پاکستان کی ضرورت ایک متحد نظام تعلیم ہے

پاکستان کی ضرورت ایک متحد نظام تعلیم ہے

۱۳؍رجب سنہ ۱۴۳۶ھ، (۳؍مئی؍۲۰۱۵ء) اتوار کے روز نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہم نے جامعۃ الرشید کراچی کی سالانہ تقریب میں شریک علماء و طلبہ اور دیگر معززین کے عظیم اجتماع سے بصیرت افروز خطاب فرمایا، جو افادہ عام کے لئے پیش ہے۔۔۔۔۔ (ادارہ البلاغ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین و امام المرسلین، و علی آلہ و اصحابہ اجمعین، و علی کل من تبعہم باحسان الی یوم الدین۔
اما بعد
اس قسم کے اجتماعات کا یہ دستور ہے کہ اس میں موجود چیدہ چیدہ اہم شخصیات کا نام لے کر ان سے خطاب کیا جاتا ہے اور پھر عمومی طور پر تمام حاضرین کا نام لیا جاتا ہے، لیکن اس وقت میرے سامنے جو شخصیات جس بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مجھے ان کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہو رہا ہے، ان سب کا نام لینا میرے لئے تطویل کا باعث ہے اس لئے میں تمام معزز حاضرین، علماء کرام اور تمام دانشورون اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمایان افراد کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
مولانا عدنان کاکاخیل صاحب نے فرمایا کہ کئی سال سے میری یہاں حاضری کے لئے ان کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی، حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب دامت برکاتہم اور جامعۃ الرشید کے احباب کئی بار اس خواہش کا اظہار فرما چکے اور کوشش بھی فرما چکے اور مجے حاضری کا موقع نہیں ملا، تو آج کے اس اجتماع میں حاضر ہونے کے بعد مجھے اپنی اس سابقہ محرومی کا احساس ہو رہا ہے کہ میں اس سے پہلے اس اجتماع میں کیوں شریک نہ ہوا۔
اللہ تعالی کی نعمتیں ہر آن ہر انسان پر مبذول رہتی ہیں لیکن کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالی عام لوگوں سے زیادہ غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازتے ہیں اور ہمارے بہت عزیز اور مکرم دوست اور ہمارے عزیز و مکرم ساتھی حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب کو اللہ تعالی نے ایسی ہی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ عمر میں مجھ سے کم ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالی نے علم فضل اور تقوی میں انہیں جس کمال کے منصب پر رکھا ہے وہ ہم جیسوں کے لئے قابل رشک ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ان کی خدمات میں مزید ترقی اور برکت عطا فرمائے اور ان کی موجودہ خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول عطا فرمائے۔ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جامعۃ الرشید کے ذریعے زندگی کے مختلف شعبوں میں دین کی تعلیمات کو سمونے اور رجالِ کار تیار کرنے کو جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کی نظیر ہمارے ملک میں کہیں اور موجود نہیں۔ مختلف جہتوں میں اللہ تعالی نے ان سے دین کی نشر و اشاعت کا کام لیا ہے اور وہ خاموشی سے بیٹھ کر ان تمام شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، اللہ تبارک و تعالی ہی اس کا بہترین اجر انہیں ان شاء اللہ عطا فرمائیں گے۔
جامعۃ الرشید کی یہ خدمات میرے لئے نئی نہیں ہیں۔ میری اس کنوکیشن میں حاضری بے شک پہلی بار ہو رہی ہے لیکن جامعۃ الرشید کی مختلف سرگرمیاں، اس کے مختلف شعبے، اور اس کے مختلف کام الحمدللہ میرے علم میں ہیں اور بعض چیزوں میں مفتی صاحب نے اپنی خوش گمانی کی وجہ سے مجھ سے مشورے بھی کئے۔ الحمدللہ یہ ادارہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ملک کے ان ممتاز اداروں میں سے ہے جو اس ملت کے عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں اور اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ یہ سلسلہ اور ترقی پائے گا۔
مولانا عدنان کاکاخیل صاحب کا فرمانا یہ تھا کہ چند منٹ میں ہی کمنٹ دئے جائیں، لیکن جب میں چلنے لگا تو مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہ فرمایا کہ تمہارے لئے وقت کی کوئی قید نہیں۔ تو نہ میں اس پابندی کا متحمل ہوں جو مولانا عدنان کاکاخیل صاحب نے لگائی تھی اور نہ اس آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں جو مفتی عبدالرحیم صاحب نے دی ہے۔ لیکن اختصار کے ساتھ دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
پہلی بات یہ کہ نظام تعلیم کسی بھی قوم کی زندگی، بقاء اور ارتقاء کے لئے ایک بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ اگر دنیا کے سارے وسائل جمع کرلیں لیکن آپ کا نظام تعلیم درست نہ ہو اور اس کے ذریعے اچھے افراد تیار نہ ہو رہے ہوں تو یہ سارے وسائل رکھنے کے باوجود، ایک اجتماعی دیوالیہ پن ہے جس کا نتیجہ بالآخر تباہی ہے۔ اگر آپ اپنے مستقبل کے نوجوانوں کو تیار نہیں کررہے، ان کو صحیح تعلیم نہیں دے رہے، ان کی صحیح تربیت نہیں کررہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مستقبل پر کلہاڑی چلا رہے ہیں، اور افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شاید ہر چیز کی کچھ اہمیت ہو، سیاست کی اہمیت ہے، الیکشنوں کی اہمیت ہے، الیکشنوں کی لڑائیوں کی اہمیت ہے، لیکن اگر کوئی چیز سب سے زیادی Neglected ہے جس کی طرف توجہ نہیں تو وہ ہمارا نظام تعلیم ہے۔ اور اسی کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ آج ہم تین مختلف قسم کے نظامہائے تعلیم کے تحت اپنے بچوں کو تیار کررہے ہیں۔ ایک نظام تعلیم دینی مدارس کا ہے، ایک نظام تعلیم سرکاری تعلیمی اداروں کا ہے اور ایک نظام تعلیم ان پرائیوٹ اداروں کا ہے جو انگلش میڈیم پا پبلک اسکول کہلاتے ہیں۔ یہ تین مختلف نظام تعلیم ہمارے ہاں چل رہے ہیں اور تینوں کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دینی مدارس کی تعداد پورے ملک میں تقریبا انیس ہزار ہے یہ وہ مدارس ہیں جو وفاق المدارس العربیہ سے تعلق رکھتے ہیں، دوسرے وفاقوں میں مدارس کی تعداد کا مجھے علم نہیں ہے، سب ملا کر بیس پچیس ہزار ہوں گے، اور ان میں تعلیم پانے والے طلبہ و طالبات کی تعداد تقریباً تیس سے پینتیس لاکھ تک ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں یہ تیس پینتیس لاکھ کی تعداد ہماری آبادی کا یک معمولی حصہ ہے، باقی سارا نظام تعلیم کسی اور رخ پر جارہا ہے، اور خاص طور پر ہمارے پرائیوٹ تعلیمی ادارے کسی اور رخ پر جا رہے ہیں، سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کے ذریعے افراد تیار کرنے کا بنیادی مقصد کیا ہونا چاہئے۔ عام طور سے ہمارے تعلیمی اداروں میں ایک ذہنیت پروان چڑھتی ہے اور وہی ذہنیت آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالتی ہے، وہ یہ کہ اس دنیا کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ میں جتنا زیادہ سے زیادہ دولت کما سکوں، شہرت پا سکوں، بڑے جاہ و منصب تک پہنچ سکوں وہی میری زندگی کا منتہائے مقصود ہے، اس سے آگے کی سوچ عام طور سے تعلیمی اداروں میں موجود نہیں ہے۔ الحمدللہ مدارس میں بحیثیت مجموعی جو صورتحال ہے وہ یہ ہے کہ یہاں طلبہ کا مقصد آخرت ہوتا ہے اور دنیا کی دولت اور ثروت اور مناصب کی حیثیت اس کے نزدیک ثانوی ہوتی ہے۔ استثناء ات یہاں بھی ہیں مگر میں نے بحیثیت مجموعی جو صورتحال ہے، وہ بیان کی ہے۔
معاشرے میں علماء کرام کے فرقہ وارانہ اختلافات کا تو بڑا شور ہے، کہ ان کے مختلف فرقے اور مکاتب فکر ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ کوئی فرقہ یا مکتب فکر دوسرے مکتب فکر کے لوگوں کو اس طرح کی گالیاں نہیں دیتا ہوگا جیسا کہ آج کل ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں۔ جو الفاظ و تعبیرات اور جو لہجہ دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، وہ میری نظر میں علماء کرام کے کسی بھی مکتب فکر میں موجود نہیں ہے۔ تربیت کے فقدان کی بناء پر ہم یہ حالات دیکھ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم، ہماری حکومت، اور ہمارے دانشور حضرات تعلیم کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔ ایک بات تو میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا۔

دوسری بات ہے یہ کہ حقیقت میں پاکستان کی اصل ضرورت ایک متحد نظام تعلیم ہے۔ میرے والدِ ماجد حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو پاکستان کے بانیوں میں سے تھے پاکستان بننے کے بعد سردار عبدالرب نشتر صاحب مرحوم نے ایک تعلیمی ادارے کے قیام کا تصور پیش کیا تھا، اس کے لئے ایک ابتدائی اجلاس بلایا تھا، اس میں حضرت والدِ ماجد مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بات ارشاد فرمائی تھی اور وہ یہ کہ پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان میں تین قسم کی درسگاہیں تھیں، ایک کی نمائندگی دارالعلوم دیوبند کرتا تھا جس سے علماء کرام پیدا ہو رہے تھے، ایک کی نمائندگی علی گڑھ کرتا تھا، جس سے جدید تعلیم یافتہ افراد پیدا ہو رہے تھے اور ایک کی نمائندگی دارالعلوم ندوۃ العلماء کرتا تھا جس سے ادب، شاعری اور تاریخ کے جاننے والے زیادہ پیدا ہوتے تھے۔ یہ تین مختلف طریقے تھے جو انگریز کے زمانے میں ہمارے ہاں چلے آرہے تھے اور اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے اپنے ایک قطعے میں ان تینوں پر تبصری کیا تھا، کہا تھا کہ:
قلبِ یقنطاں ہے مثالِ دیوبند اور ندوی ہے زبانِ ہوشمند
اب علی گڑھ کی بھی تم تمثیل لو اک معزز پیٹ تم اس کو کہو
یہ اس زمانے کے تینوں نظاموں پر انہوں نے تبصرہ کیا تھا، لیکن میرے والد ماجد نے اس اجتماع میں یہ فرمایا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ایک اسلامی ریاست کے لئے ہمیں نہ خالص دیوبند کی ضرورت ہے، نہ خالص ندوہ کی، نہ خالص علی گڑھ کی۔ بلکہ ہمیں ایک ایسے متحد نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر چیز اپنے مقام پر موجود ہو۔
انگریزی استعمار کے آنے سے پہلے سارے مسلمانوں کا ایک ہی نظام تعلیم ہوا کرتا تھا، اور درسِ نظامی میں جہاں دین پڑھایا جاتا تھا وہاں دین کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور ایک خاص سطح تک دین کی بنیادی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد تمام علوم میں جو شخص اختصاص پیدا کرنا چاہے اس کے لئے راستے موجود تھے، لیکن دین کی بنیادی معلومات ہر ایک کو حاصل ہوجاتی تھیں، یہ طریقہ تھا جو اسلاف کے وقت سے انگریزوں کے استعمار کے آغاز تک چلا آیا لیکن انگریزوں کے استعمار کے آنے کے بعد چونکہ سرکاری تعلیمی اداروں سے اسلام اور دین کو دیس نکالا دے دیا گیا اور اس میں اسلام کی تعلیم کا کوئی قابلِ ذکر حصہ موجود نہیں تھا، اس لئے علماء کرام مجبور ہوئے کہ وہ دارالعلوم دیوبند قائم کرکے کم از کم اسلامی علوم کو ہی سمیٹ کر بیٹھ جائیں، ان پر معاش کے دروازے بند کئے گئے، انہوں نے قربانیاں دیں، انہوں نے فقر وفاقہ برداشت کیا، موٹا جھوٹا پہن کر، روکھی سوکھی کھا کر دین اور اس کے علوم کو محفوظ کیا، کہ جب کبھی ضرورت پیش آئے تو ان علوم سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ تو حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پاکستان کو ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک تمام علوم ایک ساتھ پڑھائے جائیں اور دین کی اتنی معلومات میٹرک تک پہنچادی جائیں جس سے ایک مسلمان کو کم از کم یہ پتہ چل جائے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے، کس طرح کی زندگی اس کو جنت میں لے جائے گی اور کس طرح کی زندگی اس کو دوزخ میں لے جائے گی۔ یہ بنیادی معلومات اسے کم از کم حاصل ہوجائیں۔ اس کے بعد پھر شاخیں ہوں، کوئی انجینئرنگ کی طرف جا رہا ہے، کوئی میڈیکل سائنس یا کامرس کی طرف جارہا ہے، کوئی اسلامی علوم کی طرف جارہا ہے اور اس میں اختصاص اور مہارت پیدا کر رہا ہے یہی نظام ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بھی ہم اسی غلامی کے طریقہ کار پر چلتے چلے آئے اور ہم نے اسے بدلنے کی کوشش نہ کی، نتیجہ یہ ہے کہ اس سرکاری تعلیم کے نظام سے وہ لوگ تیار ہوتے ہیں کہ اگر انہیں کسی مجلس میں سورہ اخلاص سنانی پڑجائے تو وہ بھی ٹھیک سے نہیں سنا سکتے۔ اس لئے علماء کرام مجبور ہوئے کہ اپنے مدارس کو پھر سے سنبھال کر بیٹھیں اور کم از کم اسلامی علوم کا تحفظ کریں۔ آج کل لوگ بے سوچے سمجھے یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مدرسہ میں نئے علوم نہیں پڑھائے جاتے، لیکن وفاق المدارس میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ درس نظامی میں داخلہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک طالب علم نے میٹرک تک کی بنیادی علوم حاصل نہ کر لئے ہوں۔ اس کے بعد اسے اسلامی علوم میں اختصاص دیا جاتا ہے۔ یہ مدارس بے سر و سامانی کے باوجود یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، اور باوجودیکہ ان کا اختصاصی میدان علوم اسلامیہ ہیں اور وہی ان کا اصل مقصد وجود ہیں، اور چونکہ سرکاری سطح پر مطلوبہ نظام تعلیم کے قیام کے دور دور کوئی امید نہیں، اس لئے ان کا وجود و بقا دین کا وجود و بقا ہے، لیکن جس قدر ان سے بن پڑ رہا ہے اس کے مطابق وہ دوسرے شعبوں کے اندر بھی اسلامی تعلیمات کو سمونے کی کوشش کررہے ہیں، بہت سے ادارے اس میں کوشاں ہیں اور جامعۃ الرشید ان میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر انسان کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ درس نظامی کا پورا عالم ہو، البتہ یہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان کو اتنا علم حاصل ہو جسے شریعت کی اصطلاح میں فرضِ عین کہا جاتا ہے، اسے معلوم ہو کہ اسلام کے بنیادی احکام فرائض و واجبات اور ممنوعات و محرمات کیا ہیں۔ حلال و حرام میں کیا فرق ہے۔ جہاں تک اسلامی علوم میں اختصاص کا تعلق ہے تو وہ خود ایسا موضوع ہے جس میں انسان ساری زندگی کھپا سکتا ہے، تب اس میں وہ گہرائی پیدا ہوتی ہے۔
ان تمام پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے جب یہ کام چلیں گے تو مجھے اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود بہے بڑے خلا کا سدِ باب ہوگا۔ میں جامعۃ الرشید کے منتظمین، اساتذہ، طلبہ اور ان کے علاوہ ان سب حضرات کا تہ دل سے شکرگذار ہوں جنہوں نے جامعۃ الرشید کے کسی کام میں بھی معاونت کی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے ذریعے عظیم الشان کام لیا ہے، میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ اس کام کو اپنی رضا کے مطابق آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو طلبہ یہاں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں اور انہیں اسناد ملنے والی ہے میں انہیں، ان کے والدین کو اور تمام اساتذہ کرام کو بھی تہِ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، اللہ تبارک و تعالی ان کو صحیح سچا پکا مسلمان، اسلام کا داعی، اور اسلام کا بہترین نمونہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرے اور اللہ تعالی اس سلسلے کو عافیت کے ساتھ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ماہنامہ البلاغ – کراچی
شعبان المعظم 1436


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں