ایران میں مولانا حسین علی رحمہ اللہ کا فیض

ایران میں مولانا حسین علی رحمہ اللہ کا فیض

برصغیر میں امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ کی علمی و دینی خدمات کے بارے میں ہر خاص وعام کو علم ہے، لیکن شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ اس کے پڑوس میں واقع ایران کے طول وعرض میں بھی لاکھوں لوگ مولانا رحمہ اللہ کے چشمہ علم و معرفت سے سیراب ہوتے چلے آرہے ہیں اور اس بڑے ملک کے کئی ضلعوں میں درس قرآن کی برکت سے توحیدی انقلاب بپا ہوا ہے۔

اس مختصر تحریر میں ایران سے تعلق رکھنے والے مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے بالواسطہ اور بلاواسطہ شاگردوں کی خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی، خاص کر دورہ ترجمہ وتفسیر کے ذریعے عوام وخواص کی دینی رہنمائی کے لیے ان کی محنتوں کا تذکرہ کیاجائے گا۔
زاہدان صوبہ سیستان بلوچستان کا صدر مقام ہے جو پاکستانی سرحدوں سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اہم اور بڑا شہر سمجھا جاتاہے۔ یہاں اہل سنت کا سب سے بڑا دینی وعلمی ادارہ دارالعلوم زاہدان واقع ہے جس کے صدر اور شیخ الحدیث شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم ہیں۔ موصوف نے زیادہ تر تعلیم جامعہ حمادیہ بدرالعلوم رحیم یارخان اور سندھ کے علاقہ ٹیڑھی کے دارالہدیٰ میں حاصل کی ہے اور دورہ حدیث کی تکمیل بھی جامعہ حمادیہ بدرالعلوم رحیم یارخان میں کرچکے ہیں۔ آپ کا شمار شیخ الحدیث والتفسیر مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہ اللہ کے خاص تلامذہ اور مریدین میں ہوتاہے۔ ایران میں آپ کو ’شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید‘ کے نام سے پہچانا جاتاہے۔ حضرت شیخ الاسلام گزشتہ کئی سالوں سے جامع مسجد مکی میں فجر کی نماز کے بعد درس قرآن میں عوام وخواص کو قرآن پاک کے معارف و مفاہیم سے روشناس کراتے رہتے ہیں۔

دوہزار بیس میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد لاک ڈاؤن کی صورتحال پیش آئی تو آن لائن درس قرآن کا سلسلہ جاری رہا۔ اس درس کو ایران کے علاوہ، افغانستان اور وسطی ایشیا کی فارسی زبان آبادی میں کافی سنا جاتاہے۔

’جامع مسجد مکی‘ زاہدان میں واقع ہے جو ایرانی اہل سنت کی سب سے بڑی مسجد بھی ہے۔ یہاں کئی مرتبہ قرآن پاک کا درس ختم ہوچکاہے اور یہ نورانی سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جامعہ کے بانی مولانا عبدالعزیز ملازادہ رحمہ اللہ اکابر علمائے دیوبند سے فیض حاصل کرچکے ہیں۔ آپؒ نے مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا اعزازعلی اور مولانا غلام اللہ خان رحمہم اللہ سے براہ راست استفادہ کیا تھا۔ مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ کئی سالوں تک زاہدان شہر میں درس قرآن دیتے رہے جس کے نتائج عوام و خواص کی دینی و اخلاقی اصلاح کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ آپ نے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے پاس دورہ ترجمہ و تفسیر پڑھا ہے جس کی کہانی مولانا عبدالرحمن محبی رحمہ اللہ اپنی گفتگو میں سناچکے ہیں۔ مولانا محبی کا شمار مولانا بنوری رحمہ اللہ کے اجل تلامذہ میں ہوتاہے؛ آپ کئی عشروں تک دارالعلوم زاہدان میں تدریسی خدمات سرانجام دہنے کے بعد اٹھائیس اگست دوہزار اکیس کو انتقال کرگئے۔

دارالعلوم زاہدان کے سابق مفتی اور دارالافتا کے بانی مفتی خدانظر رحمہ اللہ بھی مولانا غلام اللہ خان کے شاگرد رہے ہیں۔

اس کے علاوہ، ادارہ دارالعلوم زاہدان نے شعبان ورمضان کی تعطیلات میں دورہ ترجمہ و تفسیر کا انتظام بھی کیاہے جو کم از کم گزشتہ بیس سالوں سے جاری ہے۔ اس دورے میں طلبا کے علاوہ دینی مدارس اور سکولوں کے اساتذہ بھی شرکت کرتے ہیں۔ خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتی ہیں۔ اس دورے کے اساتذہ سب مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہ اللہ کے شاگرد رہ چکے ہیں جن میں مولانا نعمت اللہ رحمہ اللہ دوہزار پانچ میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں بعض دیگر علما کے ساتھ اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ منصب تدریس پر بعد میں مولانا حافظ احمد اسماعیلزہی براجماں ہوئے اور گزشتہ چند سالوں سے دورہ تفسیر کی تدریس کی اہم ذمہ داری ناظم تعلیمات دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالغنی بدری کو تفویض ہوچکی ہے۔ سالانہ کم از کم چارسو حضرات و خواتین براہِ راست دورے میں شریک ہوتے ہیں جبکہ آن لائن شرکائے دورہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

زاہدان شہر میں جامعہ اشاعت التوحیدوالسنہ اور خیرالمدارس میں بھی مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے طرز پر ترجمہ وتفسیر کے دورے کئی سالوں سے منعقد ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جامعہ اشاعت التوحیدوالسنہ کے بانی مولانا عبدالغفور رحمہ اللہ خود لگ بھگ سترہ سالوں تک درس قرآن دیتے رہے اور بدعات وخرافات سے ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی ہجرت کے بعد یہ ذمہ داری مولانا امیرمحمد رحمہ اللہ کے کندھوں پر آگئی، 1407ھ (1986ء) سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح زاہدان شہر میں مولانا عبدالناصرحفظہ اللہ بھی دینی مدرسہ بدرالعلوم میں دورہ تفسیر و ترجمہ منعقد کراتے ہیں۔ یہ دورے دینی مدارس کی تعطیلات، شعبان و رمضان، میں منعقد ہوتے ہیں۔
زاہدان سے ذرا فاصلے پر خاش کا شہر واقع ہے جہاں مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہ اللہ کے تلامذہ بڑی تعداد میں موجود ہیں اور کئی عشروں سے خدمت دین میں مصروف ہیں۔ ترجمہ وتفسیر قرآن کے حوالے سے مولانا محمدعثمان قلندرزہی دامت برکاتہم کمربستہ ہوکر تشنگان قرآن کو فیض یاب کراتے ہیں۔ ان کے دورہ تیس سالوں سے جاری ہے۔ 
ایرانی بلوچستان کے شہر خاش کے بعد سراوان کا ضلع آتاہے جہاں متعدد دینی مدارس قائم ہیں۔ اس ضلع کی سرحدیں پاکستان کے علاقہ پنجگور سے ملتی ہیں۔ سراوان کے شہر گشت میں قائم موقر اور عظیم دینی ادارہ ’عین العلوم‘ کے بانی مولانا سیدعبدالواحد گشتی ’مولاناحسین علی رحمہما اللہ‘ کے شاگرد اور مرید خاص تھے۔ آپ نے ملتان میں اپنے مرشد کے حکم پر دو سال تک اہل بدعت کا مقابلہ کیا اور سینکڑوں لوگ ان کے حلقہ مریدین میں شامل ہوکر اپنی اصلاح کرتے رہے۔ بعداز آں اپنے مادروطن ایران منتقل ہوئے جہاں ضلع سراوان میں آپ نے جامعہ عین العلوم گشت کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ جامعہ اب بھی مکمل گہماگہمی کے ساتھ مسلم معاشرے کی خدمت میں مصروف ہے۔شیخ الحدیث مولانا محمدیوسف حسین پور رحمہ اللہ ایران کے صفِ اول کے علما میں شمار ہوتے تهے اور مذکورہ جامعہ کے مہتمم وشیخ الحدیث بھی تهے۔ آپ سیدعبدالواحد گشتی کے بھتیجے اور داماد تهے۔ اس عظیم الشان جامعہ میں مولانا عبدالحکیم سیدزادہ دورہ ترجمہ و تفسیر منعقد کرتے ہیں۔

گشت کے چھوٹے شہر سے ذرا فاصلے پر سراوان شہر واقع آتا ہے جہاں متعدد دینی مدارس قائم ہیں۔ یہاں کا مشہور جامعہ ’اشاعت التوحید‘ ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں سے یہاں بھی دورہ ترجمہ و تفسیر منعقد ہوتاہے۔
زاہدان شہر سے پچاس کلومیٹر دور، جامعہ تعلیم القرآن شورشادی واقع ہے۔ صوبے میں اس جامعہ کا شمار ممتاز دینی مدارس میں ہوتاہے جس کے بانی و مہتمم مولانا دین محمد درکانی دامت برکاتہم ہیں۔ آپ مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہ اللہ کے ممتاز اور مایہ ناز تلامذہ سے ہیں اور آپ کی شہرت تدریسی وتالیفی خدمات کے بناپر ہے۔ آپ کی بیس سے زائد فارسی وعربی کتابیں اب تک چھپ چکی ہیں جن میں بعض مدارس کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے یہاں بھی جامعہ کے سینئر استاذ مولانا غلام اللہ صاحب دورہ ترجمہ وتفسیر منعقد کراتے ہیں جہاں تشنگان علوم قرآن اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں۔
صوبہ سیستان بلوچستان کے شمالی حصہ ’سیستان‘ میں بھی متعدد دینی مدارس قائم ہیں جن کا براہ راست تعلق دارالعلوم زاہدان سے ہے۔ اسی تاریخی خطے میں مولانا عبدالصمد دامت برکاتہم تفسیر قرآن پڑھاتے ہیں۔ آپ کے تلامذہ میں دینی مدارس کے طلبا کے علاوہ عصری جامعات کے طلبا اور بعض سکول اساتذہ بھی حصہ لیتے ہیں۔
شعبان و رمضان میں ایک اور دورہ تفسیر ایران کے شمالی صوبہ ’گلستان‘ میں منعقد ہوتاہے جہاں ’جامعہ فاروقیہ‘ گالیکش کے شیخ الحدیث ومہتمم مولانا محمدحسین گرگیج دامت برکاتہم گزشتہ پچیس سالوں سے دورہ ترجمہ و تفسیر کے ذریعے ایک بہت بڑی علمی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کے دورے کی شہرت قومی بلکہ علاقائی بن چکی ہے، چنانچہ دوسو سے زائد افراد ہر سال دورے میں شرکت کرتے ہیں۔
ایران کے طول و عرض میں گلشن مولانا حسین علی سے بالواسطہ فیض لینے والوں میں مولانا ابراہیم دامنی رحمہ اللہ (ایرانشہری)، مولانا عبدالعزیز لادیزی رحمہ اللہ (میرجاوہ)، مولانا شہاب الدین شہیدی (خواف خراسان)، مولانا نظرمحمد دیدگاہ (ایرانشہری)، مولانا محی الدین ہیجاڑی زاہدانی اور مولانا غلام رسول بارکزہی (مہتمم جامعہ اشاعت التوحید سراوان) کے نام قابل ذکر ہیں۔
ایک بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ ایران کے سنی علاقوں میں جہاں علمائے دیوبند کے خوشہ چین مصروف خدمت ہیں، عام طور پر مساجد میں بھی عوام کے لیے ترجمہ اور مختصر تفسیر کی کلاسیں لگتی ہیں؛ ان علاقوں میں صوبہ سیستان بلوچستان، خراسان، کرمان اور گلستان کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ تہران، یزد، ہرمزگان اور کردستان میں بھی دارالعلوم زاہدان کے فیض یافتہ حضرات علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز ایران کے مشرقی صوبوں کے دینی مدارس کے نصاب کے مطابق طلبا قرآن پاک کا ترجمہ چار سالوں میں مکمل کرتے ہیں۔ ترجمہ کے گھنٹوں میں زیادہ تر وہ اساتذہ پڑھانے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جنہوں نے مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے طرز پر ترجمہ پڑھاہے۔
نیز سینکڑوں جامع مساجد میں خطیب حضرات بیان کے لیے قرآنی آیات کی تفسیر سے کام لے کر عوام کی دینی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے مختلف طریقوں سے مولانا حسین علی رحمہ اللہ اور ان کے اجل تلامذہ کا فیض ایران میں بھی جاری وساری ہے اور ان شاءاللہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

عبدالحکیم شہ بخش
ایڈیٹر ’سنی آن لائن‘ اردو
*****

آخری اپڈیٹ: پندرہ ستمبر دوہزار بائیس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں