ایک انوکھے مدرسے کی رودار

ایک انوکھے مدرسے کی رودار

آج کل مدارس کی دنیا میں تعلیمی سال کا اختتام ہورہا ہے۔
ختم بخاری شریف، جلسہ دستار بندی، اختتامی تقریبات، الوداعیہ محفلوں، دعاؤں اور مبارک بادوں کا موسم ہے۔ اس موقع پر ہمارے اکابرین جو نصیحتیں اور وصیتیں فضلائے کرام کو کرتے آئے ہیں، ان کا نمونہ اور خلاصہ راقم الحروف نے ’’پاجا چراغِ زندگی‘‘ کے نام سے یکجا کردیا ہے۔ یہاں میں مدارس کی خدمات کے مختلف روشن پہلوؤں میں سے ایک انوکھے پہلو کا ذکر کرکے آج کی محفل کو رونق بخشنا چاہوں گا۔ دینی مدارس یوں تو مختلف جہات سے دین کی تعلیم، اشاعت، حفاظت اور سربلندی کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن ان کی خدمات کے کچھ گوشے ایسے ہیں جہاں تک عام آدمی، بلکہ خود ہماری یعنی ان لوگوں کی جو پیدائشی ’’مسیتیے‘‘ ہیں، کی نظر بھی نہیں پہنچتی۔ مجھے ایک ایسے مدرسے میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سماعت اور گویائی سے معذور گونگے بچوں کو اشاروں کی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ جو استاذ تعلیم دیتے تھے، ان کا ایک بھائی گویائی سے معذور تھا۔ اسے جب اسکول میں داخل کیا گیاتو اسکول کی انتظامیہ نے ان کے خاندان سے ایک فرد کو طلب کیا کہ اسے بھی اشاروں کی زبان سکھا دی جائے تاکہ رابطے کا ذریعہ اور گھر میں پڑھائی کی دہرائی کا انتظام ہوسکے۔ ان کے گھر سے انہیں بڑے بھائی کو بھیجا گیا وہ آگے چل کر عالم دین بنے اور انہوں نے اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے بچوں کے لیے دینی تعلیم کا انتظام کیا۔ آہستہ آہستہ اس میں مہارت حاصل کرلی۔ اب وہ گویائی سے معذور بچوں کے معلم اور تبلیغی جماعت میں ان کے مترجم تھے۔ بہت عمدگی سے اپنے فرائض یا خدمات انجام دیتے تھے۔

آج میں جس مدرسے کا ذکر کرنے چلا ہوں یہ بینائی سے معذور بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے علمائے کرام کے ساتھ ایک نشست میں مجھے بتایا گیا کہ یہاں ڈربن کے قریب ایک مدرسہ ہے جہاں ایسے مخصوص بچوں کے لیے قرآن شریف سے لے کر بخاری شریف تک تعلیم کا مکمل انتظام ہے اور ایسے بچوں کو پڑھائی کی جدید سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ یہ تذکرہ بھی ہوا کہ اگر وہاں ’’قرآنی عربی کورس‘‘ کروایا جائے تو دوسرے مدارس کی بہ نسبت زیادہ مفید ہوگا کہ یہ بچے کانوں کی سماعت اور ہاتھوں کی حرکت کے ذریعے سیکھنے کے عمل کو زیادہ بہتر طور سے اپنا سکتے ہیں۔ ایک دن (5 فروری 2015ء بمطابق 13 ربیع الثانی 1436ھ) وقت طے کر کے ہم پُرفضا علاقے میں واقع اس انوکھے مدرسے میںجاپہنچے۔ اس کانام ’’مدرسۃ النور للمکفوفین‘‘ (Madrassa An-Noor For the Blind) تھا یعنی ’’نہ دیکھ سکنے والوں کے لیے روشنی کا مرکز۔‘‘ یہ ڈربن کے قریب واقع شہر ’’پیٹرز میریز برگ‘‘ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ’’سدارا‘‘ (Cedara) نامی مضافاتی علاقے میں تھا۔ مدرسہ وسیع و عریض رقبے پر مشتمل تھا۔ قریب بڑے بڑے ڈیری فارم اور ایک کلچرل کالج تھا۔ علاقے میں بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں۔ زمین کے نیچے پانی کی سطح بھی قریب تھی۔ اس لیے ہرطرف سرسبزی اور شادابی فطرت کے حسن کا شاہکار استعارہ بنی پھیلی ہوئی تھی۔ پہلا دن تو کورس کروانے میں گزرا۔ الحمدللہ! اس میں مدرسے کے تمام اساتذہ سے شیخ الحدیث اور ناظم صاحب سمیت شریک ہوئے۔ ’’قرآنی عربی کورس‘‘ کو اپنے طلبہ کے لیے ایسا مفید پایا کہ اگلے دن سے ہی مختلف درجات میں اس کا آغاز کردیا گیا۔ ہوا یوں کہ کورس کے تعارف کے دوران احقر نے عرض کیا کہ عربی الفاظ کی تعبیر اشاروں سے کرتے وقت ہاتھ کی انگلیوں کو سر کی آنکھ سے نہ دیکھیں۔ تصور کی آنکھ سے دیکھیں۔ اس پر ایک استاذ نے کہا: ’’تب تو یہ کورس ہمارے بچوں کے لیے ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگا کہ وہ صرف تصور کی آنکھ سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ سر والی آنکھ سے تو ان کے لیے دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد سب نے دلچسپی سے کورس میں حصہ لیا۔ اللہ کا فضل شامل حال رہا کہ ان بچوں کی خدمت میںکسی قدر ہاتھ بٹانے کا موقع ملا۔

اس مدرسے کا آغاز کیسے ہوا؟ مہتمم صاحب کو کیسے یہ خیال سوجھا؟ یہاں کیا کام ہورہا ہے؟ یہ سب تو آپ مدرسے کے مہتمم حضرت محمد حسن مرچی صاحب دامت برکاتہم کے انٹرویو میں پڑھیں گے۔ یہاں میں چند مشاہدات ذکر کرتا ہوں۔ اس مدرسے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے اپنا ’’بریل ڈیپارٹمنٹ‘‘، ’’آڈیو ڈیپارٹمنٹ‘‘ اور اپنا ’’پریس‘‘ قائم کیا ہوا تھا۔ جس میں نورانی قاعدہ اور قرآن شریف سے لے کر دورۂ حدیث تک مکمل درسِ نظامی کو نابینا بچوں کے لیے مخصوص چھو کر پڑھنے والی کتب اور سن کر سمجھنے والی سماعت میں تبدیل کیا ہوا تھا۔ ہرطالب علم کو وائس ریکارڈر، ایم پی تھری، کمپیوٹر اور کتب مدرسہ کی طرف سے فراہم کی جاتی تھیں۔ رہائش، طعام، لباس اور علاج کے علاوہ کپڑے دھونے کے لیے اور استری کرنے کے لیے بھی مخصوص خدام تھے۔ مسجد کی صفوں میں ترتیب سے بٹھانے اور کسی نمازی سے ٹکرانے سے بچنے کے لیے کچھ اساتذہ کا تقرر بھی کیا گیا تھا۔ مجھے کچھ اسباق میں بیٹھنے کا موقع ملا تو ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ آخری درجات میں حدیث شریف کے ساتھ قراء ات سبعہ بھی پڑھائی جاتی ہے۔ ہر طالب علم قراء ت کے گھنٹے میں دو دو ، تین تین رکوع تیار کے لاتا تھا۔ استاذ صاحب کو سنا کر تصحیح کرواتا تھا، جبکہ مشاہدہ ہے کہ اکثر نابینا بچوں کی آواز خوبصورت ہوتی ہے۔ آپ تصور کریں ایک نابینا قاری ہو، عالم ہو اور خوبصورت آواز رکھتا ہو اور مختلف قراء توں میں قرآن شریف پڑھ کر سنائے تو کیا سماں بندھتا ہوگا؟

اس مدرسے میں دو تین ایسی الماریاں مختلف قسم کی چیزوں سے بھری ہوئی تھیں جن میںبچوں کو چھو کر شناخت کرنے کے لیے مختلف چیزوں کی شکلوں اور ناموں سے تعارف کروایا جاتا تھا۔ بچوں کی تفریح مختلف اقسام کے جھولوں کے علاوہ مختلف قسم کے کھیلوں کے لیے مخصوص گیندیں بھی فراہم کی گئی تھیں۔ عصر کے بعد خوب میلا سجتا تھا۔ مدرسے میں آئے ہوئے پودینہ کی چائے کے ساتھ اس میلے کے نظارے کبھی نہ بھولیں گے۔ مختلف قسم کے جانور بھی مدرسے میں رکھے گئے تھے تاکہ بچے ان کی آواز وغیرہ سے جانوروںکی شناخت کریں۔ ایک گھوڑا بھی تھا۔ فلسطین کا ایک نابینا بچہ اس پر ایسی تیز رفتاری سے سواری کرتا تھا کہ آنکھوں والے بھی کیا کرتے ہوں گے! اس مدرسے میں لکھے ہوئے حروف والی کتاب صرف اساتذہ کے پاس تھی۔ طلبہ کے پاس سفید اوراق، سفید حروف والی کتابیں اور بغیر مانیٹر کے کمپیوٹر تھا۔ مدرسے کے بیسنوں پر شیشہ نہ تھا، البتہ صابن جالی میں باندھ کر نلکے سے لٹکائے جاتے تھے تاکہ پھسل کر غائب نہ ہوجائیں۔

جن 15 مختلف ملکوں کے بچے یہاں پڑھتے تھے ان میں بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا کے علاوہ تنزانیہ، ملاوی، کینیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ وغیرہ شامل تھے۔ جس دن راقم مدرسے سے رخصت ہورہا تھا، ایک انڈونیشیا کا بچہ بھی داخلہ لینے کے لیے آیا ہوا تھا۔ پاکستان سے مسعود جان نامی طالب علم وہاں پڑھتا رہا تھا۔ جو پاکستان بلائینڈ ٹیم کا رکن تھا اور شنید تھی کہ اب پاکستان ٹیم کا کوچ یا اسسٹنٹ کوچ ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک اور پاکستانی عالم مولانا وقار کے نام سے مکمل تعلیم حاصل کر کے اب کراچی میں ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نابینا بچوں کو پڑھانے کی مکمل تربیت دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے اداروں کو خوب ترقی دے جو معاشرے کے مخصوص بچوں کے لیے فکر مند ہیں اور پوری دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے کام میںمصروف ہیں۔ مدرسے کے مہتمم صاحب، ناظم صاحب، شیخ الحدیث صاحب اور اساتذۂ کرام وعملے کے علاوہ بندہ کی معاونت کے لیے مخصوص استاذ مولانا قاسم صاحب اور ادارے کے طالب علم مولانا نعیم صاحب کی محبت اور تعاون کبھی فراموش نہ کر سکے گا۔ خصوصاً وہ منظر جب فقیر اس مدرسے سے رخصت ہونے لگا تو سب نابینا طلبہ باہر تک آئے۔ ایسے مناظر تادم حافظے پر نقش رہیں گے اور حُبّ فی اللہ کے مکمل اجر کی امید دلاتے رہیں گے۔

تحریر: مفتی ابولبابہ شاہ منصور
ضرب مؤمن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں