ایرانی میڈیا میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک بند کیا جائے

ایرانی میڈیا میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک بند کیا جائے

ایران کے سنی اکثریتی مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان کے سرکردہ عالم دین نے ایک مرتبہ پھر الزام عاید کیا ہے کہ سرکاری ابلاغی ادارے بالخصوص سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینل ملک میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک برتنے کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سُنی عالم دین علامہ عبدالحمید اسماعیل زئی نے ایرانی ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن کے نو منتخب ڈائریکٹر جنرل محمد سرفراز کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں اُنہیں خبردار کیا گیا ہے کہ سرکاری میڈیا ملک میں یکجہتی کے بجائے منافرت کو ہوا دینے اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی ترغیب دے رہا ہے۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات میں مسلکی، مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر شہریوں کو تقسیم کرتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق کی پر ایک مخصوص طبقے کو ترجیح دینے کی کوشش میں ‌ہے۔
الشیخ عبدالحمید اسماعیل زئی کا یہ مکتوب ان کی ذاتی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری میڈیا میں اقلیتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں اپنے مسلک، مذہب، لباس، طرز بود و باش، زبانوں اور ثقافت کے اظہار کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں صرف ایک گروہ کو ملک کا نمائندہ سمجھ کر اس کے طور طریقے مسلط کیے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سرکاری میڈیا کے پروگراموں، فلموں اور ڈراموں میں ‌بھی مذہبی اقلیتوں کے عقاید اور ان کی بزرگ ہستیوں کا احترام نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی کھلے عام توہین کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اقلیتوں میں احساس کم تری کے ساتھ ساتھ احساس محرومی اور اشتعال جنم لے رہا ہے۔
انہوں نے ڈی جی ریڈیو و ٹیلی ویژن کارپوریشن سے مطالبہ کیا کہ وہ سرکاری نشریاتی اداروں میں گروہی اور مسلکی بنیادوں پر تعصب پھیلانے کی سازشوں کا سختی سے نوٹس لیں اور ریڈیو اور ٹی ویژن کے فورم سے فرقہ وارانہ بحث ومباحثے اور نعرے بازی کا سلسلہ بند کرائیں۔

اہل سنت دوسرے درجے کے شہری
ایران کے غیر سرکاری ابلاغی اداروں اور انسانی حقوق گروپوں کی طرف سے منظر عام پرآنے والی رپورٹس میں ماضی میں بھی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ ایران میں اہل سنت مسلک کے پیروکار سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔ سنی آبادی کی اکثریت ملک کے مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان میں آباد ہے تاہم ملک کی 75 ملین کی کل آبادی میں اہل سنت کے پیروکاروں کی تعداد 15 سے 20 ملین کے درمیان ہے۔ ان میں بلوچ، عرب، ترکمان، فوارس اور کرد نسلوں کے باشندے شامل ہیں۔
رپورٹس میں بتایا گیاہے کہ اہل سنت کے ساتھ امتیازی سلوک مذہبی اور نسلی دونوں طرح سے روا رکھا جاتا ہے۔ ملک کا سرکاری مسلک اہل تشیع ہے اور سرکاری قانون کے تحت تمام مکاتب فکر کا یکساں احترام کی بھی سارش کی گئی ہے تاہم عملا اہل سنت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ انہیں ریاست کے کسی اعلی ترین منصب پر تعینات نہیں کیا جاتا بلکہ تمام اعلیٰ عہدے صرف اہل تشیع کے لیے مخصوص ہیں۔
ایران کی خاتون سماجی رہ نما اور نوبل انعام یافتہ انسانی حقوق کارکن ڈاکٹر شیریں عبادی نے حال ہی میں فرانس میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایران میں اہل سنت کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں تمام اعلیٰ ترین عہدے اہل تشیع مسلک کے لیے مختص ہیں۔ اہل سنت کے پیروکاروں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی رجیم کسی غیر شیعہ کو اعلیٰ عہدے پرتعینات کرنے سے خوف زدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کے اعلیٰ مناصب پرسخت گیر اہل تشیع کو تعینات کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبادی کا کہنا تھا کہ ایران کے بعض شہروں میں فرقہ وارانہ کشیدگی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور خدشہ ہے کہ شیعہ ۔ سنی تصادم کی آگ جلد ہی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
خیال رہے کہ ایران کے سرکاری ریڈیو و ٹیلی ویژن کارپوریشن کے نئے ڈی محمد سرفراز کی تعیناتی مرشد اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے براہ راست کی گئی ہے۔ اس سے قبل 10 سال تک عزت اللہ ضرغامی اس عہدے پر تعینات رہے۔ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے باعث یورپی یونین نے تہران کے خلاف جو اقتصادی پابندیاں عاید کیں، تو محمد سرفراز بھی اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ ایران کی جن اہم شخصیات پر پابندیاں عاید کی گئیں ان میں محمد سرفراز کا نام بھی شامل ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں