سودی نظام اور زلزلے… ایک رُخ یہ بھی ہے!!

سودی نظام اور زلزلے… ایک رُخ یہ بھی ہے!!

’’بڑے فیوڈل لارڈز اور دیگر شعبوں کے مقتدر افراد نے مولوی نما دانشوروں کو اس کام پر لگا رکھا ہے کہ وہ سود کے خلاف خوب واویلا کرتے رہیں، بالخصوص بینکوں کے منافع کو بطور سود اس میں شامل رکھیں اور اللہ کی طرف سے جنگ کے حوالے سے خوب خوف پیدا کریں۔‘‘ یہ الفاظ ایک فاضل مضمون نگار کے ہیں جو انہوں نے گزشتہ دنوں کہے۔ آخر میں انہوں نے ہم ایسے کالم نگاروں کو مشودہ دیتے ہوئے لکھا کہ پڑھے لکھے لوگوں میں توہم پرستی پھیلانے اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے روشن خیالی کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔‘‘ قارئین پس منظر اور پیش منظر کے طور پر یاد رکھیں اسلامی علوم کے تمام ماہرین اس پر متفق ہیں کہ سود کی تمام شکلیں ازروئے شرع ناجائز ہیں۔ اسی طرح تورات اور بائبل کی تعلیمات بھی سود کی ممانعت کرتی ہیں۔ ایک عرصے تک عیسائی اور یہودی معاشروں میں بھی سود سے گریز کیا جاتا تھا۔ چاہے وہ شائیکلاک کا سود ہی کیوں نہ ہو۔ شائیکلاک مشہور یہودی ساہو کار تھا جو سود خوری میں شقاوت کی حد تک سنگدلی کے مظاہرے کرتا تھا۔ وہ سود کے بدلے میں انسان کا گوشت تک کاٹ لیتا تھا۔ قرآن کریم احوالِ آخرت کی ابتدا بیان کرتے ہوئے فرماتاہے: ’’جو لوگ سود کماتے ہیں، وہ قبروں سے اس حالت میں اٹھیں گے کہ ان کی کیفیت اس شخص کی طرح ہوگی جسے شیطان نے چھو کر مرگی میں مبتلا کر دیا ہو۔‘‘ (البقرۃ: 275) سود کھانے اور مرگی میں مبتلا شخص کے حواس باختہ ہونے میں مناسبت اسرارِ شریعت کے کھوجیوں کے لیے دلچسپ سوال ہے۔ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سزا قوم کو بے روزگاری کے مالیخولیا اورمہنگائی کی مرگی میں مبتلا کرنے کا جرم انتہائی سادگی و پرکاری سے نبھانے اور نبھاتے چلے جانے کا بدلہ ہے
ماہرینِ ارضیات کی مختلف رپورٹوں کے مطابق آیندہ سالوں میں خوفناک زلزلے، سیلاب، آندھی طوفان اور تباہی آنے کا شدید امکان ہے۔ ویسے پچھلے کئی سالوں سے امریکا، یورپ، ایشیاء پوری دنیا میں ہولناک طوفان اور زلزلے آبھی چکے ہیں۔ 1999ء میں ترکی میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا جس میں 30 ہزار کے قریب لوگ مارے گئے۔ 2004ء میں سونامی کی تباہی کے آثار اب تک ہیں۔ 8اکتوبر 2005ء میں پاکستانی علاقوں سرحد اور کشمیر میں آنے والے شدید ترین زلزلے کی صورت میں ایک ایسا کرب ناک انسانی حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں آناً فاناً سوا لاکھ سے زائد انسان مرگئے تھے۔ 2005ء میں میانمار میں اس قدر شدید زلزلہ آیا کہ گائوں کے گائوں، شہر کے شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ 2 لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ چین میں زلزلے اور طوفان کے ایک جھٹکے میں 22؍ ارب کا نقصان ہوا تھا۔ اب نیپال میں قیامت خیز زلزلہ آیا ہوا ہے۔ زلزلے، حوادث اور طوفانوں سے متعلق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں آتے ہیں؟ اس کے مختلف مادی اور روحانی اسباب ہیں۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں: ’’زمین اور آسمان میں جو فساد ظاہر ہوتا ہے اس کا سبب انسانوں کے اپنے اعمال ہی ہیں۔‘‘ (سورئہ روم: 41) انسان جیسے اعمال کرتا ہے ویسے ہی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسے حوادث کے ذریعے اللہ تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ توبہ اور رجوع کریں۔ یہ علاماتِ قیامت میں سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین ہلنے لگی تو آپ نے زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ’’ٹھہر جا! ابھی قیامت کا وقت نہیں آیا۔‘‘ پھر آپ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور معافی مانگو۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے زلزلوں اور حوادث کا ایک بڑا سبب گناہ، ناانصافی اور ظلم وستم بھی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں زلزلہ آیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اس زلزلے کا سبب لوگوں کے گناہ ہیں۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کے ذریعے اللہ تنبیہ فرماکر توبہ واستغفار کروانا چاہتے ہیں۔‘‘ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنہری اور ابدی تعلیمات کی روشنی میں سوچنا اور غوروفکر کرنا چاہیے۔ ہمیں غیرمسلم اور لادینوں کی طرح سوچنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

اہم بات یہ ہے ہر چیز کے دو اسباب ہوتے ہیں ایک روحانی دوسرا مادی۔ زلزلے، طوفان اور سیلاب کے دونوں پہلوئوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسلام نے مادی اسباب سے قطعاً منع نہیں کیا بلکہ زمینی حقائق کو تسلیم کیا ہے۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ مسلمان صرف روحانی سبب کو ہی لیتے ہیں اور مادی کو بھول جاتے ہیں۔ بے شک زمین کے اندر ایسے بخارات ہیں جو محتبس ہوجاتے ہیں اور نکلنا چاہتے ہیں۔ اگر زمین کے مسام تنگ ہوجاتے ہیں تو ان کی حرکت سے زمین حرکت کرنے لگتی ہے۔ بعض ان بخارات کی علت اجزائے ناریہ کو بتلاتے ہیں جو کوہِ آتش فشاں کے گردوپیش میں مجتمع ہوجاتے ہیں اور بعض آثارِ طبیعہ سے اسی کا علت ہونا صحیح ثابت ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ’’اگر یہ زلزلے، طوفان اور عذاب انسانوں کے گناہوں کے سبب ہیں تو پھر یہ آفات غیرمسلم ممالک اور خصوصاً اللہ کے نہ ماننے والوں پر آنے چاہییں۔ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر کیوں؟‘‘ اس کا جواب یوں سمجھیں جس طرح اگر کسی شخص کا دورانِ خون ہی خراب ہوجائے تو پھوڑے پھنسیاں کہیں بھی نکل سکتی ہیں۔ اسی طرح مجموعی طورپر جب انسانوں کے اعمال خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، خراب ہوجائیں۔ ہرطرف ظلم وستم، ناانصافی اور گناہوں کا راج ہو تو اس کے اثرات کہیں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔

غور کرنے کی بات یہ بھی ہے عذاب، زلزلے اور طوفان ہمیشہ مسلمانوں ہی کے علاقوں میں نہیں آتے بلکہ امریکا، یورپ میں بھی آتے رہے ہیں۔ اگر کشمیر وسرحد میں زلزلہ آیا تھا تو اُسی سال چین میں بھی آیا تھا۔ اگر طوفان میانمار میں آیا تھا تو اس سے دو سال قبل امریکا کی ریاستوں نیو آرلینز میں بھی آیا تھا۔

تیسری بات یہ ہے کہ سود، زنا، ظلم وناانصافی، اسمگلنگ، ہیروئن، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ارتکازِ دولت، کاروکاری، ڈاکہ زنی، ریپ، اغوا، ٹیکس چوری، ناحق خون بہانا، قتل وغارت، ہوس ملک گیری اور دیگر گناہوں کا وبال پریشانی، ڈیپریشن، فرسٹریشن کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ امریکا ویورپ میں اکثر لوگوں کو تمام سہولیات موجود ہیں، پھر خودکشیاں کیوں ہورہی ہیں؟ سکون کیوں ناپید ہوچکا ہے؟ اسکینڈے نیویا کے ممالک میں ہر شخص کو ہر عیاشی اور عیاشی کے لیے درکار ہر ممکنہ سہولت موجود ہے، مگر سب سے زیادہ ریکارڈ خودکشیاں ہورہی ہیں، کیوں؟ اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان مادّی اعتبار سے کچھ بھی کرلے، لیکن وہ ربّ کائنات کو شکست نہیں دے سکتا۔ قیصر و کسریٰ ہو یا رومن امپائر، عثمانیہ کی سلطنت ہو یا سکندر اعظم کی، فرعون کی بادشاہت ہو یا شداد کی، تہذیب ہڑپہ ہو یا موہن جودڑو سب کے آثار آج ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ اس کائنات کا اینڈ ہونا ہے اور یہ اینڈ آف ٹائم چل رہا ہے۔ ماہرین اس بات کا ببانگِ دہل اعلان کررہے ہیں آنے والے دنوں میں طوفان، زلزلے اور آفات و بلیات آنے والی اور انہونیاں ہونے والی ہیں جس سے ملک اور نسلیں ختم ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ شاید انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے نارتھ پول اور ناروے کے درمیان ’’سوالبارڈ‘‘ (Svalbard) نامی جزیرے میں جینز محفوظ کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے تاکہ نسلِ انسانی کو محفوظ کیا جاسکے.

بقلم انور غازی
ہفت روزہ ضرب مؤمن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں