رمضان المبارک: کیاکریں اور کیا نہ کریں

رمضان المبارک: کیاکریں اور کیا نہ کریں

(۱) ماہِ رمضان کو عام مہینوں میں ایک امتیاز حاصل ہے۔ اسمیں اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے مغفرت رحمت کا دریا بہتا ہے۔ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اس ماہ کا زیادہ سے زیادہ وقت خدا کی اطاعت و بندگی میں صرف ہو اور دنیوی مصروفیات کو فی الحال مؤخر کر دیا جائے ورنہ یہ رمضان کی نا قدری ہوگی۔
لہٰذا ماہ رمضان میں عبادت کے لئے اس طرح اپنے آپ کو دیگر مصروفیات سے فارغ رکھنے کی کوشش کریں جس طرح شادی کے دنوں میں اپنے آپ کو دوسری سب مصروفیات سے فارغ رکھتے ہیں۔
(۲) ہر بالغ، عاقل اور تندرست آدمی روزہ رکھے، بِلا کسی شرعی عذر کے روزہ ترک کردینا اتنا سنگین گناہ ہے کہ زندگی بھر روزہ رکھنا بھی اس کی تلافی نہیں بن سکتا (حدیث)
(۳)گھر کا سربراہ اس بات کی نگرانی رکھے کہ گھر کا کوئی فرد بلا عذرشرعی روزہ ترک نہ کرے۔
(۴) جو شخص شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے وہ بھی رمضان کا مکمل احترام ملحوظ رکھے۔
(۵) پورے ماہ تراویح میں قرآن پاک سننے کا احترام کریں۔اگر کم دنوں میں قرآن پاک سن کرفارغ ہوجائیں تو دوسری جگہ قرآن پاک سنیں، نہ تراویح ترک کریں اور نہ اَلَمْ تَرَ کَیْف سے پڑھنے کا معمول بنائیں۔ اَلَمْ تَرَ کَیْفتو ہم پورے سال نمازوں میں سنتے ہی ہیں۔
(۶) بہتر یہ ہے کہ مسجد میں تراویح ادا کریں۔ اس میں دو گنا ثواب ہے۔
(۷) تراویح کے لئے ایسے امام کا انتخاب کریںجیسا کہ ہم پنجوقتہ نماز کے لئے انتخاب کرتے ہیں، یعنی جسمیں امامت کے شرعی اوصاف موجود ہوںاور جو قرآن پاک کو اس کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتا ہو، جسمیں امامت کے شرعی اوصاف نہ ہوںاس کے پیچھے نماز بھی ناقص ہوگی اور اس کو امام منتخب کرنے والے بھی گناہ گار ہوںگے (شامی)۔
(۸) الحمد سے لے کر والناس تک پورا قرآن اس طرح سنیں کہ ہماری نیت بندھی ہوئی ہو، جیسا کہ امام پورا قرآن اسی طرح سناتا ہے،امام کے پیچھے بیٹھے رہنا اور رکوع کے وقت بھاگتے دوڑتے اس کے ساتھ شامل ہونا قرآن میں اس کو منافقوںکی خصلت شمار کیا گیا ہے(التوبۃ)۔ نیز اس طرح قرآن پاک تراویح میں سننے کی سنت بھی ادا نہیں ہوتی، بلکہ بسا اوقات نماز بھی فاسد ہو جاتی ہے۔
(۹) تراویح کی رکعت بیس ہیں، چودہ سو سال سے امت کے عوام و خواص بیس رکعات تراویح ہی ادا کرتے آئے ہیں، آج بھی حرمین شریفین میں بیس رکعات تراویح ہوتی ہے، اسلئے اس سلسلہ میں کسی مغالطہ اور فریب کاشکار نہ ہوں۔
(۱۰) تراویح میں ختمِ قرآن کے لئے چند امور کی بطور خاص رعایت ضروری ہے: (۱) قرآنِ کریم تجوید کی رعایت کے ساتھ اس طرح پڑھا جائے کہ مقتدی حضرات بھی سمجھ سکیں ۔ (۲) سننے والے شوق و ذوق اور دلچسپی کے ساتھ سنیں، ایسا نہ ہو کہ امام نیت باندھے تراویح پڑھا رہا ہو اور پیچھے لوگ بیٹھے ہوئے ہوں یا کسی اور مشغلے میں مشغول ہوں۔ (۳) ہر رکعت میں صرف اتنی مقدار قرآنِ کریم پڑھیں، جس کو لوگ بشاشت کے ساتھ سنیں اور کوئی بار محسوس نہ کریں۔ (۴) کم ایام میں تراویح میں پورا قرآن کریم سن لینے کے بعد بقیہ ایام میں تراویح ترک نہ کی جائے۔ (۵) سنانے والا معاوضہ نہ لے۔ (چند اہم عصری مسائل،از: دار العلوم دیوبند)
آج کل جو کم دنوں میں قرآن کریم سننے اور سنانے کا رواج ہے اس میںاگر مذکورہ بالا امور ملحوظ رہتے ہوں تو اسکی گنجائش ہے اور اگر ان امور کا لحاظ نہ کیا جاتا ہو جیسا کہ عمومی صورتِ حال یہی ہے تو شرعاًاسکی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذاجہاں کم دنوں میںان امور کی رعایت کئے بغیرتراویح ہو رہی ہو اس میں شرکت سے پرہیز کریں۔
( ۱۱)عشرۂ اخیرہ میں محلہ کی ہرمسجد میںاعتکاف کا اہتمام کیا جائے۔ اگر محلہ کی کسی بھی مسجد میں کسی نے اعتکاف نہیں کیا تو تمام اہل محلہ ترکِ سنت کے وبال میں گرفتار ہوںگے۔
(۱۲) اس بات کی کوشش کی جائے کہ ہر گھر میں سے ایک آدمی ضرور اعتکاف میں بیٹھے، ایسا کرنے سے تمام گھر والے اعتکاف کی برکات سے مستفید ہوںگے ۔
(۱۳) اعتکاف میں بیٹھنے والا اعتکاف کے ضروری مسائل سے واقف ہویا کم ازکم اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے اسکے مسائل معلوم کرنے کا اہتمام کرے۔
(۱۴) ہمارے معاشرے میں اعتکاف کے لئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جاتا ہے کہ جس کے ذمہ کوئی کام نہ ہو، اور پھر اسکو اعتکاف میں بٹھاکر اپنے آپ کو فارغ سمجھ لیتے ہیں خواہ وہ اعتکاف کے اصول و آداب سے ناواقف ہو، یہ اعتکاف جیسی عظیم الشان عبادت کی ناقدری ہے۔
معتکف پوری بستی کی جانب سے اللہ تعالیٰ شانہٗ کے عظیم دربار میں نمائندگی کرتا ہے اس لئے اپنی طرف سے بہترین نمائندہ منتخب کریں۔
(۱۵) عشرۂ اخیرہ کی ہر رات نہایت اہم گویا شب قدر ہے، آپ ﷺ نے ہمیشہ عشرۂ اخیرہ کا اعتکاف فرمایا، تاکہ ان راتوں کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو، ہم بھی آپ ﷺ کی اتّباع کریں، اعتکاف نہ کر سکتے ہوں تو کم از کم ان راتوں کی ہی قدر دانی کر لیں۔ ہمارے معاشرہ میں عشرۂ اخیرہ کی بیش قیمت راتیںعبادت کے بجائے عید کی تیاریوں میں گزارنے کا رواج ہے، یہ ایساہے جیسا کہ سونے کے ڈلوں سے استنجا کرنا، اس لئے اپنے اس طرز عمل پرٹھنڈے دل سے نظرثانی فرمائیں۔
عید کی تیاری رمضان سے پہلے کریں، رمضان کے لمحات جنت کی اشیاء کی خریداری کے لئے ہیں، نہ کہ اس فانی دنیا کی معمولی اشیاء کی خریداری کے لئے۔
(۱۶) رمضان کی مثال دودھ کی ہے، آگ پر رکھا ہوا دودھ جتنا گھٹتا ہے اس کی توانائی میں اتناہی اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔اس کا تقاضہ یہ ہے کہ رمضان جیسے جیسے آگے بڑھے ہمارے شوقِ عبادت میں اضافہ ہو۔ اس کے بر خلاف ہمارے معاشرہ کا حال یہ ہے کہ شروع رمضان میں روزہ تراویح اور دوسری عبادات کا خوب اہتمام ہوتا ہے اور جیسے جیسے رمضان آگے بڑھتاہے ہم لوگ عبادتوں سے کنارہ کش ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ طرز عمل رمضان کے مرتبہ و مقام سے ناواقفیت کی علامت ہے اسلئے اس طرز عمل کو بدلیں۔
(۱۷) رمضان کے اخیر میں صدقۃ الفطر دینے کا اہتمام کریں، بہتر یہ ہے کہ عید سے قبل ادا کردیں تاکہ غربا عید کادن فراغت کے ساتھ گزار سکیں۔
(۱۸) جو لوگ رمضان میں زکوۃ ادا کرتے ہیںایک تو وہ صحیح حساب لگاکر زکوٰۃ ادا کریں، دوسرے از خود صحیح مصرف تک زکوٰۃ پہنچانے کا اہتمام کریں۔ بلا تحقیق ہر کس و ناکس کے ہاتھ میںزکوۃ کی رقم رکھ دینا زکوۃ پھینکنا ہے، نہ کہ زکوۃ ادا کرنا، جس سے زکوۃ کے فریضہ کی ادائگی مشکوک رہیگی
(۱۹) زکوۃ ہر اس مرد اور عورت پر فرض ہے جسکے پاس ۸۷ ؍گرام، ۴۸۰ ؍ملی گرام سونا یا ۶۱۲؍گرام ،۳۸۰ ؍ملی گرام چاندی یا انمیں سے کسی ایک کی قیمت کے بقدر نقد روپیہ یا بیچنے کی کوئی بھی چیز ہو۔
لہٰذا ہر مرد و عورت اپنی ملکیت کا جائزہ لے اور جسکے پاس ان چاروں چیزوں میں سے کوئی بھی چیز مذکورہ مقدار میں ہو وہ دیگر شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے زکوۃ ادا کرے۔
(۲۰) رمضان اور قرآن کا خاص جوڑ ہے، اسلئے رمضان میں قرآن کی تلاوت کی کثرت رکھیں، جو لوگ قرآن نہیں پڑھ سکتے وہ پڑھنے کی کوشش کے علاوہ کسی پڑھنے والے کے پاس بیٹھ کر پورا قرآن سننے کا اہتمام کریں۔ آںحضرت ﷺ باوجود یکہ آپ پر قرآن نازل ہوا مگر آپ حضرت جبرئیلؑ کو قرآن سناتے اور خود ان سے سنا کرتے (حدیث)۔
(۲۱) رمضان دعاؤں کا بھی مہینہ ہے اور امت کو اس وقت دعاؤں کی سخت ضرورت ہے۔ لہٰذا اپنے لئے ، تمام مسلمین و مسلمات اور خاص طور پر اس ملک کے امن و امان کے لئے دعاؤں کا اہتمام کریں، اور ہر دن کچھ وقت دعاء کے لئے فارغ رکھیں۔
(۲۲)نفلی عبادات کاکثرت سے اہتمام رکھیں، اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد کا معمول رکھیں۔ تمام دنوں کی بنسبت تہجد کا اہتمام رمضان میں بہت سہل ہے، سحر کے لئے کچھ پہلے بیدار ہوجائیںتو انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کی توفیق ہو جائیگی۔
(۲۳) نفلی صدقات کا بھی حسبِ وسعت اہتمام کریں۔ آنحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ رمضان میں کسی بھی سائل کو نا مراد نہیں لوٹاتے تھے۔ (حدیث)
(۲۴) رمضان کا ایک اہم تقاضہ یہ ہے کہ دن میں کھانے پینے کے ہوٹلوں کو کلی طور پر بند ررکھا جائے، کھانے پینے کے ہوٹل کھلے رکھنا اور بر سرِ عام کھانا پینا، رمضان کی توہین اور خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے، علاقہ کے ذمہ داران اس بات کی نگرانی رکھیں کہ ان کے علاقہ میں چائے اور کھانے وغیرہ کاکوئی ہوٹل رمضان کے دنوں میں نہ کھلے۔
(۲۵)گزشتہ کئی سالوں سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ رمضان آتے ہی اطراف و جوانب سے لاؤڈاسپیکر کو لے کر جھگڑے کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اس جھگڑے کے رونما ہونے میں ہمارے طرز عمل کوبھی دخل ہے، لاؤڈاسپیکر پر سحر و افطار کے طویل اعلانات کئے جاتے ہیں، رات کو جو آرام کا وقت ہے اسمیں سحر سے کئی گھنٹے قبل مسجدوںمیں لاؤڈاسپیکرپرنظم و نعت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور بعض علاقوں میںمغرب بعد بھی یہ سلسلہ چلتا ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں آج بھی ڈھول یا رکشہ میںلاؤڈاسپیکر رکھ کرسحر سے بیدار کرنے کی رسم خواہ مخواہ جاری ہے، یہ سب امور شرعی لحاظ سے بھی غلط ہیں کہ بوڑھے، مریض اورغیر مسلم افراد کی تکلیف کا سبب ہیں اور عقلی لحاظ سے اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے ،کیونکہ موبائل جس سے ہم صحیح اور غلط ہر کام لیتے ہیں، اگراس کو ہم سحر و افطار کے اوقات کی شناخت اور نیند سے بیدار ہونے کے لئے استعمال کریں ۔اور ہر مسجد میں جواوقات کا نقشہ آویزاں ہوتا ہے اس کو ملاحظہ کرکے اسمیں درج اوقات موبائل میں فیڈ کرلیں یا کسی کاغذ پر لکھ کر گھروں میں آویزاں کر لیں تو رمضان میںجولاؤڈاسپیکر کے استعمال کی کثرت ہوجاتی ہے وہ لغواور فضول محسوس ہوگی۔
نیزرات میںآنحضرت ﷺ کے عبادت کرنے کے اس طرز عمل کو بھی پیشِ نظر رکھیںکہ: ’’جب آپ تہجد کی نماز کے لئے بیدارہوتے تو آہستہ سے اٹھتے، پھر آہستہ سے دروازہ کھولتے کہ کہیں بیوی کی نیند نہ خراب ہو اور اسکو تکلیف نہ ہو‘‘یہ اور اس قسم کی دیگر روایات کے پیش نظر امت کے فقہاء اس پر متفق ہیںکہ تہجد کی نماز میں اتنی بلند آواز سے تلاوت کرناجس سے کسی کی نیند خراب ہو ناجائز ہے اور فقہاء نے بھی تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر کی چھت پر بلند آواز سے تلاوت کرے جبکہ لوگ سو رہے ہوںتو تلاوت کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔(خلاصۃالفتاویٰ ۱؍۱۰۳ شامی ۱؍۴۰۳۔۴۲۴)
لہٰذا ذمہ داران مساجد سے درخواست ہے کہ وہ رمضان میں بھی عام مہینوں کی طرح صرف اذان کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال کریںاور نماز میں بھی اندرونِ مسجد کا لاؤڈاسپیکر کھولیں، بیرونِ مسجد کا نہیں، نیز ڈھول اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ بیدارکئے جانے کی رسم کو ختم کریں، تاکہ ہماری عبادت دوسروں کی تکلیف کا سبب بننے سے محفوظ رہ سکے اور ’’آبیل، مجھے مار‘‘ والی صورتِ حال پیدا نہ ہو۔
(۲۶)رمضان میںجیسے عبادت کا ثواب بڑھ جاتا ہے ایسے ہی گناہ کا وبال بھی سخت ہو جاتا ہے اسلئے خاص طورسے رمضان میں تمام گناہوں سے مکمل پرہیز کریں، گانے بجانے کی تمام چیزیں کم از کم ایک ماہ کے لئے اٹھاکر رکھ دیں، نام نہاد دینی پروگرام، میوزک آمیز نظمیںاورمن گڑھت قوالیاں بھی نہ سنیں،اس ماہِ مبارک میں داڑھی کٹانے سے بھی اجتناب کریں،جھوٹ، غیبت، دل آزاری، حرام خوری سے پورے طور پر احتراز کریں اورآنحضور ﷺ کا یہ فرمان ہر وقت نگاہوں کے سامنے رکھیں:
رَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَمَضَانَ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ اَن یُغْفَرَلَہ (ترمذی)
یعنی: ایسا آدمی ذلیل وخوارہو جس کے سامنے رمضان اس طرح آکر چلا جائے کہ اسکی مغفرت نہ ہو سکے۔
ظاہر ہے کہ مغفرت گناہوں کو چھوڑے بغیر نہیں ہو سکتی۔
اِنْ اَنَا اِلاَّ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ۔

بشیر احمد، سہارنپوری
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں