کراچی میں گرمی سے ہلاکتیں 1100 سے بڑھ گئیں

کراچی میں گرمی سے ہلاکتیں 1100 سے بڑھ گئیں

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں شدید گرمی سے مرنے والوں کی تعداد 1100 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ اندرونِ سندھ بھی30 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
چار دن تک شدید گرمی پڑنے کے بعد شہر کا موسم اب بہتر ہے لیکن اب بھی شہر کے ہسپتال اس گرمی سے متاثر ہونے والے افراد سے بھرے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے مطابق صوبائی محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے سب سے زیادہ افراد جناح ہسپتال میں ہلاک ہوئے اور وہاں درجنوں افراد کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔
جناح ہسپتال کے شعبۂ ہنگامی امداد کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمال کے مطابق بدھ کی شب تک وہاں 311 افراد کی گرمی اور اس سے متعلقہ امراض کی وجہ سے ہلاکت ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی عہدیدار ڈاکٹر سلمیٰ کوثر نے کارپوریشن کے زیرِ انتظام چلنے والے ہسپتالوں میں 207 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان ہسپتالوں کے علاوہ عباسی شہید ہسپتال سے 164، سول ہسپتال کراچی سے 123، لیاقت نیشنل ہسپتال سے 76، ادارۂ امراض قلب سے 51، ادارۂ اطفال سے 12 جبکہ دیگر نجی ہسپتالوں میں بھی 177 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ پی ٹی وی کے مطابق حیدرآباد کے علاوہ اندرون سندھ میں ٹھٹھہ، جیکب آباد، شکارپور اور لاڑکانہ میں 30 سے زیادہ افراد گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ کراچی میں گرمی سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ رہی۔
صوبائی حکومت نے بدھ کو پورے صوبے میں شدید گرمی کی وجہ سے عام تعطیل کا اعلان بھی کیا تھا۔
اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی وجہ سے شہر کے مردہ خانوں میں لاشیں رکھنے کی گنجائش بھی ختم ہو گئی جس کی وجہ سے لواحقین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان انور کاظمی کے مطابق گرمی کی لہر شروع ہونے کے بعد ابتدائی تین دن میں ہی 500 لاشیں ایدھی کے مردہ خانے لائی گئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں لاشیں مردہ خانے میں نہیں آئیں۔
کراچی میں ہلاکتوں میں کسی حد تک بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے بھی کہا ہے کہاگر لوڈشیڈنگ نہ ہوتی تو اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے بچا جا سکتا تھا۔
BBC Urdu


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں