علامہ شبلى کے علمى وفکرى امتيازات ايک نظر ميں

علامہ شبلى کے علمى وفکرى امتيازات ايک نظر ميں

قيس سا پهر کوئى اٹها نہ بنو عامر ميں
فخر ہوتا ہے گهرانے کا سدا ايک ہى شخص
اگريہ کہاجائے کہ انيسويں صدی شبلی کی صدى تهى تو بالکل مبالغه نہ ہوگا؛ اقليم سخن کى وه کون سى ايسى وادى ہے جنکو شبلى نے سرنہ کياہو، انکى شخصيت ايسى ہمہ جہت اور پہلودار ہے كہ اردو ادب کى تاريخ ميں ہميشہ زنده وتابنده رہے گى،

وه بيک وقت مورخ بهى ہيں اوراديب بهى، سوانح نگار بهى ہيں اورسيرت نگاربهى، شاعر بهى ہيں اور نقاد بهى، عالم بهى ہيں اور متکلم بهى، وه ماضى کے ترجمان بهى ہيں اور مستقبل کے علمبردار بهى، انہيں گوناں گوں خصوصيات کى بنا پر کبهى انکے معاصرين نے انہيں اپنے وقت کا ہندوستانى (Bertrand Russel)، اسلامى تاريخ کا (Walter Scot) اور اسلام کے (Gibbon) کے خطابات سے نوازا، ليکن افسوس کہ آج وہی شبلى اپنوں ميں غير معروف ہوتے جارہے ہیں.
شبلی کے منجمله امتيازات ميں سے دوخصوصيت خاص اہميت کى حامل ہيں (1) عالمانہ شان جو انکى تمام تحريروں ميں اپنى اثر آفرينى کے جلوے دکہاتى نظر آتى ہے (2) انکا موثر وبليغ اسلوب نگارش، جوحالى کی سادگى وپرکارى، نظير اکبر آبادى کى عام فهمى وبے ساختدگى، ابوالکلام آزادکى بلاغت وقوت بيانى، محمد على جوهر کى سحر انگيزى، اقبال کى فکرى وعلمى عظمت، اور غالب کى تصوراتى نکتہ آفرينى کا حسين امتزاج ہے. انکى تحريروں ميں جابجا رومانيت بهى نظر آتى ہے، يہى وجه ہے کہ جب وه مذہب وتاريخ جيسے خشک موضوع پر بهى خامہ فرسائى کرتے ہيں تو اسميں نکتہ سنجى وجاذبيت پيدا کرديتے ہيں.
شبلى نے جس دور ميں آنکہ کہولى اس وقت مسلمان ہر محاذ پر مسائل سے دو چار تهے، ايک طرف یورپ کی علمی وسیاسی طاقت وقوت بام عروج پر تهى، تو دوسری طرف مشرق اپنى علمی بے بضاعتی اور سیاسی پسماندگی کا رونا رو رہا تها، مستشرقین نے اسلام اوراہل اسلام کی تاریخ کو مسخ کرنے کا بیڑہ اٹھار کھا تها، جب کہ عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کی دین وایمان پر ڈاکہ زنی نت نئے گل کھلارہی تھی. اس وقت کے علمائے حق نے عيسائى مشنريوں اور شدهى تحريک کى يورش کو نا کام بنا ديا تها، کيونکہ وه ان کے اعتراضات کى تکنيک اور ان کے حربوں سے بخوبى واقف تهے، ليکن مستشرقين کى ريشه دوانيوں کا جواب دينا آسان نہ تها، باوجوديکہ شبلى نے قديم مدارس ميں تعليم پائى تهى، ليکن ان کے روابط جديد تعليم يافته طبقے سے بهى تهے، جس کى وجہ سے انہيں مستشرقين کے اعتراضات کى تہوں تک پہنچنے اور ان کے مدلل جوابات دينے ميں دشوارى نہ ہوئى، لہذا شبلى نے يورپ کے علماء ومستشرقين کى عيارى اور فريب کارى اور ان کے شکوک وشبہات کے ازالے کے لئے جو معرکة الآراء مضاميں لکھے ان کى تازگى ومعنويت اب بهى برقرار ہے.
کتب خانہ اسکندریہ کے تعلق سے مستشرقين نے یہ الزام عائد کيا کہ مسلمان علم دشمن تهے، اسکندریہ کا کتب خانہ مسلمان فاتحين نے ہى جلايا، علامه نے “کتب خانہ اسکندریہ” ميں اپنى تحقيق سے یہ ثابت کيا کہ مسلمانون کى فتح کے وقت اسکندریہ ميں کوئى کتب خانہ ہى نہيں تها جسے برباد کيا جاتا، اسے تو عيسائى بہت پہلے تباه کر چکےتهے، اور اپنا الزام مسلمانون کے سر ڈال ديا.
وه علم کے موتى کتابيں اپنے آباء کى
جو ديکھيں ان کو يورپ ميں تو دل ہوتا ہے سيپا را
مخالفين اسلام کى جانب سے جزیہ کے متعلق پهيلائى گئى غلط فہميوں کے رد کے لئے شبلى نے عالمانہ ومحققانہ بحث کر کے”الجزیہ” ميں اس کے تاروپود بکھير ديئے، اور یہ ثابت کيا کہ جزیہ فارسى لفظ “گزیہ” سے مشتق ہے جس کے معنى خراج کے ہيں، اور ما قبل اسلام ايران ميں یہ لفظ رائج ومستعمل ہوچکا ہے.
“حقوق الذميين” ميں اپنے محققانہ انداز ميں یہ واضح کيا کہ اسلام نے غير مسلم رعايا کو ہر قسم کے جو تمدنى، معاشرتى، سياسى، ملکى اور مذہبى حقوق دئے ہيں دنيا کى کوئى حکومت اپنى محکوم رعايا کو نہيں دے سکتى، اور جس پر ابتدائے اسلام سے آج تک برابر عمل ہورہا ہے.
يورپ کے متعصب اور تنگ نظر مورخين نے اورنگ زيب عالمگير کے خلاف دروغ بيانيوں اور افترا پردازيوں کا جو طور مار باندها تها، شبلى نے” اورنگ زيب عالمگيرپر ايک نظر” ميں ان کا علمى جائزه ليکر قلعى کھول دى ہے، اور مدلل انداز ميں یہ ثابت کيا کہ الزام عائد کرنے والے خود ہى بد نيت، فتنہ پرور، اور متعصب ہيں.
مصر کے مشہور عيسائى فاضل جرجى زيدان نے “تاريخ التمدن الإسلامى” نامى کتاب ميں بظاہر مسلمانون کى مدح سرائى کى تهى، ليکن پس پرده اس نے اسلام اور مسلمانون کے خلاف سخت متعصبانہ حملے کئے تهے، علامہ نے “الانتقاد على تاريخ التمدن الإسلامي” ميں جرجى زيدان کى اسلام دشمنى کو مدلل انداز ميں اہل نظر کے سامنے کھول کر رکه ديا.
الغرض شبلى نے چن چن کر مستشرقين کے حوالوں کى کمزوريوں کو تلاش کيا اور دنيائے علم ودانش کے سامنے رکہ ديا، اور مسلمانوں ميں اپنى اقدار وروايات پر اعتماد بحال کرنے کى کوشش کى، ان کے بعد علامه اقبال، ابو الکلام آزاد، سيد ابو الاعلى مودودى اور شبلى کے شاگرد رشيد علامه سيد سليمان نے ندوى نے اس سلسله کو جارى رکھا اور صاف صاف یہ آواز بلند کى:
نظر کو خيره کرتى ہے چمک تہذيب حاضر کى
یہ صناعى مگر جهوٹے نگوں کى ريزه کارى ہے
ايک ايسے وقت ميں جب قدامت پسند علماء انسانى اختيارات وآزادى کو اسلامى فکرکے منافى تصور کرتے تهے، شبلى نےاپنى مايہ ناز تصنيف “علم الکلام” ميں اس طرح کے جرات مندانہ سوال اٹهائے “ميں انسان کو فاعل با اختيار مانتا ہوں، او اس سے خدا کى عظمت وشان ميں کچه فرق نہيں پڑتا”. 1857 کى جنگ آزادى ميں مسلمانوں کى شکست کے بعد يہ مسئلہ زور شور سے اٹهنے لگا تها کہ کيا انسان اپنى سوچ وفکرميں آزاد ہے اور اپنے فيصلے خود کرسکتا ہے، بہت سے مغرب زده مسلم دانشوروں کا خيال تها کہ ہميں انگريزى طاقت وجبروت کے سامنے گهٹنے ٹيک دينا چاہيے، کيونکہ اب ذلت رسوائ ہى ہمارا مقدر ہے، ليکن شبلى نے “الکلام”، “سيرت النعمان”، و “سوانح مولانا روم ” اور اقبال نے”اسرار خودى”، “شکوه” و “جواب شکوه” کے ذريعہ بر صغير کے مسلمانوں کو (Pre-fated doctrine) کے نظريہ سے آزادى دلائى، اور يہ ثابت کيا کہ انسان مخير ہے مسير نہيں.
“الفاروق” علامه کى وه شهره آفاق تصنيف ہے جس پر انہيں بجا طور پر فخر تها، بقول مولانا حبيب الرحمن خان شروانى “کوئى حصئہ ثانى کى فہرست کے مطالب ديکہے تو سمجهے گا کہ یہ کسى انيسويں صدى کى مہذب ومنتظم سلطنت کى فہرست ہے…..”
حضرت عمر کے رعب داب کى تصوير کشى علامه نے بڑے موثر وبليغ انداز ميں کى ہے، ملاحظه ہو:
“سنکدر اور تيمور تيس تيس ہزار فوج رکاب ميں لے کر نکلتے تهے جب ان کا رعب قائم ہوتا تها، عمر فاروق کے سفر شام ميں سوارى کے ايک اونٹ کے سوا کچه اور نہ تها، ليکن چارون طرف غل پڑا تها کہ مرکز عالم جنبش ميں آگيا”.
اگر شبلى “شعر العجم”کے علاوه کچه اور نہ لکہتے تو بهى یہ مایہ ناز تصنيف ادبى دنيا ميں ان کى شہرت دوام کے لئے کافى تهى، يہ عظيم الشان تصنيف فارسى شاعرى پر تنقيد کے باب ميں حرف آخر ہے، بقول مشہور مستشرق پروفيسر براون “بلا شبه يہ کتاب آج تک لکھى گئى فارسى شاعرى پر بہترين ادبى تجزيہ ہے”.
اس اعتبار سے بهى شبلی اپنے ہم عصروں میں سب پر فوقیت رکھتے ہیں کہ انکی سوانح عمریوں اور تاریخوں کے کردار چلتے پھرتے نظرآتے ہیں. بقول ڈاکٹر عبد العزيز ساحر:
“شبلى نعمانى کے فکر وفرہنگ کا ہر زاویہ اپنى خيال افروز صداقت کے احساس سے منعکس ہوتا ہے، وه شعر ہو يا نثر يکساں طور پر ان کے يہاں حقائق کى دنيا… تخيل کى افسانوى فضا سے متاثر نہيں ہوتى، ليکن حقائق کى ترسيل اور ابلاغ کا جو قرينہ وه اختيار کرتے ہيں وه خاص طورپر انہى سے مخصوص ہے”. ان کى سيرت نگارى کا ايک منظر ديکھئے اور صرف ايک:
“آج کى صبح وہى صبح جاں نواز، وہى ساعت ہمايوں، وہى دور فرخ فال ہے، ارباب سير اپنے محدود پيرايئه بيان ميں لکہتے ہيں کہ: آج کى رات ايوان کسرى کے چوده کنکرے گرگئے، آتش کدهء فارس بجه گيا، دريائے ساوا خشک ہوگيا، ليکن سچ یہ ہے کہ ايوان کسرى نہيں، بلکہ شان عجم، شوکت روم، اوج چين کے قصرہائے فلک بوس گرپڑے ……….”
علامہ شبلى کا یہ تخليقى منظرنامه ديکھئے اور بتائيے کہ کيا یہ لکھنے والا سحر طرز اديب کبهى مر بهى سکتا ہے، نہيں، بالکل نہيں، کيوں کہ اس طرح کا پيرائہ اسلوب ابد آباد تک زنده رہتا ہے.
حالى کى “مسدس” مسلم امہ ميں پائى جانے والى مايوسى کو بيان کرتى ہے، تو شبلى کى مثنوى “صبح اميد” حالى کے افکار کى تائيد تو کرتى ہے مگر ساتهـ ساتهـ امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی امید بهى جگاتى ہے. حالی اور شبلی دونوں امت مسلمہ کے زوال پر نوحہ کناں ہيں، لیکن دونوں بيمارى کى تشخيص الگ الگ انداز میں کرتے ہيں. حالى مسلمانوں کو مغربى تہذيب سے دور رہنے کى تلقين کرتے ہيں، تو شبلى خذ ما صفى کے اصول کو اپناتے ہوئے تحقيق وفکرکے ميدان ميں مغربى قوموں کے رہنما اصولوں کو اپنانے اور انکوا سلامى سانچے ميں ڈهالنے کى پرزور وکالت کرتے ہيں، مثنوى کا اختتام اس شعر پر ہوتا ہے.
گو خوار ہيں طرز و خو وہى ہے
مر جها گئے پهول بو وہى ہے
“موازنئہ انيس ودبير” ميں علامه نے مير انيس کے شاعرانہ محاسن کو نماياں کرنے کے لئے ان کا موازنہ مرزا دبير سے کيا ہے، اور واقعه یہ ہے کہ شبلى نے مير انيس کى عظمت کا جو نقش دلوں پر بيٹها ديا تها وه جاوداں ہوگيا.
اپنے چهوٹے بهائى اسحاق کی وفات پر شبلى نے جو مرثيہ لکھا وه اس فن ميں بهى ان کى کامل دسترس کا آئنہ دار ہے. ايک نمونہ ديکھئے:
وه برادر کہ مرا يوسف کنعانى تها
وه کہ مجموعه ہر خوبى انسانى تها
اپنے معاصرين علماء کى عام روش سے ہٹ کر”النعمان” ميں شبلى مسلم امہ کو درپيش مسائل کا حل يہ بتاتے ہيں کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مذہبى معاملات ميں پائے جانے والے عام اختلافات کو حل کرنے کے لئے اجتہاد اور اجماع کا سہارا ليں، اور اسے عقل کى کسوٹى پر پرکھنے کى کوشش کريں.
“سوانح مولانا روم” ميں شبلى نے پہلى بار دنيا کو مولانا روم کے متکلمانہ اسلوب نگارش سے روشناس کيا.
شبلى کی تحریر کی ایک نمایاں خصوصیت ایجاز و اختصار ہے، وہ بلا ضرورت جزئیات نگاری سے کام نہیں لیتے بلکہ تفصیل اور طوالت سے گریز کرتے ہیں. ہجرت نبوى کى طول طويل داستان چند مختصر جملوں ميں اسطرح سميٹ دى گئى ہے :
“آفتا ب کى روشنى دور پہنچ کى تيز ہوتى ہے، شميم گل باغ سے نکل کر عطر فشان بنتى ہے، آفتاب اسلام طلوع مکہ ميں ہوا، ليکن کرنيں مدينہ منوره کے افق پر چمکيں”، بلا شبه یہ عبارت ايجاز واختيار کا ايک شاهکار ہے.
شبلى کا ايک اهم وصف دبستان سازى ہے، وه فيض رسانى ميں بهى اپنے ہم عصروں ميں ممتاز تهے، چنانچه وه مصنف ہى نہيں، مصنف گر بهى تهے، اور عالم ہى نہيں، عالم ساز بهى تهے، بالفاظ ديگر وه مصدر لازم نہيں مصدر متعدى تهے، ايک طرف شاگردون کى فہرست ميں علامه سيد سليمان ندوى، پهر مولانا عبد السلام ندوى، مولانا عبد البارى ندوى، مولانا ضياء الحسن علوى، مولانا اکرام الله خان ندوى، حاجى معين الدين ندوى جيسے علمائے ذيشان ہين تو دسرى طرف بابائے اردو مولوى عبد الحق، سجاد حيدر يلدرم، خواجه غلام الثقلين، حسرت موہانى، ظفر على خان اور مولانا محمد على جوہر بهى اسى چشمئه فيض سے سيراب نظر آتے ہيں.
آئے عشاق گئے وعدهء فردا لے کر
اب انہيں ڈ هونڈ چراغ رخ زيبا لے کر
بقول عمير الصديق ندوى یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ “گذشته صدى کى اسلامى دنيا پر صرف اور صرف علامه شبلى کے اثرات کى عملدارى ہے، ابو الکلام آزاد ہوں، محمد على جوهر ہوں، سيد سليمان ندوى ہوں…. يا مولانا مودودى اور مولانا على مياں ہوں، گذشته صدى کے ہر سنگ ميل پر شبلى موجود ہيں، ان کى معنويت نے خود کو عملا ثابت کيا ہے اور آج بهى ضرورت اسى معنويت کى اہميت کو تسليم کرنے کى ہے”.
آج پهر مسلمانوں کے مذہب وطريقئه تعليم، تاريخ وادب اور تعليم نسواں کے بارے ميں غير متوازن باتيں کہى جارہى ہيں، اور ايسا کرنے والے مستشرقين اور ان کے جملوں کو بے سياق وسباق دہرانے والے ہندوستانى مصنفين کے علاوه وه مسلمان بهى ہيں جنہوں نے شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کى طرح تعصب کے زہرسے بهرى ہوا کو اپنا محسن سمجه ليا ہے، ايسے ميں کوئى شخصيت مشعل راه بن سکتى ہے تو وه شبلى ہى کى شخصيت ہے.
اپنےعہد کے صاحب طرز اديب مولانا عبد الماجد دريا بادى کے ان الفاظ پر ہم مضمون کو ختم کرتے ہيں:
“شبلى! روح پر فتوح والے شبلى! تو خوش ہو کہ تو جو چراغ جلاگيا، اسى سے بے شمار چراغ آج تک جل رہےہيں، اور آئنده بهى برابر جلتے رہيں گے”. اور ان کى شخصيت ان ديده وروں ميں تهى جن کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنى بے نورى په روتى ہے
بڑى مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديده ور پيدا

ذاكر اعظمى ندى – الرياض
(بصیرت فیچرس)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں