مشرقی روایات کا جنازہ

مشرقی روایات کا جنازہ

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تنظیم اسلامی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جسے اس کالم میں شامل کیا جا رہا ہے تا کہ قارئین کے ساتھ ساتھ حکمرانوں اور دوسرے ذمہ داران کی توجہ ایک ایسے معاملہ کی طرف دلوائی جائے جس کو اگر اسی طرح نظرانداز کیا جاتا رہا تو اس کے نتائج ہمارے اور ہماری نسلوں کےلیے انتہائی سنگین ہوں گے۔
میں اس معاملہ پر کئی بار پہلے لکھ چکا مگر بگاڑ اس تیزی سے ہو رہا ہے کہ جتنا لکھا جائے وہ کم ہے۔ مگر افسوس کہ متعلقہ افراد، اداروں اور حکام کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔
ہو سکتا ہے کہ تنظیم اسلامی کی آواز ہی کوئی سن لے۔ خط کا متعلقہ متن ملاحظہ فرمائے:
ــ’’اگرچہ ہمارے معاشرے میں ایک عرصہ سے بعض فلموں اور ڈراموں میں فحاشی اور بے حیائی کی شکایت تھی لیکن چونکہ شریف النفس لوگ اس راستہ سے ہی گریز کرتے تھے اور پاکیزہ ذہن اور نیک فطرت لوگ تو اخبارات کے رنگین صفحات اور فلمی اشتہارات پر بھی خفا اور معترض رہتے تھی‘ لہٰذا صورتحال کبھی اتنی گھمبیر نہ تھی۔
لیکن جب سے الیکٹرونک میڈیا میں نجی چینلز کی اجازت ہوئی،جنہیں پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں دیکھا جاسکتا ہے‘ تب سے ہمارے یہاں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ شاید اس کا سبب یہ بھی تھا کہ مقتدر حلقوں نے ساتھ ہی یہ نوید بھی سنا دی تھی کہ میڈیا اب آزاد ہو گا۔
حضور والا! ہم انتہائی دکھ اور افسوس سے عرض گزار ہیں کہ یہ آزادی مادر پدر آزادی ثابت ہوئی اور اس شتر بے مہار آزادی نے گھر گھر داخل ہو کر ہماری مشرقی روایات اور اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ ایک ایسی تہذیب ہمارے گھروں میں گھس آئی ہے جو نہ صرف اسلامی تہذیب اور شعائر کی بلفعل دشمن ہے بلکہ حیاداری اور شرافت کے عام معیار و تصورات سے بھی متصادم ہے۔ یہ بے حیا تہذیب ہمارے معصوم بچوں اور نوجوان نسل کو ’’رحمان‘‘ سے دور اور ’’شیطان‘‘ کے قریب کر رہی ہے۔
بہرحال نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان عام گھرانوں میں جہاں شرم و حیا کا واجبی سا تصور ابھی موجود ہے‘ وہاں ماں بیٹا اورباپ بیٹی اکھٹے ٹیلی ویژن کے سامنے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس نوعیت کی شکایت بہت سے اطراف سے سامنے آئی۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ایک قابل لحاظ حصے میں اس حوالے سے خاموشی اضطراب پایا جانے لگا ہے‘ کیونکہ نوجوان نسل پر غیر معمولی طور پر اس کلچر کے منفی اور برے اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔
جناب عالی! تنظیم اسلامی نے مسئلہ کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوے گزشتہ دنوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں فحاشی اور عریانی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے خلاف اپنے عزیزوں، دوستوں اور اہل محلہ سے رابطہ کی بنیاد پر ایک دستخطی مہم شروع کی‘ جس میں حکومت کے ذمہ داران سے پرزور گزارش کی گئی تھی کہ وہ ان حوالوں سے فحاشی و بے حیائی کے سیلاب کو روکنے میں اپنا کردارمؤثر طور پر ادا کریں اور اس سلسلے کو روکنے کےلیے حکومتی قوت اور وسائل کو بروئے کار لائیں۔
ہمارے ساتھیوں کی چند ماہ کی محنت اور پاکستان کے عوام کے تعاون کے نتیجے میں نہایت قلیل مدت میں آٹھ لاکھ گیارہ ہزار دو سو دس (8,11,210) افراد نے ہماری اس مہم سے اتفاق کرتے ہوے اپنے دستخط کر دیے۔ ہمارے خواہش تھی کہ دستخط شدہ شیٹس ہم خود وزیر اعظم کو پیش کریں تا کہ اُن سے درخواست بھی کی جا سکے کہ وہ اعلیٰ ترین حکومتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس فحاشی اور بے حیائی کا قلع قمع کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں جو معاشرے کے جسد کو کینسر کے مرض کی طرح لاحق ہو گئی ہے۔ لیکن صد افسوس کہ ایک طویل عرصہ تک سر توڑ کوشش کے باوجود ہمیں وزیر اعظم تک رسائی نہ ملی۔ تب ہم نے اخباری اشتہارات کے ذریعے حکومت اور عوام دونوں سے درخواست کی کہ آئیے مل کر جہاد کریں اور شرم و حیا اور غیرت کو نیست و نابود کر دینے والے اس شیطانی طوفان کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہو جائیں‘ لیکن حکومتی سطح پر ہمیں کوئی رسپانس نہ ملا۔
ہم نے سپریم کورٹ میں ایک آئینی رٹ بھی دائر کر رکھی ہے کہ عدالت عظمیٰ آگے بڑھ کر اس کا نوٹس لے اور انتظامیہ کو حکم دے کی الیکٹرانک میڈیا پر فحاشی کے سیلاب کے آگے بند باندھے‘ لیکن سردست کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس نیک کام کی انجام دہی کےلیے کسی نئی قانون سازی کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ پہلے ہی سے ایسے قوانین موجود ہیں جن کی بنیاد پر فحاشی کے فروغ کے مرتکب افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پھر یہ کہ آئین کے آرٹیکل 31 کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدام کرے جن سے اسلامی اقدار کا فروغ اور عوام کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اُن کی زندگیوں کو اسلامی طرز حیات میں ڈھالنے میں معاون و مددگار بنے۔محترم! ہماری یہ عاجزانہ کاوش جس میں آپ کو لکھی جانے والی یہ تحریر بھی شامل ہے‘ اس کا حقیقی ہدف یہ ہے کہ روز قیامت اللہ کے حضور ہم یہ معذرت پیش کر سکیں کہ ہم نے قوم کو اس گناہ عظیم سے بچانے کےلیے حکومتی اداروں سے بھی رابطہ کیا اور افراد کے سامنے بھی اپنی گزارشات رکھیں۔
جناب عالی ہرمسلمان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جزا و سزا کے دن اللہ کے ہاں سب کو فرداً فرداً پیش ہونا ہے۔ ظاہر ہے معاشرے میں جو شخص زیادہ اثر و رسوخ کا مالک ہو گا اور جتنا بڑا منصب ہوگا‘پُرسش بھی اُسی قدر کڑی اور سخت ہوگی۔
آپ سے مودبانہ التجا ہے کہ آگے بڑھیں۔ اس سے پہلے کہ فحاشی کا کینسر معاشرے کی روحانی موت کا باعث بنے‘ آپ اپنا قومی اور دینی فریضہ ادا کریں تا کہ آپ بھی روز قیامت اللہ کے حضور سرخرو ہو سکیں۔‘‘

انصار عباسی
روزنامه جنگ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں