پاکستانی میڈیا پر ایک نظر

پاکستانی میڈیا پر ایک نظر

تاریخی پس منظر
پاکستام میں ٹیلیویژن کی آمد سے پہلے جب اس الیکٹرونک میڈیا کی پالیسی وضع کرنے کے لئے ذوالفقار بخاری کی صدارت میں مخصوص فنکاروں، لکھنے والوں، اور متوقع پروڈیوسروں کو مدعو کیا گیا تو بخاری صاحب نے پاکستانی ٹی وی کے دو بنیادی مقاصد بیان کئے، اول یہ کہ صدر ایوب کے کارناموں کی گھر گھر تشہیر کرنا، دوسرے آپ سب کا سب سے اہم مقصد یہ ہوگا کہ ’’قوم اور پہلے متوسطہ طبقہ کو فرسودہ مذہبی تصورات سے آزاد کرائیں، اور اس مقصد کو اس خوبی سے سرانجام دیں کہ لوگوں کو شعوری طور پر اس کا پتہ نہ چلے کہ آپ جدید نسلوں کو مذہبی اثرات سے پاک کرنے کی کوئی مہم چلا رہے ہیں، اگر آپ نے یہ کام کرلیا تو یاد رکھئے کہ ہم ہمیشہ کے لئے مذہبی جُنونیوں اور ملاؤں سے اپنی معاشرت اور سیاست کو پاک کردیں گے‘‘۔
بنیادی مقاصد بیان کرنے کے بعد بخاری صاحب نے شرکاء محفل کو علیحدہ علیحدہ مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں آپ میں سے ہر اس لکھنے والے کو اپنے پروگراموں کے معاوضہ کے علاوہ دو سو روپیے ماہوار دوں گا جو عربی پڑھے گا، ہم یہ چاہتے ہیں کی ٹی وی اور ریڈیو سے ایسے افراد کو بحیثیت عالم اور جدید مفکر کے پیش کرسکیں اور ان تمام ملاؤں کے اثرات کو دور کرسکیں جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، اور جنھیں ہم طوعا کرہا پیش کرنے پر مجبور ہیں، آپ کو مذہب کے خرافات سے معاشرہ کو نجات دلانے کا کام کرنا ہے، اس لئے ہم اس ادارہ کے ذریعہ بالکل جدید ذہنوں کو آگے لانا چاہتے ہیں، نئی میڈیا کی آمد کے ساتھ نئے ذہنوں کو نہ صرف فرسودہ اور مُردہ تصورات سے نجات دلانے کے لئے استعمال کیا جائے گا، بلکہ ان کو پوری قوم کے محسوسات اور طرز فکر کو بدلنا ہوگا۔
آپ اس مقصد کو اس طرح پورا کر سکتے ہیں کہ منافقت اور متضاد کردار کیلئے منفی ڈرامہ کرداروں کے داڑھی لگایئے، مضحکہ خیز کرداروں اور افراد کو مشرقی لباس پہنایئے، یہ یاد رکھئے کہ آپ کو اپنے تمام کرداروں اور اناؤ نسروں وہ لباس پہنانا ہے جو ہماری ترقی یافتہ معاشرہ میں سو سال بعد رائج ہونا چاہئے، اور جو ایک فیصد اوپر کے طبقہ میں رائج ہے‘‘۔
ہدایات بخاری مرحوم کے لبوں سے جاری ہوئی تھیں مگر حقیقت میں ہی اس بنیادی پالیسی کا حسہ تھیں جس کو مغرب زدہ لادین نوکر شاہی اور صاحب اقتدار طبقہ نے ہی بنایا تھا، اور جس کے حصول کے لئے کروڑوں ڈالر قرض لے کر ٹی وی میڈیا کو پاکستان لایا گیا یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے اس پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے، جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں اس پالیسی میں تھوڑی سے تبدیلی کی گئی تھی، لیکن بے نظیر کی حکومت نے قومی پالیسی کے نام سے میڈیا کے لئے جو پروگرام جاری کیا، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستانی کو پوری طرح مغربی سانچے میں ڈھالنے کا پروگرام جاری رہے گا اور جو کچھ کسر رہ جائے گی اس کو مغربی میڈیا کے ذریعہ پورا کیا جائے گا۔
پاکستانی کی ’’ثقافتی پالیسی‘‘ کے عنوان سے بے نظیر کی حکومت نے اپنی ثقافتی پالیسی کا اعلان اگست ۱۹۹۵ء کے پہلے ہفتہ میں کیا، اس ثقافتی پالیسی کے اہم نکات اس جوش و خروش سے بیان کئے گئے جس کا مظاہرہ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۵ء کے دوران نام نہاد کمیونسٹ دانشور اور اباحیت پسند لادینی عناصر کررہے تھے۔
اگر پالیسی کا اعلان نہ بھی کیا جاتا تب بھی عوام کو پاکستان کے تمام سرکاری تقریبات کے انداز و اطوار واضح طور پر بتار ہے تھے کہ اس قوم پر لادین عناصر کی ثقافتی یلغار بڑی تیز رفتاری سے شروع کی جار ہی ہے اور نئی نسل کو ایک خاص سمت میں لے جانے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے، بالخصوص ٹی وی کے ذریعہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ قومی وسائل سے اپنی ہی قوم کو برباد کرنے کی کوشش ہے۔
ثقافتی پالیسی کے اہم نکات میں موسیقی، رقص، لوک گیت، فلم، ٹیلیویژن، موسیقار، گلوکار، رقاص، اور سازندے و غیرہ کے الفاظ کو کم از کم سترہ مرتبہ استعمال کیا گیا ہے، گیا کہ تمام تر ثقافتی پالیسی کا اصل رقص و سرود اور موسیقی و غناء ہے، پالیسی میں دوسرا زور علاقائیت، علاقائی زبانوں، علاقائی کلچر، مقامی و علاقائی دانشوروں، شہروں اور صوبوں کی تاریخوں و غیرہ پر دیا گیا ہے، پالیسی کا تیسرا جز ثقافت کا بین الاقوامی تبادلہ ہے جس میں پاکستان اور ’’علاقے‘‘ کے دیگر ممالک کے مابین ثقافتی ارتباط کو فروغ دینا شامل ہے (۱) پالیسی کو چوتھا اہم نکتہ غیر سرکاری تنظیموں (NGOS) انسان دوست اداروں اور افراد کی سرپرستی پر مشتمل ہے۔ (۲)
ثقافتی پالیسی میں پانچواں نکتہ یہ ہے ۱۸۷۲ء میں سنسر کے نام سے جو قانون بنایا گیا تھا وہ چونکہ ثقافت کے فروغ میں سد راہ ہے اس لئے اس کو ختم کردیا جائے گا، اب فلموں اور ڈرامو کے اسکرپٹ کو مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے، با الفاظ دیگر فلموں کو بغیر کسی سنسر کے دکھا یا جائے گا۔
اس ثقافتی پالیسی کے رہنما اصول تو مذکورہ بالا پانچ نکات ہی ہیں، ورنہ تنتیس نکات بیان کئے گئے ہیں جو سب کے سب تصویر بتاں ’’اور چند حسینوں کے خطوط‘‘ پر مشتمل ہیں۔
’’چہ دلاور است و زدے‘‘ کی دل چسپ مثال یہ ہے کہ اس ثقافت اور اس سب لیچر پن کو کلچر کا نام دے کر اسے علامہ اقبال اور قائد اعظم محمدعلی جناح سے منسوب کیا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
۱) ظاہر ہے کہ ’’علاقے‘‘ میں سب سے قریبی اور بڑا ملک ہندوستان ہے، جس کی برہمنی ثقافت سے ارتباط کے لئے پاکستانی ارباب اقتدار بے تاب نظر آتے ہیں، پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی غیر معمولی مقبولیت اس کا عملی ثبوت ہے۔
۲) ترقی پذیر ممالک میں (ان، جی، او۔ز) یعنی غیرسرکاری تنظیموں اور ’’انسان دوست اداروں‘‘ کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، یہ ادارے فری میسن کے ماتحت لائنز کلب، روٹری کلب، ریڈ کر اس سوسائٹی، اور مختلف ثقافتی اور سماجی اداروں کے نام سے کام کرتے ہیں ان کی سرپرستی بیرونی طاقتیں کرتی ہیں اور بڑے پیمانے پر مالیاتی فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں، گذشتہ سال بنگلہ دیش اور پاکستان میں ان سماجی ثقافتی اداروں کی تحقیقات کا مطالبہ ہوا تو بڑی طاقتوں کے سفارت خانوں نے دباؤ ڈال کر تحقیقات کو رکوادیا، البتہ دینی مدارس پر یہ الزامات زور شور سے عائد کئے جار رہے ہیں کہ بیرون ملک سے ان کو امداد ملتی ہے، ہمارے ملک بھارت میں بھی دینی مدارس پر یہی الزامات عائد کئے جا رہے ہیں، دوسری طرف عرب ممالک پر دباؤ ڈال کردینی اور رفاہی ادارو کو چندہ دینے سے روک دیا گیا ہے، پروپیگنڈہ یہ کیا جار رہا ہے کہ اس امدادی رقم سے فنڈامنٹلسٹوں اور تشدد پسندوں کو قوت فراہم ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتباس: مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، تالیف نَذرُالحَفیظ ندوی، ص: ۲۵۸۔۲۶۱


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں