً دن کا صیام اور رات کا قیام۔ ان دونوں میں مشقت بہت ہے، لیکن جیسی مشقت ہے ویسا اجر بھی ہے۔ جو شخص اس اجر پر یقین رکھ کر دن کا روزہ اور رات کی تراویح پڑھے، حدیث شریف کے مطابق اس کے پچھلے صغیر گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور ان اعمال کے دوران کبیرہ گناہوں سے توبہ کی نیت اور عزم کرلے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ پاک صاف کردیتے ہیں۔ صرف حقوق العباد کا معاملہ رہ جاتا ہے جو بہرحال انسان کو ادا کرنے چاہییں۔ آپ تصور کریں ایک انسان نے روزہ اور تراویح سے توبہ کی نیت کرلی، اب وہ رمضان کی کٹھالی سے گزر کر دھلا دھلایا نکلا۔ اتنے میں اس کی دنیوی مہلت پوری ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آجاتا ہے۔ تصور کریں اس کا سفر آخرت کتنا آسان اور ہلکا پھلکا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔ اور آخری بات یہ کہ دنیا کے مظلوم مسلمانوں کا خیال رکھا جائے۔ ہم جتنا ان پر خرچ کریں گے یا ان کے لیے کڑھیں گے، اللہ تعالیٰ ہم پر اتنا ہی کرم کرے گا۔ مصر و شام اور برما و بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی فکر اور خدمت ہمارے سب سے دکھوں کا مداوا کرنے کے ساتھ اس مہینے کی نعمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہونے کا آسان اور مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔

تحریر مفتی ابولبابہ شاہ منصور
ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں