نوجوانوں سے متعلق اسلامی میڈیا کی ذمہ داریاں

نوجوانوں سے متعلق اسلامی میڈیا کی ذمہ داریاں

ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ خالص منصوبہ بند طریقہ سے دینی پروگرام نوجوانوں سے متعلق میڈیا پر پیش کئے جائیں، عرب اور اسلامی ملکوں میں حال ہے تو غیر اسلامی ملکوں کا آپ اندازہ اس لگا سکتے ہیں۔
دوسرا عیب یا نقص جو ہمارے سماج میں ہے وہ یہ کہ فطری شرم و حیا اور خاندانی ماحول و تعلیم کی بنا پر نوجوانوں کا حال عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی نفسیاتی و جسمانی تبدیلیوں اور ان کی توجیہ و تشریح سے بے خبر ہوتے ہیں، نہ مدرسہ میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور نہ ہی سماج میں اس طرح کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں جو صحیح اور ٹھوس دینی علمی بنیادوں پر مبنی ہوں، غلط اور ناقص معلومات کہیں نہ کہیں سے ان کو مل جاتی ہیں، جو ان کے لئے نقصان وہ ہوتی ہیں، اس کی بنا پر وہ انحراف اور گمراہی کے راستے پر پڑجاتے ہیں، مساجد میں جو تقریریں ہوتی ہیں۔ وہ بھی نوجوانوں کے ضروریات کی تکمیل سے قاصر ہوا کرتی ہیں۔
اس بنا پر اب یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ٹھوس علمی بنیادوں پر پروگرام نوجوانوں کے لئے تیار کرے، ایسا منصوبہ نبد پروگرام جو نوجوانوں کی نفسیات اور مطالبات و تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہو۔

نوجوانوں کی بنیادی ضرورتیں اور تقاضے:
نوجوانوں اخبارات و رسائل کے صفحات اور روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ اس دور کی مشکلات ار پریشانیاں کیا ہیں، جب وہ ان مشکلات کے متعلق براہ راست پڑھتے ہیں تو وہ فطری طور پر ان کا حل بھی تلاش کرتے ہیں، اس لئے کہ فطری اور وجدانی و ذوقی طور پر مشکلات و مصائب کو دیکھ کرا کے اندر کے جذبات اور لطیف انسانی احساسات بیدار ہوتے ہیں، وہ مشکلات و مصائب میں مبتلا انسانوں کیلئے اپنے اندر ہمدردی و رحمدلی کے جذبات پاتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عملی طور پر دوسروں کے مشکلات میں ساتھ دیں اور ان کی امیدوں اور آرزوؤں اور مقاصد کی تکمیل میں مدد اور تعاون کریں۔
عقلی بنیاد پر بھی سماجی مشکلات سے واقفیت اور ان مسائل کو حل کرنے کے طریقے اور تدابیر پر وہ اپنے تجربے، علم اور صلاحیت کی بنیاد پر غور کرتے ہیں، اور اپنے رفقاء اور دوستوں اور ٹولیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں، جوں جوں نوجوانوں کا علم اور تجربہ عمر کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے، اور وہ تدریجی طور پر ان مسائل و مشکلات کے حل پر جب غور و فکر کرتے ہیں تو اس میں مزید گہرائی اور سنجدیگی ہوتی ہے، اور تخیلاتی اور نظریاتی سے زیادہ ان میں عملیت اور حقیقت پسندی ہوتی ہے، اسلامی میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے رہنمائی اس طرح کرے کہ وہ آئندہ چل کر معاشرہ کی صحیح رہنمائی کر سکیں، اور اس پر بار بننے کے بجائے اس کیلئے نافع بن سکیں۔

خواتیں:
ہمارے معاشرے میں اگر چہ عام طور پر خواتین کو سیاسی و ثقافتی، مقامی اور بین الاقوامی خبروں سے دلچسپی نہیں ہوتی، لیکن تعلیم یافتہ خواتین کو ان خبروں سے دلچسپی ہوتی ہے جو ان کی صنف سے متعلق ہوں، اسلامی میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے لئے ایسے پروگرام پیش کریں جن سے ان کی دینی و اخلاقی تربیت میں مدد ملے، اور ان کے ذریعہ معاشرہ کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں آسانی ہو، گھریلو مسائل و مشکلات سے تعرض اور ان کو حل کرنے کی تدبیریں، معاشرتی مشکلات اور ان کی پیچیدگی کی طرف اشارے، سماج میں غلط رسوم و رواج کی اصلاح کی حکیمانہ کوشش، کہانیوں اور سیریز کے ذریعہ ٹی وی سے زیادہ ریڈیو پروگراموں سے اصلاح معاشرہ میں مدد ملتی ہے اس لئے کہ ریڈیو سننے کیلئے اس اہتمام اور توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی جو ٹی وی دیکھنے کے لئے ہوا کرتی ہے۔
نوجوان لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ پڑھتی اور زیادہ متاثر ہوا کرتی ہیں، خانداونوں اور سوسائٹی میں پیش آنے والے حوادث اور واقعات سے ان کو غیر معمولی دلچسپی ہوا کرتی ہے۔
اسلامی میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پروگرام نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے لئے پیش کرے جو انھیں بچوں کے اندر حالات حاضرہ کے مطابق اخلاق رجحان اور اخلاقی و دینی قدروں کو پیدا کرنے میں مدد دے۔
ان خواتین کی فطری صلاحیتوں کا نہ صرف انکشاف کرے بلکہ ان کو ترقی دے اور ان کی رہنمائی بھی کرے، نہ کہ ان کو مٹاے یا معطل اور ضائع کردے، ان مشکلات و مسائل کو سمجھنے میں مدد دے جن کی وجہ سے خاندانی شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
معاشرہ میں موجود مختلف معاشی معیاروں کے درمیان توازون پیدا کرنے میں مدد دے اور ایک محلّہ اور ایک عمارت میں رہنے والوں کی معاشی حالت میں زیادہ خلیج پیدا نہ کرے۔
بچوں کے اندر جسمانی جذباتی، عقلی اور نفسیاتی تبدیلیوں کے متعلق انھیں ٹھوس معلومات فراہم کرے، جدید ٹکنالوجی، کمالیات، سامان تعیش کی جدید اشیاء سے متعلق صحیح اور متوازن رہنمائی کرے تا کہ خاتون خانہ ہر جدید کی خریداری اور ہر نئے فیشن کے پیچھے نہ بھاگنے لگے، ان خواتین کے اندر قناعت کا جذبہ پیدا کیا جائے کہ اس سے گھریلو زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے، نہ کی مادی وسائل کے کثرت استعمال سے۔

اقتباس: مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، تالیف نَذرُالحَفیظ ندوی، ص: ۳۵۲۔۳۵۴


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں