دولتِ اسلامیہ سے لاحق خطرے کا غلط اندازہ لگایا گیا

دولتِ اسلامیہ سے لاحق خطرے کا غلط اندازہ لگایا گیا

امریکی صدر براک اوباما نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے شام میں اسلامی جنگجوؤں کی بغاوت سے لاحق خطرے کو کم اہمیت دی۔

انھوں نے یہ بات دولتِ اسلامیہ کے قیام کے حوالے سے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے پروگرام 60 منٹس میں کہی۔
براک اوباما نےبتایا کہ ’امریکی انٹیلی جنس کے سربراہ جم کلیپر نے اعتراف کیا ہے کہ شام میں جو کچھ ہو رہا تھا، اس کا انہوں نے غلط اندازہ لگایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے جب عراق میں سنی قبائلیوں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے جنگجوؤں کو شکست دی تو اِن جنگجوؤں نے پڑوسی ملک شام میں پیدا ہونے والے طاقت کے خلا کا فائدہ اٹھایا اور دولت اسلامیہ کی شکل میں پھر سے سر اٹھالیا اور باہر سے آنے والے کئی غیرملکی جہادیوں کی مدد سے اپنی قوت بڑھالی۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’بنیادی طور پر دولت اسلامیہ اس طرح وجود میں آئی کہ آپ کے پاس عراق میں القاعدہ تھی، جسے ہماری فوج نے سنی قبائل کے ساتھ مل کر زیر کیا جس کے بعد وہ زیر زمین چلے گئے مگر پچھلے چند برسوں میں شام میں خانہ جنگی کے دوران جہاں وسیع علاقوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ انہیں اپنی تشکیل نو کرنے اور افراتفری کا فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انہوں نے غیرملکی جنگجوؤں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا جو ان کے جہادی فلسفے پر یقین رکھتے تھے اور جو ہر جگہ سے یورپ سے، امریکہ سے، آسٹریلیا اور مسلم دنیا سے بھی شام پہنچ کر ایک ہوگئے۔‘
صدر اوباما نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکی خفیہ اداروں نے عراقی فوج کی اسلامی جنگجوؤں پر قابو پانے کی صلاحیت کے بارے میں بھی غلط اندازہ لگایا جس کے باعث دولت اسلامیہ ملک کے وسیع علاقوں پر قابض ہوگئی۔
دوسری جانب عراق کے دارالحکومت بغداد سے ملی والی اطلاعات کے مطابق شہر کے مغرب میں حکومتی فورسز اور اسلامی جنگجوؤں میں شدید لڑائی ہوئی ہے۔
بغداد میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ان جنگجوؤں کو امریکی قیادت میں ہونے والے فضائی حملوں کی وجہ سے روکے رکھنے میں مدد ملی ہے مگر انہوں نے اب تک اپنے مورچے نہیں چھوڑے ہیں جن میں سے بعض تو شہر سے محض دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
اسی دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہتھیاروں کی کمی سے دوچار عراقی فوج کو پچھلے ہفتے دو بار شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں مجموعی طور پر اس کے 400 فوجی یا توفائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے یا پھر جنگجوؤں نے انہیں پکڑنے کے بعد اجتماعی طور پر قتل کیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اب تک اپنے سخت ترین بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک اس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتا اور یہ کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے زمینی فوج کی ضرورت پڑے۔
یاد رہے کہ ترکی، دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی قیادت میں بننے والے اتحاد میں شامل ہونے سے اب تک گریز کرتا رہا ہے۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں