استغفار کی ضرورت واہمیت

استغفار کی ضرورت واہمیت

انسان دارالامتحان میں ہے، دنیاوی زندگی میں انسان کے ہر عمل سے یا تو اس کی اخروی زندگی سنوررہی ہوتی ہے، یا خراب ہو رہی ہوتی ہے ، انسان کے ہر عمل پر اخروی کام یابی وناکامی مرتب ہو رہی ہوتی ہے۔

 

الله تبارک وتعالی کا انسان کو دنیا کے اندر بھیجنے کا مقصد یہ دیکھنا ہے یہ دنیا کی مختصر زندگی میں نفس وشیطان کی پیروی کرتا ہے، یا میری رضا کے مطابق زندگی گزار کے آتا ہے:﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ﴾․ ( سورة الملک:2)

الله تعالیٰ نے ہر انسان میں خیر وشر کے دونوں مادّے رکھے ہیں:﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا، فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․(سورة الشمس:10-7)

اور قسم ہے انسان کی جان کی اور اس ذات کی جس نے اسے درست بنایا، پھر اس کی بد کرداری اور پرہیز گاری دونوں باتوں کا اس کو القا کیا۔ یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اس جان کو پاک کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو فجور میں دبادیا۔

مطلب یہ ہے کہ نفس انسانی کی تخلیق میں حق تعالیٰ نے گناہ اور طاعت دونوں کے مادے اور استعداد رکھ دی ہے، پھر انسان کو ایک خاص قسم کا اختیار اور قدرت دے دی کہ وہ اپنے قصد واختیار سے گناہ کی راہ اختیارکرے، یا اطاعت کی اور انسان کا ازلی دشمن شیطان، اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ انسان کو صراط مستقیم سے ہٹا کر ضلالت وگم راہی کے راستے پر ڈال دے، چناں چہ جب سے شیطان راندہٴ درگاہ ہوا ہے، اس وقت سے اس لعین نے انسان کو گم راہ کرنے کی قسم کھائی ہے:﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ،ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِم﴾․(سورة الأعراف:17)

(شیطان) بولا تو جیسا تونے مجھے گم راہ کیا ہے ، میں بھی ضرور بیٹھوں گا ان کی تاک میں، تیری سیدھی راہ پر، پھر ان پر آؤ ں گا ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے۔

چناں چہ شیطان انسانوں کو گم راہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، اور عجیب وغریب حیلوں کے ذریعے انسانوں کو حق راستے کی طرف سے جانے نہیں دیتا۔

لیکن الله تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو شیطان کے مکر وفریب سے آگاہ کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے، جو انسانیت کو شیطان کے جال سے نکالنے کی کوشش فرماتے تھے اور سیدھی راہ کی طرف راہ نمائی فرماتے تھے اور انسان چوں کہ کم زور ہے، اس لیے یہ بسا اوقات ارحم الرحمین کے راستے کو چھوڑ کر ضلالت وگم راہی اور شیطان کے راستے پر چلنے لگ جاتا ہے اور نفس وشیطان کی پیروی میں لگ کر احکم الحاکمین کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی بڑی منعم ذات کی نافرمانی کی کوئی معافی نہ ہوتی، لیکن قربان جائیے اس رحیم وکریم ذات کی رحمت پر کہ بندہ جتنا اس کی نافرمانی کرے پوری زندگی رب کی نافرمانی میں گزارے ، لیکن مرنے سے پہلے پہلے اگر وہ پنے افعال بد پر نادم ہوکر اس رب کے سامنے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر اپنے رب سے معافی مانگ لے، تو وہ رحیم وکریم ذات فوراً معاف فرما دیتی ہے۔

چناں چہ شیطان لعین نے الله تبارک وتعالی کے بندوں کو گم راہ کرنے کی قسم اٹھائی تو الله تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بھی اپنے بندوں کو بخشتا رہوں گا، جب تک کہ وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے۔

چناں چہ حدیث شریف میں ہے:”عن أبی سعید قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : ان الشیٰطن قال : وعزتک یا رب لا أبرح أغوی عبادک، مادامت أرواحھم في أجسادھم، فقال الرب عزوجل: وعزتی وجلالی وارتفاع مکانی، لا أزال اغفرلھم ما استغفرونی․“ ( مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبہ، رقم الحدیث:2344)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان نے الله تعالیٰ سے کہا کہ قسم ہے تیری عزت کی اے میرے پروردگار! میں تیرے بندوں کو ہمیشہ گم راہ کرتا رہوں گا، جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسم میں ہیں، پروردگار عزوجل نے فرمایا: قسم ہے اپنی عزت اور بزرگی کی او راپنے مرتبہ کی بلندی کی! میرے بندے جب تک مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی ہمیشہ ان کو بخشتا رہوں گا۔

انسان الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو
الله تبارک وتعالیٰ نے گناہ گاروں کو توبہ کی ترغیب کے لیے، تاکہ بڑے سے بڑا گناہ گار بھی اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یہ آیت نازل فرمائی:﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ﴾․ (سورة الزمر:53)

آپ فرما دیجیے کہ اے میرے وہ بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ! الله کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بلاشبہ الله تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا، بے شک وہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

یہ ایسی آیت ہے کہ جس کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ما أحب أن لی الدنیا بھذہ الاٰیة“․ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبہ، رقم الحدیث:2360)

یعنی اس آیت کریمہ کے مقابلہ میں مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں بھی دے دی جائیں، تو بھی میں اسے پسند نہیں کروں گا۔

کیوں کہ اس آیت کریمہ میں گناہوں سے مغفرت وبخشش کی سب سے عظیم سعادت کی بشارت دی گئی ہے، جو اسی ایک دنیا نہیں، بلکہ اس جیسی سینکڑوں دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ گراں قدر ہے۔

چناں چہ انسان کے پاس نامہ اعمال میں چاہے پہاڑوں کے بقدر گناہ ہوں ، لیکن جب وہ گناہوں پر نادم ہو کر اپنے رب معافی مانگتا ہے، تو الله تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: قال الله تعالیٰ: یا ابن آدم، انک مادعوتنی ورجوتنی غفرت لک علی ما کان فیک، ولا أبالی، یا ابن آدم، لو بلغت ذنوبک عنان السماء، ثم استغفرتنی غفرت لک ولا أبالی، یا ابن آدم، انک لو أتیتنی بقراب الأرض خطایا ثم لقیتنی لا تشرک بی شیئا لأتیک بقرابھا مغفرة․“( سنن الترمذی، کتاب الدعوات، رقم الحدیث:3540)

الله تعالیٰ فرماتے ہیں: اے انسان! جب تک تو مجھے پکارے اور مجھ سے امید رکھے میں تجھے بخش دوں گا، جن گناہوں میں بھی تو ہو او رمجھے کچھ پروا نہیں۔اے انسان! اگر تو میرے پاس آئے زمین بھر کر خطاؤں کے ساتھ، پھر تو مجھ سے ملاقات کرے، اس حال میں کہ تونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو میں ضرور تیرے پاس آؤں گا زمین بھر کر مغفرت کے ساتھ۔

ایک دوسری روایت میں ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”یقول الله تعالیٰ یا عبادی، کلکم ضال! إلا من ھدیت، فاسئلونی الھدی أھدکم، وکلکم فقراء إلا من اغنیت، فاسئلونی ارزقکم، وکلکم مذنب إلاّ من عافیت، فمن علم منکم أنی ذوقدرة علی المغفرة، فاستغفرنی،غفرت لہ ولا أبالی، ولو أن أولکم واٰخرکم، وحیکم ومیتکم، ورطبکم ویابسکم اجتمعوا علی أشقی قلب عبد من عبادی، مانقص ذلک من ملکی جناح بعوضة، ولوأن أولکم واخرکم وحیّکم ومیتکم ورطبکم ویابسکم اجتمعوا فی صعید واحد، فسأل کل انسان منکم ما بلغت أمنیتہ، فأعطیت کل سائل منکم، ما نقص ذلک من ملکی إلا کما لو أن أحدکم مرّ بالبحر فغمس فیہ إبرة، ثم رفعھا، ذٰلک بأنی جواد ماجد أفعل ما أرید، عطائی کلام، وعذابی کلام، إنما امری لشيٴ إذا أردت أن أقول لہ کن فیکون․“( مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبہ، رقم الحدیث:2350)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو! تم سب گم راہ ہو، علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں، پس مجھ سے ہدایت چاہو، میں تمہیں ہدایت دوں گا اور تم سب فقیر ہو ،علاوہ اس شخص کے، جس کو میں نے غنی بنا دیا، مجھ سے روزی مانگو، میں تمہیں روزی دوں گا، اورتم سب گناہ گار ہو، علاوہ اس شخص کے، جس کو میں نے بچا لیا، پس تم میں سے جس شخص نے جانا کہ میں بخشنے پر قادر ہوں او رپھر اس نے مجھ سے بخشش مانگی، تو میں اس کے سب گناہ بخش دوں گا او رمجھے اس کی کوئی پروا نہ ہو گی۔او راگر تمہارے پچھلے ،اگلے، تمہارے زندے ،مردے، تمہارے تر اور خشک ( یعنی بوڑھے، جوان) میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی دل بندہ کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری مملکتمیں کوئی زیادتی نہ ہو گی (یعنی اگر تم سب کے سب اتنے ہی پرہیز گار اور اتنے ہی نیک بن جاؤ، جتنا کہ کوئی شخص پرہیز گار نیک بن سکتا ہے، تو اس سے میری سلطنت ومملکت میں ادنی سی بھی زیادتی نہ ہو گی۔)

اور اگر تمہارے اگلے، پچھلے، تمہارے زندے، مردے، تمہارے تر اور خشک ( غرض کہ ساری مخلوقات) میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت بندہ ( شیطان لعین) کی طرح ہو جائیں ، تو اس سے میری خدائی میں ایک مچھر کے برابر بھی کمی نہ ہو گی۔

اور اگر تمہارے اگلے، پچھلے، تمہارے زندے، مردے، تمہارے تر اور خشک ایک جگہ جمع ہوں اور تم میں سے ہر شخص اپنی انتہائی آرزو وخواہش کے مطابق مانگے، یعنی اس کے دل میں جو بھی آرزو اورخواہش ہے مجھ سے مانگے او رپھر تم میں سے ہر شخص کو اس کی خواہش کے مطابق دوں، تو اس سے میری خدائی میں کچھ بھی کمی نہیں ہو گی، (ہاں اگر بفرض محال کمی ہو بھی تو ) اسی قدر مثلاً تم میں سے کسی شخص کا سمندر پر گزر ہو اور وہ اس میں سوئی ڈال کر پھر اسے نکالے،( یعنی اگر بفرض محال کسی کمی کا تصور کیا جائے تو وہ اسی قدر ہو گا، جتنا کہ ایک سوئی پر پانی لگ جاتا ہے، ورنہ حقیقت میں خدا کی خدائی میں کمی کے کسی بھی درجہ کا کیا سوال؟ وہ کتنا ہی دے اس کے ہاں ہر گز کمی نہیں ہوتی۔) اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں بہت سخی ہوں ، بہت دینے والاہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں، میرا دینا صرف حکم کرنا ہے اور میرا عذاب صرف حکم دینا ہے، (یعنی یہ سب چیزیں صرف میرے ایک حکم سے ہو جاتی ہیں، میں ذرائع اوراسباب کا محتاج نہیں ہوں۔)

اور میں کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہوں ، تو اس کے لیے میرا صرف اتنا ہی حکم ہے کہ میں کہہ دیتا ہوں ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

واقعہ
سلطنت بنو امیہ کا ایک باغی شخص، جس کا نام علی اسدی تھا، اس نے لڑائی کی، راستے پر خطر کر دیے، لوگوں کو قتل کیا، مال لوٹا، سالار لشکر اور رعایا نے ہر چند اسے گرفتار کرنا چاہا، لیکن یہ ہاتھ نہ لگا، ایک مرتبہ جنگل میں تھا کہ ایک شخص کو قرآن پڑھتے سنا، وہ اس وقت یہ آیت تلاوت کر رہا تھا۔

﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ﴾․ (سورة الزمر:53)

یہ اسے سن کر ٹھٹک گیا او راس سے کہا اے خدا کے بندے! یہ آیت مجھے دوبارہ سنا، اس نے پھر پڑھی، خدا کے اس ارشاد کو سن کر کہ وہ فرماتا ہے : ”اے میرے گناہ گار بندو! تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، میں سب گناہوں کے بخشنے پر قادر ہوں، میں غفور رحیم ہوں۔“

اس شخص نے جھٹ سے اپنی تلوار کو میان میں کر لیا او راسی وقت سچے دل سے توبہ کی اور صبح کی نماز سے پہلے مدینہ پہنچ گیا، غسل کیا اور مسجد نبوی میں نماز صبح جماعت کے ساتھ ادا کی اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس جو لوگ بیٹھے تھے، ان ہی میں ایک طرف یہ بھی بیٹھ گیا۔

جب روشنی ہو گئی تو لوگوں نے اسے دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو سلطنت کا باغی، بہت بڑا مجرم اور مفرور شخص علی اسدی ہے، لوگ اٹھ کھڑے ہوئے کہ اسے گرفتار کر لیں، اس نے کہا سنو بھائیو! تم مجھے گرفتارنہیں کرسکتے، اس لیے کہ تم مجھ پر قابو پاؤ، اس سے پہلے ہی میں توبہ کر چکا ہوں، بلکہ توبہ کے بعد تمہارے پاس آگیا ہوں۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا: یہ سچ کہتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مروان بن حکم کے پاس چلے، یہ اس وقت حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، وہاں پہنچ کر فرمایا: یہ علی اسدی ہیں، یہ توبہ کرچکے ہیں، اس لیے اب تم انہیں کچھ نہیں کرسکتے، چناں چہ کسی نے ان کے ساتھ کچھ نہ کیا۔

جب مجاہدین کی ایک جماعت رومیوں سے لڑنے کے لیے چلی، تو ان مجاہدوں کے ساتھ یہ بھی ہو لیے، سمندر میں ان کی کشتی جارہی تھی کہ سامنے سے چند کشتیاں رومیوں کی آگئیں، یہ اپنی کشتی میں سے رومیوں کی گردنیں مارنے کے لیے ان کی کشتی میں کود گئے ،ان کی آب دار خارا شگاف تلوار کی چمک کی تاب رومی نہ لاسکے اور نامردی سے ایک طرف کو بھاگے، یہ بھی ان کے پیچھے اسی طرف چلے، چوں کہ سارا بوجھ ایک طرف ہو گیا، اس لیے کشتی پلٹ گئی، جس سے وہ سارے رومی ہلاک ہو گئے اور حضرت علی اسدی رحمہ الله بھی ڈوب کر شہید ہو گئے۔

ایک جملے پر حجاج بن یوسف کی مغفرت کی امید
حجاج بن یوسف خلفائے بنو امیہ کا انتہائی سفاک وخوں خوار ظالم گورنر تھا، اس نے ایک لاکھ انسانوں کو اپنی تلوار سے قتل کیا اور جو لوگ اس کے حکم سے قتل کیے گئے ان کو تو کوئی گن ہی نہ سکا، بہت سے صحابہ اور تابعین کو اس نے قتل کیا، یا قیدوبند میں رکھا۔

حضرت خواجہ حسن بصری رحمہ الله فرمایا کرتے تھے کہ اگر ساری امتیں اپنے اپنے منافقوں کو قیامت کے دن لے کر آئیں اور ہم اپنے ایک منافق حجاج بن یوسف ثقفی کو پیش کر دیں، تو ہمارا پلہ بھاری رہے گا۔

حجاج بن یوسف جب مرنے لگا تو اس کی زبان پر یہ دعا جاری ہو گئی اور یہی دعا مانگتے مانگتے اس کا دم نکل گیا۔

دعا یہ تھی:
اے الله! تیرے بندے، بندیاں میرے بارے میں کہتے ہیں کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا، مگر مجھے تجھ سے امید ہے کہ تو مجھے معاف فرما دے گا، مجھے معاف فرمادے۔

خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ الله کو حجاج بن یوسف کی زبان سے مرتے وقت یہ دعا بہت اچھی لگی اور ان کو حجاج کی موت پر رشک ہونے لگا او رجب خواجہ حسن بصری رحمہ الله سے لوگوں نے حجاج کی اس دعا کا ذکر کیا، تو آپ رحمہ الله نے تعجب سے فرمایا کہ کیا واقعی حجاج نے یہ دعا مانگی تھی؟ لوگوں نے کہا، جی ہاں، اس نے یہ دعا مانگی تھی، تو آپ نے فرمایا کہ شاید خدا اس کو بخش دے۔

توبہ کب تک قبول ہوتی ہے؟
انسان کی توبہ پوری زندگی میں بر وقت قبول ہوتی ہے، حالت نزع سے پہلے پہلے تک، جب انسان پر نزع کی کیفیت طاری ہو جائے، تو اس وقت انسان کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”إن الله یقبل توبة العبد مالم یغرغر․“(سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3557)

الله تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتے ہیں، جب تک کہ دم گھٹنے اور آواز نکلنے نہ لگے، موت کے وقت جب روح جسم سے نکلنے لگتی ہے، تو دم گھٹنے لگتا ہے اور حلق کی نالی میں ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی ہے، اس کو حالت نزع کہتے ہیں، اس کے بعد زندگی کی کوئی امید نہیں رہتی اور اس وقت دوسرا عالم منکشف ہو جاتا ہے۔چناں چہ ایسی حالت میں توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

انسان کے پاس دنیا کے اندر مہلت ہے اور وہ الله تعالیٰ سے اپنے گناہوں کو معافی کے ذریعے بخشوا سکتا ہے او راپنے سیاہ اعمال نامے کو نیکیوں میں بدلواسکتا ہے۔لیکن جب آنکھیں بند ہوں گی تو پھر خواہ جتنا بھی پچھتائے، گڑا گڑائے، اس وقت کا پچھتانا کسی کام کا نہیں ہو گا۔

﴿یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّلِمِیْنَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَةُ وَلَہُمْ سُوء ُ الدَّارِ ﴾․(سورة المؤمن:52)
جس دن ظالموں کو ان کی معذرت کام نہ دے گی اور ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برُے گھر میں رہنا ہے۔

اور آخرت میں جب انسان اپنے سیاہ اعمال نامے اور اس کی جزا، جہنم کی صورت میں دیکھے گا، تو الله سے درخواست کرے گا کہ اے الله! ہم نے سب کچھ دیکھ لیا اور سن لیا ہے ، لہٰذا ہمیں دنیا میں بھیج دے، ہم نیک عمل کریں گے، لیکن اس وقت کوئی مہلت نہیں ملے گی۔

﴿وَلَوْ تَرَی إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاکِسُو رُؤُوسِہِمْ عِندَ رَبِّہِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً إِنَّا مُوقِنُون﴾․(سورة السجدہ:12)
اور اگر آپ دیکھیں تو عجب حال دیکھیں، جب کہ یہ مجرم لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوں گے کہ اے ہمارے پرورد گار! بس ہماری آنکھیں او رکان کھل گئے، سو ہم کو پھر بھیج دیجیے، ہم نیک کام کریں گے۔

اس لیے آج ہمارے پاس مہلت ہے، ہم اس مختصر زندگی سے اپنی ابدی زندگی کو سنوار سکتے ہیں، ہم تھوڑے سے وقت کے لیے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اخروی راحت وسکون حاصل کر سکتے ہیں۔

ہمارے پاس الله تبارک وتعالیٰ کی وحی قرآن وسنت کی صورت میں موجود ہے، جس میں نیک وبد اعمال پر ترغیب وترہیب سب کچھ موجود ہے، قیامت کے دن کوئی انسان یہ عذر نہیں کرسکے گا کہ مجھے معلوم نہیں تھا۔

چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے:﴿وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیْہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً غَیْْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَاء کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِن نَّصِیْرٍ﴾․(سورہ فاطر:37)

اور وہ چلائیں گے اس میں اے رب ہم کو نکال کہ ہم کچھ بھلا کا م کر لیں، وہ نہیں جو کرتے رہے، کیا ہم نے عمر نہ دی تھی، تم کو اتنی کہ جس میں سوچ لے جس کو سوچنا ہوا اور پہنچا تمہارے پاس ڈرانے والا، اب چکھو کہ کوئی نہیں گناہ گاروں کا مدد گار۔

یعنی دوزخی جب مہلت مانگیں گے کہ ہمیں نکال دیجیے تو ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں گے اور فرماں بردار بن کر حاضر ہوں گے۔ تو دوزخیوں کو جواب دیا جائے گا کہ ہم نے تم کو عقل دی تھی، جس سے سمجھتے اور کافی عمر دی، جس میں سوچنا چاہتے تو سب نیک وبد سوچ کر سیدھا راستہ اختیار کر سکتے تھے، پھر اوپر سے ایسے اشخاص اور حالات بھیجے جو برے انجام سے ڈراتے اور خواب غفلت سے بیدار کرتے رہے،کیا اس کے بعد بھی کوئی عذر باقی رہا اب پڑے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔

انسان کمزور ہے، اس سے خطا ہو سکتی ہے، صرف انبیاء علیہم السلام کو الله تعالیٰ نے یہ شان عطا فرمائی کہ وہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ، باقی انسانوں سے گناہ صادر ہوسکتا ہے، لیکن بہترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو گناہ سے فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”کل بنی اٰدم خطاء وخیر الخطائیں التوابون․“(مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبہ، رقم الحدیث:2341)

ہر انسان خطا کار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو توبہ کرتے ہیں۔

واقعہ
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله کا جب آخری وقت تھا اور بار بار غشی طاری ہو رہی تھی، اردگرد بیٹھے ہوئے شاگرد اور احباب کلمہ شریف کا ورد کرنے لگے، لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ الله کے منھ سے صرف ” لا“ لا“ نکلتا رہا، یعنی نہیں، جس سے شاگرد کافی تشویش میں پڑ گئے، جب امام احمد بن حنبل رحمہ الله کو غشی سے افاقہ ہوا، تو شاگردوں نے وہ بات عرض کی کہ حضرت! ہم کلمہ کا ورد کرنے لگے اور آپ کی زبان سے ” لا“ لا“ کی آواز آنے لگی، جس سے ہم کافی متفکر ہوئے۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے فرمایا کہ میں جو” لا“”لا“ کہتا رہا وہ دراصل میں شیطان سے کہہ رہا تھا، کیوں کہ شیطان میرے سامنے آیا او رکہنے لگا کہ اے احمد! تو مجھ سے بچ کے نکل گیا او رتجھ پر میرا کوئی داؤ نہیں چل سکا، تو میں نے کہا” لا“ نہیں۔ یعنی ابھی تک میں تیرے مکروفریب سے مامون نہیں ہوں، کیوں کہ روح ابھی تک جان میں ہے، جب تک روح جان میں ہے، میں تیری طرف سے مامون نہیں ہوں۔ (جاری)

ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
بشکریہ الفاروق میگزین

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں