پاکستانی معاشرہ پر مغربی میڈیا کے اثرات

پاکستانی معاشرہ پر مغربی میڈیا کے اثرات

مغربی معاشرہ پر میڈیا کے تباہ کن اثرات کے بارے میں خود مغربی دانشوروں کے رائے میں اختلاف نہیں، یہ عجیب بات ہے کہ مشرقی ملکوں کے لئے بھی وہ ان فلموں کو پسند نہیں کرتے جیسا کہ امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کی زیر سرپرستی منعقد ہونے والی ۱۰؍مارچ ۱۹۹۳ء کی کانفرس میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر ڈاکٹر والٹر برنس کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی رائے ہے کہ:
راک میوزک، ہالی ووڈ کی فلمیں اور دوسرے تفریحی پروگرام جو امریکہ باہر کے ملکوں کو بھیجتا ہے وہ نہ صرف وہاں کے معاشرہ پر بہت اثرات چھوڑتے ہیں بلکہ امریکی معاشرہ کے تصور کو بھی داغدار کرتے ہیں۔ (۱)
پاکستانی دانشور جمیل الدین عالی پاک ٹی وی کے پروگراموں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اس وقت پاکستانی سوسائٹی کے اعلی طبقہ کے وہ لوگ تو قابل ذکر ہی نہیں جو اپنی ذات اور مفادات کے سوا کسی اور بات کو اہمیت ہی نہیں دیتے، ان کے باب میں نظیری نیشاپوری بڑا خوبصورت منظر کھینچ گئے ہیں۔

ہمہ مے نوشی و مستی و نشاط طرب است
کس نداند کہ شب و روز کدام است این جا
مجھے تو اس زمانہ میں متوسطہ طبقہ کے ان پڑھے لکھے شہریاں کراچی پر رشک آتا ہے جن کی ’’ثقافتی معمولات‘‘ دنیا کی کسی مصیبت (کراچی، بوسینیا، کشمیر) سے متاثر نہیں ہوتے، وہی بڑی سینکڑوں مہمانوں پر مشتمل شادیوں کی تقریبات وہی ہفوات، وہی بڑے بڑے تفریحی جلسے، وہی کسی نہ کسی محترم حوالہ سے رقص و سرود کی مجلسیں، مثلا، یوم آزادی (۱۹۹۵ء) کے موقع پر پاکستانی بینکاری کے کارکنوں کی ایک تعداد نے ایک ایسی ہی محفل موسیقی منعقد کی، جس پر صرف آٹھ لاکھ روپیے خرچ ہوگئے، پاکستانی ٹی وی بھی ماشاء اللہ ایسے ایسے شو منعقد کراتا ہے کہ پورا پاکستان ایک خوشحال پرستان لگنے لگا ہے۔ (۲)
فحاشی اور عریانیت کے سیلاب کی تندی و تیزی میں سب سے اہم اور موثر رول ذرائع ابلاغ ادا کر رہے ہیں، میڈیا نے عورت کے جسم کو اس کے حسن و جمال کو، اس کے چہرے کو، اور اس کی برہنگی کو اپنی تجارت بڑھانے کا ذریعہ بنالیا ہے، کتنے ہی رسالے ہیں جو چٹپٹی خبروں، اور فحش کہانیوں اور خبروں کے ذریعہ چل رہے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں بے حیائی کا کوئی واقعہ رونما ہو یا کسی فلمی اداکار کا کوئی اسکینڈل ہو یا کسی کھلاڑی کا معاشقہ چل رہا ہو، یا پاکستانی اخبارات و رسائل اسے مرچ مسالہ لگا کر چھاپنا اپنا منصبی فرض سکجھتے ہیں، شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی اسکینڈل سے قوم واقف نہ ہوگی تو ہماری قوم ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جائے گی۔
عریانیت کو فروغ دینے میں اشتہارات کا بنیادی رول ہے، دنیا کی کسی چیز کا اشتہارعورت کی تصویر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، ملبوسات میں عورت، مصنوعات میں عورت حتی کہ وہ چیزیں جو خاص مردوں کے استعمال کی ہیں ان میں بھی عورت، موٹر سائیکل اور ٹریکٹر کا اشتہار ہوگا مگر ساتھ عورت کی بھی تصویر ہوگی، اس کے ایک عضو کی نمائش کر کے دولت حاصل کی جا رہی ہے، ماڈلنگ ایک منافع بخش کار و بار بن گیا ہے، جس میں بڑے بڑے گھرانوں کی نوجوان بیٹیاں اپنے جسم کی نمائش کا منی مانگا معاوضہ وصول کرتی ہیں، مگر فحاشی و عریانیت کو فروغ دینے میں ان سب سے بڑھ کر فلموں اور ڈراموں نے کردار کیا ہے، اب تو وی سی آر اور ٹی وی کی موجودگی نے ہر گھر کو ایسے سینما ہال میں تبدیل کردیا ہے کہ اب شرفاء اور دیندار خاندانوں کے لوگ بھی محفوظ نہیں رہے، ڈش انٹینا اور انٹرنیٹ نیٹ ورک کی وجہ سے تمام دنیا کی غلیظ ترین فلمیں صرف ایک بٹن دبانے پر آپ کے سامنے ہاتھ باندھے موجود ہوں گی، چوبیس گھنٹے کیلئے مشاہدین پروگراموں کیلئے وقف ہو کر رہ جاتے ہیں۔

پاکستانی صوبہ پنجاب کی تصویر
لاہور میں ۱۹۹۶ء میں جرائم سے متعلق جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پانچ برسوں کے اوسط کے مقابلے میں تین سو پچانوے فیصدی، قتل کے واقعات میں انتالیس فیصدی، نقب زنی کے واقعات میں تریپن فیصدی، اغوا کے واقعات میں اکیس فیصدی، عصمت دری کے واقعات میں اکیس فیصدی اضافہ ہوا ہے، یہ واضح رہے کہ عصمت دری کے صرف دو فیصدی واقعات کی رپورٹ درج کرائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں بینک ڈکیتیوں میں بھی چارسو فیصدی اضافہ ہوا ہے، جبکہ پیٹرول پمپ لوٹنے، شاہراہوں پر لوٹ کے واقعات میں بھی علی الترتیب ۱۶۷222 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے، صرف یہی نہیں موٹر گاڑیوں کی چوری بھی کافی بڑھ گئی ہے، ایک سینئر پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ پولیس کے علاوہ با اثر افراد بھی نظم و نسق کی بگڑی صورت حال کیلئے یکساں طور پر ذمہ دار ہیں، پولیس محکمہ میں مجرمانہ رکارڈ رکھنے والے لوگ بھی خاصی تعداد میں آگئے ہیں۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
(۱) کر سچن سائنس مانیٹر مارچ ۱۹۹۲ء بحوالہ الفاروق کراچی شمارہ ۳ جلد ۱۱۔
(۲) روزنامہ جنگ کراچی ۲۲؍ستمبر ۱۹۹۵ء۔
(۳) یو، پی ڈاکٹر جنرل پولیس کے بیان کے مطابق یو، پی پولیس میں جرائم پیشہ پولیس والوں کی تعداد دس ہزار ہے جن کا تبادلہ دور دراز علاقوں میں کردیا گیا ہے، غالباً مزید ریاضت اور مشق و مہارت حاصل کرنے کیلئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتباس: مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، تالیف نَذرُالحَفیظ ندوی، ص: ۲۶۶۔۲۶۹


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں