حکام کی قومی سوچ اورنظر سے اتحاد وامن کو تقویت ملے گی

حکام کی قومی سوچ اورنظر سے اتحاد وامن کو تقویت ملے گی

ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے حکام کی یکساں نگاہ اور قومی سوچ کو ضروری قرار دیتے ہوئے اسے ’پائیدار اتحاد و امن‘ اور ’ملک کی عزت‘ کے باعث قرار دے دیا۔

 

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے انیس ستمبردوہزار چودہ، تئیس ذوالقعدہ چودہ سو پینتیس، کے بیان میں کہا: قومی سوچ اور نظر بہت اہم اور ضروری ہے خاص طورپر حکام اور ذمہ داروں کے لیے یہ بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ کسی بھی ملک کے سیاست دان اس وقت کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ان کی نگاہیں اور سوچ مخصوص قومیتوں اور لسانی و مسلکی قیود سے بالاتر نہ ہوں۔ اللہ تعالی کی نظر سب کے لیے مساوی و یکساں ہے جس طرح کسی خاندان کے سربراہ کی نظر اہل وعیال کے لیے برابر ہے حالانکہ اولاد کی طبیعتیںاور مزاج مختلف ہیں۔ حکام کو بھی حدیث شریف ”تخلقوا باخلاق اللہ“ پر عمل کرنا چاہیے اور پوری قوم کے افراد اور اکائیوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: قوم کے فردفرد کو یکساں حقوق اور توجہ ملنی چاہیے؛ اسی صورت میں حکومت اور حکومتی سسٹم کو تقویت ملے گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی عوام کے ووٹ سے قائم ہوا ہے اور اس کی بقا و استحکام کا راز اسی غیرجانبداری میں ہے۔

اہل سنت زاہدان کی مرکزی نمازجمعہ کے اجتماع میں گورنر سیستان بلوچستان علی اوسط ہاشمی کی موجودی پر اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے انہیں خوش آمدید کہنے کے بعد کہا: انجینئر ہاشمی، گورنر صوبہ سیستان بلوچستان ، ملک کے انتہائی قابل سیاستدانوں اور ایماندار حکومتی ذمہ داروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کو بجاطور پر ایک عوامی اور غیرجانبدار شخص کہے سکتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ایسے مدبر شخص ہمارے صوبے کا گورنر ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: الحمدللہ مجھے چاپلوسی سے نفرت ہے اور جو کہتاہوں وہ افراد کا حق بنتاہے۔ میرے خیال میں موجودہ صدرمملکت اور ان کے اکثر ساتھیوں کی نگاہیں وسیع اور قومی ہیں۔ غیرجانبداری اللہ کو بھی پسند ہے اور اسی غیرجانبداری کی بدولت ملک میں پائیدار امن، بھائی چارہ اورملک کا وقار حاصل ہوگا۔

انہوں نے مزیدکہا: ہمارے صوبے کی سرحدیں دو ہمسایہ ملکوں سے لگتی ہیںجہاں بعض مسائل پائے جاتے ہیں؛ اسی لیے بعض اوقات بدامنی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہاں متعدد لسانی ومسلکی برادریاں صدیوں سے آباد ہیں اور پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن دونوں (بلوچ اور غیربلوچ برادریوں) کے بعض ابن الوقت افراد کی جانب سے اشتعال انگیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہ لوگ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر ایسا کرتے ہیں لیکن ہمارے لوگ چوکس ہیں اور کسی کے بہکاوے میں نہیں آتے ہیں۔

گورنر ذاتی طورپر بے روزگاری اور شناختی کارڈز کے مسائل حل کرائے
ممتاز سنی عالم دین نے بات جاری رکھتے ہوئے گورنر سیستان بلوچستان سے گزارش کی کم ازکم دو اہم عوامی مسائل کو بذات خود حل کرانے کی کوشش کرے۔
انہوں نے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان ایک سرحدی صوبہ ہے اور بعض جعلی شناختی کارڈز بھی یہاں جاری ہوئے ہیں لیکن بہت سارے ایرانی شہریوں کے پاس بالکل شناختی کارڈ نہیں ہے یا ان کے شناختی کاغذات کو جعلی قرار دیا جاچکاہے۔ بعض کو خدمات نہیں دی جارہی یا ان کی شہریت مشکوک قرار دی گئی ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: بعض لوگ ایسے ہیں جن کے آباو ¿اجداد صدیوں سے یہاں آباد رہے ہیں اور انگریزی فوجیوں سے ان کے اجداد نے مقابلہ کرکے اپنے ملک کا دفاع کیاہے۔ لیکن گزشتہ رجیم میں جب شناختی کارڈز کے اجرا کا سلسلہ شروع ہوا تو بوجوہ انہوں نے کارڈز نہیں لیے۔ لہذا گورنر صاحب سے درخواست ہے ان افراد کے مسائل کا حل نکالے تاکہ ایرانی شہری مزید مسائل و پریشانی سے دوچار نہ ہوں۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: گورنر سیستان بلوچستان سے ہماری دوسری درخواست یہ ہے کہ مختلف قومیتوں اور مسالک کے روزگار کا مسئلہ ذاتی طورپر حل کرے۔ بے روزگاری کا مسئلہ یہاں بہت سارے مسائل کی جڑ ہے۔ حکومتی ذمہ داریوں کی تقسیم میں بھی انہیں نظرانداز کیاجا چکاہے، امید ہے گورنر صاحب اس حوالے سے عملی اقدامات اٹھائیں۔

بینک اپنے معاملات میں شرعی واسلامی مسائل کا خیال رکھیں
قرض الحسنہ رسالت بینک کے جنرل ڈائریکٹر کی موجودی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہمارے صوبے کے لوگ اسلامی و فقہی پابندیوں کی وجہ سے اب تک پوری طرح بینکوں کی سہولتوں اور خدمات سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ لوگوں کو اندیشہ ہے کہیں گناہ میں مبتلا نہ ہوں۔

انہوںنے مزیدکہا: الحمدللہ گزشتہ کچھ عرصے سے بعض تبدیلیاں نظر آرہی ہیںاور بعض بینکوں کی کوشش ہے غیرسودی معاملات کو فروغ دیں۔ ہمارا حکومتی سسٹم اسلامی اصولوں پرہے اور مناسب بھی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسلامی حدود اور فقہی مسائل کا خیال رکھا جائے۔ رسالت بینک اس میدان میں دوسروں سے سبقت لے چکاہے اور سود اور کمیشن کے بغیر قرضہ دیتاہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولانا نے صنعتی و روایتی پروڈکٹس میں سرمایہ کاری اور روزگار کی فراہمی کو صوبہ سیستان بلوچستان کے لیے انتہائی ضروری قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام اور افراد سے درخواست کی اس مسئلے پر مزید توجہ دیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں