حضرت مولانا حسین علی واں بچھرانوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ

حضرت مولانا حسین علی واں بچھرانوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ

حضرت مولانا حسین علی بن محمد بن عبداللہ سنہ ۱۲۸۳ھ، ۶۷۔۱۸۶۶ء میں واں بچھراں ضلع میانوالی کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریب موضع شادیا میں حاصل کی بعض کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔
سنہ ۱۳۰۲ھ میں قطب الارشاد حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی قدس سرّہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان سے سندِ حدیث حاصل کی۔ کچھ عرصہ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ سے تفسیر قرآن کا درس لیا۔ سنہ ۱۳۰۴ھ میں مولانا احمد حسن کانپوریؒ سے منطق و فلسفہ کی تکمیل کرکے وطن لوٹے۔
حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ نے جس علاقے میں آنکھ کھولی تھی، ناخواندگی اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت کے سبب شرک و بدعت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے اس بدعت زدہ ماحول میں برس ہا برس محنت شاقہ سے توحید کی شمع روشن کی۔ اس راہ میں اس مردِ درویش نے ثابت قدمی سے مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا۔ انہوں نے قرآن کی تعلیم کو عام کرنا شروع کیا۔ طلباء دور دور سے ان سے استفادہ کے لئے آتے۔ خود کھیتی باڑی کرتے تھے اور طلباء کے جملہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ کبھی کسی سے چندہ نہ لیتے اور اپنی تمام آمدنی طلباء پر خرچ کردیتے تھے۔ علمِ حدیث، تفسیر و فقہ، تصوف و سلوک اور منطق و فلسفہ پر گہری نظر تھی۔ توحید کی اشاعت اُن کا مقصدِ اولین تھا۔ شرکت و بدعت کے خلاف نہ صرف وعظ کئے بلکہ مناظرے، مباحثے اور علمی گفتگوئیں بھی کیں۔ وعظ و تقریر کے علاوہ تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی شرک و بدعت کے خاتمہ کے لئے بڑا کام کیا۔ آپ نے ہر موضوع پر کتابیں لکھیں جن میں ’’بلغذ البحران فی ربط آیات القرآن، تبیان فی تفسیر القرآن، تلخیص اللطحاوی تحریرات حدیث، تقاریر صحیح بخاری، تقاریر صحیح مسلم، برہان التسلیم، فتح التقدیر، تحفۃ ابراہیمیہ اور حواشی فوائد عثمانی وغیرہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔
آپ حضرت خواجہ محمدعثمان درمانیؒ سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور حضرت خواجہ درمانیؒ کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے۔ اُن کی وفات کے بعد خواجہ سراج الدینؒ کی طرف رجوع کیا اور ان ہی سے خلافت حاصل کی۔ بعد از اں آپ سلوک و تصوف کے اعلی مقام پر فائز ہوئے اور متعدد ممتاز علماء کو خلعت خلافت سے نوازا۔ جن میں مولانا حصام الدین بہبودی ضلع اٹک، مولانا غلام رسول انّہی شریف۔
مولانا عبدالعزیزؒ ، مولانا نصیر الدین غورغشنویؒ ، مولانا غلام اللہ خان راولپنڈی، مولانا قاضی شمس الدین گوجرانوالہ، مولانا محمد سرفراز خان صفدر، مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور مولانا محمد طاہر ساکن پنج پیر تحصیل صوابی و غیرہ شامل ہیں۔
آپ نے رجب ۱۳۶۳ھ؍۱۹۴۳ء میں رحلت فرمائی۔ اولاد صالحہ میں تین صاحب زادے، مولانا صدرالدین، مولانا عبدالرحمان اور مولانا عبدالرزاق ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں۔

(سوانح مولانا حسین علی مطبوعہ فیصل آباد)
مأخوذ: اکابر علماء دیوبند، ص: ۱۴۸۔۱۴۹


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں