نیویارک: دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد حملہ آور کی خودکشی

نیویارک: دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد حملہ آور کی خودکشی

امریکہ کے شہر نیویارک میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایک مسلح شخص نے دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد خودکشی کر لی ہے۔

یہ واقعہ بروکلین میں پیش آیا ہے جب حملہ آور نے پولیس کی گاڑی میں بیٹھے دو اہلکاروں کوگولی ماری۔
نیویارک پولیس کے کمشنر بل بریٹن کا کہنا ہے کہ ان پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی وجہ ان کی ملازمت بنی۔
انھوں نے اسے بہیمانہ قتل کا واقعہ قرار دیا ہے۔
پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد حملہ آور نزدیکی سب وے کی جانب بھاگا جہاں اس نے اپنے آپ کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔
حملہ آور کی شناخت 28 سالہ اسماعیل برنسلے کے طور پر ہوئی ہے۔
اس واقعے کے بعد پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
اہلکاروں پر جان لیوا حملہ کرنے سے قبل حملہ آور نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کو بھی گولی مار کر زخمی کیا تھا اور سوشل میڈیا پر پولیس مخالف پیغام بھی چھوڑا تھا۔
نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر قتل کا واقعہ ہے اور سارا شہر ان ہلاکتوں پر سوگوار ہے۔
یہ نیویارک میں گذشتہ تین برس میں کسی پولیس اہلکار کی ہلاکت کا پہلا معاملہ ہے۔
لیو وینجن اور رافیئل راموس نامی پولیس اہلکاروں کو سنیچر کی سہ پہر اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ گشت سے لوٹے تھے۔ حملے کے فوری بعد انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور ایک سیاہ فام تھا جبکہ مرنے والے پولیس افسران ایشیائی اور ہسپانوی نسل کے تھے۔
امریکہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے ان ہلاکتوں کو ’بربریت کی ناقابلِ بیان کارروائی‘ قرار دیا ہے۔
نیویارک میں بی بی سی کی سمیرا حسین کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب شہر کی پولیس کے رویے اور ملزمان سے نمٹنے کے طریقوں کی کڑی جانچ کی جا رہی ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں نیویارک میں ایک گرینڈ جیوری نے اپنے فیصلے میں پولیس کے افسران کو ایک سیاہ فام شخص ایرک گارنر کی ہلاکت کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
ان سفید فام افسران پر الزام تھا کہ انھوں نے سگریٹ فروخت کرنے کے الزام میں حراست میں لینے کی کوشش کے دوران گارنر کا گلا ایسے پکڑا کہ اس کا سانس بند ہوگیا تھا۔
جیوری کے اس فیصلے کے خلاف نیویارک اور امریکہ کے دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں