دولت اسلامیہ کی فضائی حملوں سے نمٹنے کی حکمتِ عملی

دولت اسلامیہ کی فضائی حملوں سے نمٹنے کی حکمتِ عملی

امریکہ کی جانب سے شمالی عراق میں دولتِ اسلامیہ پر فضائی بمباری شروع ہوئے تقریباً دو مہینے ہی ہوئے ہیں کہ یہ شدت پسند جنگجو اپنے آپ کو نئی حقیقی صورتحال کے مطابق بنا رہے ہیں۔

دولتِ اسلامیہ کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں عینی شاہدین اور قبائلی ذرائع نے بتایا ہے کہ جنگجوؤں نے وہاں چیک پوسٹوں میں کمی کر دی ہے اور موبائل فون کا استعمال بھی کم کر دیا ہے تاکہ وہ فضائی حملوں سے بچ سکیں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جنگجوؤں نے گاڑیوں کے بڑے قافلوں کی بجائے موٹر سائیکلوں پر سفر کرنا شروع کر دیا ہے اور انھوں نے ہدف کا تعین کرنے والوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے کالے جھنڈے عام لوگوں کے گھروں پر بھی لگا دیے ہیں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جن عمارتوں کو اتحادی ممالک کے طیاروں نے نشانہ بنایا وہ فضائی حملوں سے پہلے خالی کرا لی گئی تھیں۔
کرکوک کے قریب ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی شیخ نے بتایا کہ جب دولتِ اسلامیہ کو معلوم ہوا کہ فضائی حملوں میں ان کے علاقے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو ’انھوں نے گاؤں میں اپنے ایک بہت بڑے مرکز کو‘ چھوڑ دیا۔
شیخ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وہ اپنا تمام فرنیچر، گاڑیاں اور اسلحہ لے گئے۔ پھر انھوں نے سڑک کے کنارے بم نصب کرکے اپنے مرکز کو اْڑا دیا۔‘
دولتِ اسلامیہ کے جنگجو عام فوج کے مقابلے میں کم وزن کے ساتھ حرکت کرتے ہیں جس سے انھیں پسپا ہو کر دبارہ منظم ہونے میں آسانی ہوتی ہے۔
سکیورٹی امور کے ماہر اور برطانوی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر پال گیبسن کا کہنا ہے کہ’یہ ایک آزمودہ فارمولہ ہے کہ جب عسکریت پسندوں کو فضائی حملوں کا سامنا ہوگا تو پہلا کام وہ یہ کریں گے کہ ہدف کے طور پر اتحادی ممالک کی فضائیہ کے سامنے اپنی موجودگی کم کر دیں گے۔‘
ان کے مطابق ’وہ موبائل اور ریڈیو پر اپنی پیغام رسانی کا کام کم کر کے اسے تتر بتر کر دیں گے تاکہ ان کی موجودگی کا کم سے کم احساس ہو۔‘
جنگجوؤں کے درمیان لاپرواہی برتنے کو روکنے کے لیے دولتِ اسلامیہ کی طرف سے جاری ایک ہدایت نامے کے مطابق ’میدانِ جنگ‘ میں کیمرے اور موبائل کے ذریعے تصاویر لینا اور فوٹیج بنانے پر پابندی ہے۔
ہدایات میں کہا گیا ہے کہ ’میدانِ جنگ‘ میں صرف مخصوص میڈیا کے افراد کو جو کہ جنگ کی فوٹیج اور دستاویزات کے انچارج ہیں، فلم بنانے کی اجازت ہو گی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ملے گی۔
ایک نئے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس مہم کے لیے بنایا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ’خاموشی سے اپنا کام کرو اور مجاہدین برادران کا تحفظ کرو۔‘
دیگر ٹوئٹر اکاؤنٹس پر دولتِ اسلامیہ کے حامیوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح ان ہدایات پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اپنے براداران کی نقل و حرکت کے بارے میں بات کرکے ان کو نقصان نہیں پہنچاؤ۔‘
ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ماضی میں ہونے والے لڑائیوں یا حالیہ لڑائیوں کی خوشی منانے کے لیے ان کی تصاویر شائع کرنا بالکل ٹھیک ہے۔‘
بریگیڈیئر گبسن کا کہنا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کی کوشش ہوگی کہ وہ مقامی آبادی کو اتحادی ممالک کی خلاف کرے۔
’وہ عوام میں چھپنے کی کوشش کریں گے۔وہ ہسپتالوں، مسجدوں جیسی عمارتوں کا استعمال کریں گے کیونکہ یہ جب اتحادی فورسز کا نشانہ بنتے ہیں تو اس میں عام لوگوں کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔‘
جہادی ویب سائٹوں نے عراق میں ماضی میں نشانہ بننے والے عام لوگوں کی تصاویروں کو استعمال کرتے ہوئے نئے لوگوں کو بھرتی کیا۔
موجودہ صورتِحال میں انسانی بنیادوں پر فضائی حملے کچھ حد تک ٹھیک ہیں لیکن ان سے ہونے والی نقصان کی تصاویر سامنے آنے سے اتحادی قوتوں کی کوشش پر منفی اثر پڑے گا۔

بی بی سی اردو

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں