تین صوبوں کا احساس محرومی

تین صوبوں کا احساس محرومی

تین سال پہلے کی بات ہے ۔کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی اور بہت سی سیاسی جماعتیں کراچی میں آپریشن کلین اپ کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ مئی 2012ء کی ایک گرم دوپہر کو میں عذیر بلوچ کو ملنے کیلئے کراچی کے مشہور علاقے لیاری پہنچا۔

یہ وہ دن تھے جب سندھ پولیس نے عذیر بلوچ کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے لیکن اسے گرفتار کرنے کیلئے سندھ پولیس کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ سندھ حکومت کے وزراء نجی محفلوں میں اپنی بے بسی کا رونا روتے تھے لہٰذا میں اس بے بسی کا سراغ لگانے لیاری پہنچا تھا۔ عذیر بلوچ کے ایک مرحوم ساتھی ظفر بلوچ نے مجھے چیل چوک آنے کیلئے کہا تھا۔ چیل چوک میں دو موٹر سائیکل سوار ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ ان لڑکوں نے کہا کہ آپ گاڑی پر آگے نہیں جا سکتے۔ ہم نے چیل چوک میں تعینات رینجرز والوں کے پاس اپنی گاڑی کھڑی کی اور موٹر سائیکل سواروں کے ہمراہ لیاری کی تنگ گلیوں میں داخل ہوگئے۔ لیاری کے اندر پہنچے تو وہاں عجیب منظر تھا جگہ جگہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تصویروں پر مشتمل بینرز آویزاں تھے۔ کچھ پرانے بینرز پر ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی تصویریں بھی تھیں لیکن زرداری صاحب کی تصویر پر سیاہی پھیری جا چکی تھی۔

میں نے کئی جگہ پر رک کر اپنے کیمرہ مین کے ذریعہ لیاری میں جنرل کیانی کے حق میں آویزاں بینرز کی تصویریں بنوائیں جب میں عذیر بلوچ کے پاس پہنچا تو ایسا محسوس ہوا کہ پرانے زمانے کا کوئی بادشاہ اپنا دربار سجائے بیٹھا ہے ۔ عذیر بلوچ کا انٹرویو شروع ہوا تو وہ بار بار اپنے آپ کو پاکستان کا سپاہی قرار دینے لگا ۔لیاری میں تھوڑا سا گھومنے پھرنے کے دوران پتہ چل گیا کہ یہاں کے بلوچ نوجوان بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سرگرم علیحدگی پسندوں کی سرکوبی میں استعمال ہو رہے ہیں لیکن ’’پاکستان کی خدمت‘‘ کی آڑ میں ان کی مبینہ طور پر مجرمانہ سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔

لیاری سے نکل کر میں سی آئی ڈی کراچی کے دفتر میں مرحوم ایس ایس پی چوہدری اسلم کے پاس پہنچا اور ان سے پوچھا کہ آپکی پولیس عذیر بلوچ کو گرفتار کرنے میں کیوں ناکام ہے ؟ اسلم چوہدری نے صاف صاف کہا کہ ہمیں فری ہینڈ دیدیں ہم 24گھنٹے میں اسے گرفتار کر لیں گے۔ اس ملاقات میں اسلم چوہدری نے مجھے کراچی کے ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کے لینڈ مافیا کے ساتھ تعلق کی نوعیت سمجھائی اور بتایا کہ کراچی میں قتل کی اکثر وارداتوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ لینڈ مافیا کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ لینڈ مافیا کے بااثر افراد مختلف جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان جرائم پیشہ افراد کو مختلف سیاسی جماعتیں بھی استعمال کرتی ہیں ۔ عجیب بات یہ تھی کہ 2012ء میں پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی حکومت تھی لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی میں کوئی بڑا آپریشن شروع نہ کر سکی ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت انتہائی نااہل تھی ۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور کچھ وزراء میں اختیارات کا جھگڑا تھا اہم عہدوں پر کرپٹ افراد فائز تھے جنہوں نے صوبائی حکومت کو کوئی اہم فیصلہ نہ کرنے دیا ۔ یہی صورتحال موجودہ صوبائی حکومت کو بھی درپیش ہے ۔

اس خاکسار نے یہ لمبی تمہید صرف یہ عرض کرنے کیلئے باندھی ہے کہ کراچی میں جرائم اور دہشت گردی کا کرپشن کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے جب سے سندھ رینجرز نے کراچی میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا ہے، یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا رینجرز نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ رینجرز ایک وفاقی ادارہ ہے ۔ رینجرز کو ایک صوبائی ادارے کے دفتر پر چھاپہ مارنے سے قبل صوبائی حکومت کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ یقیناً صوبائی اداروں میں بیٹھے کئی اہم افراد کا کراچی کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور ان کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ضرورڈالنا چاہئے۔یہ کام سندھ حکومت کو کرنا چاہئے تھا اگر وہ نہیں کرے گی تو پھر یہ کام رینجرز کرے گی لیکن یہ کارروائی صرف سندھ تک کیوں محدود ہے؟ جب سے آصف علی زرداری نے ایک متنازع تقریر کے ذریعہ رینجرز کو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی ہے، رینجرز اور نیب نے کراچی میں کئی سرکاری افسران کو گرفتار کرکے ان کے خلاف چارج شیٹ جاری کردی ہے۔ میڈیا میں ایسے الزامات بریکنگ نیوز بن رہے ہیں جو ابھی تک عدالتوں میں ثابت نہیں ہوئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چند دنوں کے بعد یہ الزامات بھی صولت مرزا کے ویڈیو بیان کی طرح کہیں غائب ہوجائیں اور عدالتوں میں کچھ بھی ثابت نہ ہوپائے؟
رینجرز اور نیب کی طرف سے کراچی میں کی گئی حالیہ گرفتاریوں پر عام لوگ کافی مطمئن ہیں لیکن عوامی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا کرپشن صرف سندھ میں ہورہی ہے ؟ حالیہ دنوں میں کئی وفاقی وزراء نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کو مشورہ دیا کہ وہ غصے سے بھری تقریریں کرنے کے بجائے سندھ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ مشورہ بالکل ٹھیک ہے لیکن وفاقی حکومت کا اپنی کارکردگی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اچانک بڑھ گئی ہے اور مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ کیا لوڈ شیڈنگ کوئی قدرتی آفت ہے؟ جی نہیں! لوڈ شیڈنگ ایک سرکاری آفت ہے اور اس کی بڑی وجہ سرکار کی نااہلی ہے۔ سرکار کی نااہلی کے باعث واپڈا میں لائن مین سے لے کر ایس ڈی او تک سب کرپشن کے لئے بدنام ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف شاید بھول گئے کہ 1998ء میں انہوں نے واپڈا کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے فوج کو استعمال کیا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ2015ء میں بھی آپ واپڈا کو فوج کے حوالے کردیں۔ فوج کا کام واپڈا کو چلانا نہیں ہے لیکن اگر رینجرز کراچی میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارے گی تو لوڈشیڈنگ کے ستائے شہری یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ کچھ علاقوں میں کم کچھ میں زیادہ لوڈ شیڈنگ کیوں ہوتی ہے؟ واپڈا بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ نیب نے واپڈا کے کتنے کرپٹ افسران کے خلاف مقدمے بنائے؟
رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ایک طرف لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوا دوسری طرف مہنگائی میں ا ضافہ ہوگیا۔ کیا یہ مہنگائی صرف سندھ میں ہوئی؟ جی نہیں! پورا پاکستان رمضان المبارک میں ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے ہاتھوں تنگ ہے۔ ملک کی تمام بڑی مارکٹیوں میں عوام کو لوٹنے والے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو رمضان المبارک میں لاکھوں کروڑوں روپے کا’’نذرانہ خاموشی‘‘ سے ادا کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ لاہور سے گاڑی چوری کرکے کوہاٹ پہنچائی جاتی ہے اور گاڑی کے مالک کو فون پر کوہاٹ بلا کر معاملہ طے کیا جاتا ہے۔ لاہور سےکوہاٹ کے درمیان ہر ناکے اور چیک پوسٹ پر’’نذرانہ خاموشی‘‘ سے وصول کیا جاتا ہے۔ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کرنے والوں کا تعلق بھی لینڈ مافیا سے ہے۔ لینڈ مافیا علمدار روڈ کے بڑے حصے پر قبضہ کرچکی ،اب اس کی نظر ہزارہ ٹائون پر ہے۔ آئی جی ایف سی بلوچستان ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث افراد کو چمن سے گرفتار کرکے ہمیں یہ سوال پوچھنے پر مجبور کردیتا ہے کہ ہزارہ ٹائون میں دہشت گردی کرنے والے روزانہ چمن سے آتے جاتے ہیں آپ انہیں کب گرفتار کریں گے؟ قصہ مختصر یہ کہ زمینوں پر قبضے صرف کراچی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہوتے ہیں اور لاہور میں ریلوے کی زمین پر قبضہ کرنے اور کرانے والوں سے تو پورا ملک واقف ہے۔ ایک زمانے میں اس قبضے کی انکوائری جناب ایاز صادق صاحب نے کی تھی لیکن آج کل اس معاملے پر خاموشی ہے۔ کرپشن صرف کراچی میں نہیں پورے ملک میں ہورہی ہے کرپشن کے خلاف کارروائی صرف کراچی میں نہیں پورے ملک میں ہونی چاہئے۔ کراچی میں حالیہ کارروائیوں نے پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کشمیر والوں کو احساس محرومی کا شکار کردیا ہے، کم از کم واپڈا اور ریلوے میں کرپشن کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے اس احساس محرومی کو تو ختم کردیں۔

حامد میر

بشکریہ روزنامہ جنگ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں