محقق ابن الہمامؒ

محقق ابن الہمامؒ

”محقق“ کا لفظ فقہ حنفی کی کتاب ”الھدایة“ کے شارح، مشہور فقیہ، محدث، اُصولی، متکلم، مناظر اور مصنف علامہ محمد بن عبد الواحد السیواسی الاسکندرانی ابن الھمام (790۔861) پر جس قدر چسپاں ہے کسی اور کے لیے شاید اتنا موزوں نہ ہو، چناں چہ فقہائے احناف کے مابین جب مطلقاً ”محقق“ کا لفظ بولا جاتا ہے تو وہی مراد ہوتے ہیں۔ پیدائش اسکندریہ میں ہوئی تھی اور وفات قاہرہ میں، کچھ عرصہ حلب میں بھی رہے، حرمین کی مجاورت کا بھی شرف حاصل رہا۔

 

انہوں نے ”فتح القدیر“ کے نام سے ”ھدایہ“ کی شرح لکھی تو علمی نکات کے انبار لگادیے اور اتنی مفصل اور طویل شرح لکھنی شروع کی کہ تین چوتھائی حصہ کی شرح کرپائے تھے کہ پیغام اجل آگیا اور کتاب کی تکمیل اپنے بعد آنے والے قاضی زادہ کے لیے چھوڑ گئے۔

”اُصول فقہ“ پر قلم اٹھایا تو ”التحریر“ جیسی جامع اور اتنی مختصر کتاب لکھی جو پڑھنے والوں کے لیے چیستاں بن گئی ہے اور اس کے اسرار ورموز کو بیان کرنے کے لیے امیر بادشاہ اور ابن امیر الحاج کو میدان میں آنا پڑا۔

علم کلام پر کتاب لکھنی چاہی تو ”مسامرہ“ اور ”مسایرة“ جیسی دقیق ومتین کتاب لکھ ڈالی۔

فقہی مسائل میں حنفی ہونے کے باوجود بعض ایسی منفرد آرا کو اختیار کرنے میں انہوں نے کوئی قباحت محسوس نہیں کی جو عام فقہائے احناف کے رجحان سے الگ ہیں اور جن کے بارے میں ان کے شاگرد علامہ قاسم بن قطلوبغا فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ کے متفردانہ اقوال مذھب میں قابل قبول نہیں ہیں، یعنی فتویٰ ان پر نہیں ہے۔ انہوں نے تقریبا 14/ فقہی اور9/ اُصولی جزئیات مسائل میں اپنی رائے الگ ظاہر کی ہے۔

زندگی کی عام روش میں تواضع کا ایسا غلبہ کہ کتابوں کے نام میں بھی ”عاجز وفقیر“ سے زیادہ اپنے لیے ٹائٹل پسند نہیں کیا۔

کسب فیض کیا تو علامہ سراج قارئ الہدایہ، علامہ بدر الدین العینی، علامہ ابن الشحنہ اور عراقی وابن حجر جیسے ارباب فضل وکمال کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیے، اور شاگرد بنائے تو علامہ سخاوی، علامہ سیوطی، جیسے نامور مصنفین ان کے خوشہ چینوں اور حاشیہ برداروں میں رہے اور ساری زندگی کمال الدین بن الھمام کے کمال کا گن گاتے رہے اور قاسم بن قطلوبغا، ابن تغری بردی، ابن امیر الحاج اور شیخ الاسلام زکریا انصاری جیسے لوگ ان کی شاگردی پر فخر کرتے رہے۔

علامہ ابن الہمام کے علم وفضل کا یہ حال تھا کہ ان کے نام ور اساتذہ بھی ان کی موجودگی میں علم کا وزن محسوس کرتے تھے۔

علامہ سراج قاری الہدایہ فرماتے تھے کہ: إنہ أفاد أکثر مما استفاد․ (انہوں نے مجھ سے جتنا فیض پایا اس سے زیادہ مجھے فیض پہنچایا)

بدر الأقصرانی کے درس میں بیٹھتے تو تفسیر پڑھنے کے دوران ایسے نکات اور اشکالات پیش کرتے کہ

لا یجد لہ البدر مخلصا․ (کہ استاذ محترم سے ان کا جواب نہیں بن پاتا)

ایک اور استاذ علامہ عز الدین بن جماعہ کا حال علامہ سخاوی کے بقول یہ تھا کہ:وکان ابن الہمام لوفور ذکائہ إذا استشعر الشیخ بمجیئہ: قطع القراء ة․ (الضوء اللامع 8/129)

(ابن الہمام کی حد سے بڑھی ہوئی ذکاوت کا یہ حال تھا کہ ان کے درس گاہ میں داخل ہونے کا احساس ہوتے ہی اُستاد گرامی آگے پڑھنا بند کردیتے)

علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو تقویٰ وطہارت اور دیانت وصیانت کی دولت سے بھی خوب نوازا تھا۔ خودداری وغیرت مندی میں بھی یکتا تھے۔ ارباب اقتدار سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتے۔

ملک ظاہر چقمق سے اقتدار پر براجمان ہونے سے پہلے سے دوستی تھی، لیکن جب وہ سلطان بنے تو ان سے ملنا بھی ترک کردیا، صرف سفر حج کی لیے نکلنے سے پہلے اخلاقا ان سے ملنا ضروری سمجھا۔

انہوں نے مکمل تجرد اور عزلت نشینی کی زندگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، لیکن اس وقت کے صالحین نے ان سے درخواست کی کہ:

إرجع فإن الناس فی حاجة إلی علمک․ (بغیة الوعاہ 1/126) (آپ لوگوں سے میل جول ترک نہ کریں، کیوں کہ ان کو آپ کے علم کی ضرورت ہے)

علامہ ابن حجر نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ جب حج کے لیے گئے تو انہوں نے ”آب زم زم“ اس نیت سے نوش کیا کہ حافظہ کی قوت امام ذھبی کے برابر یا ان سے زیادہ ہوجائے۔

لیکن علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں کہ انہوں نے زم زم ”استقامت کی زندگی اور اسلام کی حقیقت پر آخری سانس“ آنے کے لیے پیا۔ (فتح القدیر 2/400)

ہر علم وفن میں یکساں مہارت اور فقہ وحدیث اور اُصول فقہ میں امامت کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود ان کے کسر نفسی اور تواضع کا حال یہ تھا کہ فتح القدیر جیسی بے مثال کتاب کے نام میں بھی ”للعاجز الفقیر“ کا لفظ شامل کیا۔

نماز کے مسائل واحکام پر ان کا ایک چھوٹا سا رسالہ ”زاد الفقیر“ کے نام سے ہے ،جسے1352ء میں مولانا بدر عالم میرٹھی نے اپنے حاشیہ کے ساتھ شائع کرا دیا تھا، اب یہی رسالہ نئی آب تاب اور نئی تحقیق کے ساتھ مشہور محقق عالم ساید بکداش نے شائع کردیا ہے۔

ساید بکداش مشہور محدث ونام ور محقق عالم شیخ محمد عوامہ کے داماد ہیں اور جامعہ طیبہ مدینہ منورہ کے پروفیسر ہیں اور فقہ حنفی کی متعدد کتابوں کی انہوں نے بھرپور خدمت کی ہے، جن میں قدوری کی شرح ”اللباب“ کی 5 جلدوں میں تحقیق ، نور الایضاح، کنز الدقائق اور علامہ الموصلی کی ”المختار للفتوی“ کی تصحیح وتعلیق شامل ہے، اس کے علاوہ بھی ”الجوھرة النیرة“ اور خود فتح القدیر کا تحقیقی ایڈیشن تیار کرنے پر بھی وہ کمربستہ ہیں اور غالبا پہلی کتاب کی تحقیق سے وہ فارغ بھی ہوچکے ہیں، علامہ عابد سندھی کی ایک جامع سوانح حیات بھی انہوں نے بڑی محنت سے لکھی ہے۔

ابن الہمام کا انتقال 861ھ میں ہوا اور قرافہ کے مشہور مقبرہ میں ابن عطاء اللہ اسکندری کے قریب ان کی تدفین عمل میں آئی۔ رحمہ اللہ رحمة واسعة

مولانا بدر الحسن قاسمی
ماہنامه الفاروق (جامعہ فاروقیہ کراچی)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں