عشرہ ذوالحجہ عبادت کے لیے ایک سنہری موقع ہے

عشرہ ذوالحجہ عبادت کے لیے ایک سنہری موقع ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ذوالحجہ کے پہلے عشرے کو ایک سنہری موقع یاد کرتے ہوئے حاضرین کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے کی ترغیب دی۔

چھبیس ستمبر دوہزار چودہ کے خطبہ جمعے کا آغازسورت الفجر کی ابتدائی آیات کی تلاوت سے کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: اکثر مفسرین کا خیال ہے ’لیال عشر‘ جو سورت الفجر میں آیاہے، اس سے مقصد ماہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور ’الفجر‘ کا مطلب عیدالاضحی کی صبح ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے ذوالحجہ کے پہلے عشرے کو یاد کرکے قسم کھائی ہے جو اس کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ یہ ہمیں خبردار کرنے کے لیے ہے کہ ذوالحجہ کے مبارک شب وروز کا فائدہ اٹھائیں اور اس سے اپنی کمزوریوں کے ازالے کے لیے بہرہ مند ہوجائیں۔ ان دنوں نماز، روزہ، تلاوت قرآن پاک، صدقات وخیرات اور اللہ کے ذکر ویاد سمیت دیگر عبادات کی بڑی فضیلت ہے۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: آج کل حجاج کرام ارض حرمین کی جانب رواں دواں ہیں تاکہ اسلام کے اہم فریضہ یعنی حج کو بجا لائیں۔ ہمیں اگر حج کی سعادت نصیب نہیں ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غفلت و سستی کا مظاہرہ کرکے عبادات میں چشم پوشی و تساہل سے کام لیں۔ ہمیں ان مبارک ایام کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے اور کثرت سے استغفار کرکے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کی محنت کرنی چاہیے۔ احادیث کی رو سے عشرہ ذوالحجہ کے ہر دن کا روزہ ایک سال روزہ رکھنے کے برابر ہوگا اور یوم عرفہ کو روزہ رکھنے سے دو سال رکھنے کے برابر ہوگا۔ نیز پہلے عشرے کی راتوں میں عبادت کا ثواب شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔

انہوں نے اپنے بیان کے اس حصے کے آخر میں حاضرین کو دعوت دی حجاج کے حج کی قبولیت کے لیے دعا کریں تاکہ ان کا حج عالم اسلام کے لیے خیروبرکت کا باعث بن جائے۔

اقوام متحدہ و عالمی طاقتیں تشدد اور جنگوں کے خاتمے کے لیے قدم اٹھائیں
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میںخطیب اہل سنت زاہدان نے مغربی طاقتوں کی جنگ اور دھمکی کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ’اقوام متحدہ اور دیگر سپرپاورز کہلانے والے‘ ملکوں سے مطالبہ کیا جنگ اور تشدد کے بجائے صلح اور امن کی راہ فراہم کرنے لیے قدم اٹھائیں۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: شدت پسندی اور انتہاپسندی واحد مسئلہ تھا جس کے بارے میں اکثر عالمی رہنماوں نے گفتگو کی۔ بعض ملکوں کے سربراہاں نے کھلی دھمکی کی زبان استعمال کی، امریکا جنگ اور مزید تشدد کے ذریعے انتہاپسندی کی بیخ کنی کے لیے عزم کا اظہار کررہاہے اور اس مقصد کے لیے کچھ ملکوں کو اتحادی کے طور پر ساتھ رکھاہے۔

انہوں نے مزیدکہا: افسوس کا مقام ہے کہ مذکورہ اجلاس میں کسی نے امن اور صلح کی بات کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور سب نے جنگ اورتشدد کو انتہاپسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری قرار دی۔

امریکی صدر باراک اوباما کی جنرل اسمبلی اقوام متحدہ میں خطاب پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: امریکی صدر نے اپنے خطاب میں انتہاپسند گروہوں اور تنظیموں کو سرطانی دبے قرار دیا، لیکن وہ بھول گئے کہ سب سے بڑا کینسر، قابض اسرائیلی ریاست، کے بارے میں اظہار خیال کرے جس کی وجہ سے بہت سارے چھوٹے کینسر وجود میں آئے ہیں۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے کہا: جس طرح پہلے بھی اسی منبر سے کہا گیا ہے اور اب ایرانی صدر نے بھی اپنے خطاب میں زوردیا ہے، انتہاپسندی اور شدت پسندی کی اصل وجوہات سمجھنے اور انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک علت کا خاتمہ نہ کیاجائے، معلول سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ظلم وجور اور انصاف کی فراہمی سے گریز شدت پسندی کی اصل وجوہات ہیں۔ نیز اسرائیل کی بربریت اور مغربی طاقتوں کی اس سے بے دریغ حمایت خطے میں فساد کی جڑ ہے۔ حال ہی میں جب اسرائیل نے پچاس دنوں میں دوہزار سے زائد افراد کو موت کی نیند سلایا اور ہزاروں افراد کو زخمی کردیا، عالمی برادری کیوں خاموش تماشائی بنی رہی؟ اسرائیل کو کیوں لگام نہیں لگایا گیا؟ دوسری طرف فلسطینیوں کے وطن اور دھرتی پر صہیونی ریاست کا قبضہ ہے اور ان کی جان ومال پر تعدی ہورہی ہے۔ ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی جارہی تاکہ فلسطین ایک آزاد اور مستقل ریاست بن جائے۔ اگر ایسا کیاگیا اور مسئلہ فلسطین حل ہوگیا، تو ضرور انتہاپسندی کی راہ روکنے میں سہولت ہوگی۔

ممتاز ایرانی سنی عالم دین نے کہا: جب پوری دنیا اسرائیلی ریاست کی مسلسل دراندازیوں اور جارحیت دیکھ رہی ہے، واضح ہے کہ سب لوگ برداشت نہیں کرسکتے اور بعض جوشیلے لوگ بندوق اٹھاکر لڑنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ہم انتہاپسندی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے بھی خلاف ہیں کہ کچھ ممالک لڑائی اور زوربازو سے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا چاہیں اور اس مہم کے لیے بعض دیگر ممالک کو خواستہ ناخواستہ اپنے ساتھ ملائیں۔

دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے مدعی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اس سے پہلے کہ خطے میں انتہاپسندی اور شدت پسندی جڑ پکڑلے تم کہاں تھے؟ عراق میں جس کی حکومت بزوربازو اور عسکری حملے سے تم نے ختم کردیا، قومی حکومت بنانے کے بجائے عراقی قوم کو مزید تقسیم کردیا اور انہیں یکجا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا خونی دشمن بنادیا۔ اسی وجہ سے دوسروں کو مداخلت کا موقع فراہم ہوگیا۔ اگر عراق اور شام میں شروع ہی سے مشکلات ومسائل کے حل پر توجہ دی جاتی تو آج یہ صورت حال دیکھنا نہ پڑتی۔

صہیونی ریاست کے امن یقینی بنانے کو خطے میں بدامنی پیدا کرنے کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے کہا: مشرق وسطی میں بدامنی پیدا کرکے عراق، مصر، لیبیا اور شام میں اسلامی بیداری کو درست رستے سے ہٹایاجارہاہے۔ یہ سب اس لیے کیاجارہاہے تاکہ اسرائیل کی سکیورٹی یقینی ہوجائے۔ ان قوتوں اور طاقتوں کی پالیسی یہی ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو اور وہ ایک دوسرے کو ماریں تاکہ اسرائیل امن سے رہے۔

مغربی ممالک کی جنگی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: لڑنے اور لڑانے کی پالیسی دنیا کے لیے خطرناک ہے؛ مسائل کا حل صلح کرانے اور قومی حکومتوں کی تشکیل میں ڈھونڈنا چاہیے۔ قوموں کے حقوق پر توجہ دینے اور سب کی بات سننے سے خطے میں بدامنی کا جن بوتل میں بند کیاجاسکتاہے۔ اقوام متحدہ اور ’سپرپاورز‘ ہونے کے دعویدار ممالک صلح اور امن کی راہ پر گامزن ہوجائیں۔ لڑائی اور تشدد ہی سے تشدد اور لڑائی کی بیخ کنی کوئی معقول بات نہیں ہے مگر بعض خاص صورتوں میں اس کا استعمال بجا ہوگا۔

تعلیم مادی وروحانی ترقی کی بنیاد ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں اہل سنت کے مرکزی اجتماع برائے جعمہ میں وزارت تعلیم کے صوبائی ڈائریکٹر کی موجودی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نئے تعلیمی سال کے آغازپر انہیں اور دیگر اساتذہ وطلبہ کو مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے کہا: میری سمجھ کے مطابق وزارت تعلیم کے صوبائی ڈائریکٹر صوبے میں تعلیم کے فروغ کے لیے کمربستہ ہیں۔ اس حوالے سے تمام لوگوں کو چاہیے اپنی توجہ بچوں کی تعلیم پر مرکوز کریں اور کوئی بچہ سکول سے محروم نہ ہو۔

تعلیم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: تعلیم اور تربیت بشر کی تمام مادی اور روحانی ترقیوں کی بنیاد ہے۔لہذا ہمیں اگلی نسلوں کی خاطر محنت کرنی چاہیے۔ وزارت تعلیم جتنی بھی طاقت ور اور محنتی ہو، پھر بھی ماں باپ اور معاشرے کے دیگر افراد کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لہذا سب اپنی ذمہ داریاں پوری کردیں۔

صوبہ سیستان بلوچستان میں تعلیم کی کمزور حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہمارا صوبہ تعلیم کے لحاظ سے پورے ملک میں آخری نمبر پر ہے۔ ناخواندگی کے مقابلے کے لیے پرزور عزم کی ضرورت ہے اور حکومتی عہدیدار، علمائے کرام، دانشور حضرات اور عمائدین سمیت سب کی ذمہ داری بنتی ہے اس سلسلے میں کوشش کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں