حضرت ام معبد الخزاعیہؒ

حضرت ام معبد الخزاعیہؒ

”اللّٰھم بارک لھا فی شاتھا“․ (الہٰی !ان کی بکری میں برکت عطا کر دے۔)

دعائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم
سعادت مند خاتون
جس خاتون کی ہم سیرت بیان کرتے ہیں، زمانہ جاہلیت میں وہ گم نام تھیں، ان کی شہرت ان کے خیمے یا خاندان تک محدود تھی۔

 

جب معبود حقیقی لوگوں کو کسی سعادت مند کے لیے مسخر کر دیتا ہے تو وہ لوگ بھی سعادت مند بن جاتے ہیں، اس خاتون پر اس وقت برکت کی بارش ہوئی، جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے موقع پر دوران سفر ان کے ہاں بطور مہمان ٹھہرے تھے، اس خاتون کے لیے سعادت کے اسباب لکھ دیے گئے اور یہ تمام صحابہ کرام میں مشہور و معروف خاتون بن گئیں ، کیا آپ اس مہمان نواز خاتون کا نام جانتے ہیں؟

یہ ام معبد خزاعیہ ہیں، ان کا نام عاتکہ بنت خالد بن منقذ تھا۔(الطبقات:228/8) یہ جیش بن خالد الخزاعی الکعبی کی ہمشیرہ تھی، ام معبد خزاعیہ سے مروی حدیث کے وہی راوی ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم ام معبد کے ہاں فروکش ہوئے، جس سے تمام خواتین میں ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے، یہ جو دو کرم سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی فصیح وبلیغ قادر الکلام خاتون تھیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ، جس خوب صورت انداز میں انہوں نے بیان کیے، وہ تاریخی اعتبار سے ایک قابل تعریف، دل کش، دل پذیر او رمستند حوالے تصور کیے جاتے ہیں۔ (الاسیتعاب:388/1)

شمائل محمدیہ کے حوالے سے ام معبد کا بیان سند کی حیثیت رکھتا ہے۔

الہٰی ان کی بکری میں برکت عطا کر دے
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم او رحضرت صدیق اکبر مدینہ منورہ روانگی کے لے تیار ہوئے ، عبدالله بن اریقط اللیثی کی خدمات حاصل کی گئیں، کیوں کہ وہ جنگلی راستوں کے بہت بڑے ماہر تھے، حضرت ابوبکر نے سواری کے لیے دو اونٹنیاں تیار کر رکھی تھیں، آپ رضی الله عنہ کی بیٹی اسماء کھانا لے آئیں، جسے تھیلے میں ڈال کر از اربند سے باندھ دیا تھا، اس موقع پر جب انہیں تھیلے کا منھ باندھنے کے لیے کوئی رسی نہ ملی تو انہوں نے اپنے ہی ازار بند کے دو حصے کیے اور ایک سے تھیلے کا منھ باندھ دیا، اس حوالے سے ان کا لقب ” ذات النطاقین“ مشہورومعروف ہو گیا، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم او رحضرت ابوبکر صدیق سفر پر روانہ ہوئے، صدیق اکبر کا غلام عامر بن فہیرہ خدمت کے لیے ہم راہ تھا۔

مہاجر قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا، سواریاں کبھی تیز اور کبھی آہستہ چلتیں، اس طرح وہ اجاڑ بیابان صحرا میں مسلسل چلے جارہے تھے، جب چلتے چلتے تھک جاتے تو قدرے سستانے کے لیے پڑاؤ کر لیتے، عام طور پر پڑاؤ ایسی جگہ کیا جاتا جہاں قرب وجوار میں اقامت گزینوں کی کوئی بستی ہوتی اور ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ میسر ہوتا، یہاں تک کہ اس راہ پر چلتے چلتے اس قافلے کا گزر ام معبد خزاعیہ کے ہاں سے ہوا۔

ام معبد کا گھر قدیم بستی میں تھا۔ (معجم البلدان:313/4) شریف الطبع خاتون تھیں اور ان کے چہرے مہرے سے طاقت ، صبر اور توانائی کے آثار نمایاں جھلکتے تھے، یہ اپنے خیمے کے سامنے بڑے باوقار انداز میں بیٹھتیں، وہاں سے گزرنے والے مسافروں کو کھانا کھلاتیں او رپانی پلاتیں، جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ہم راہ یہاں ٹھہرے، ان سے گوشت اور کھجوروں کے تعلق سے پوچھا، تاکہ وہ خرید لیں، اُن کے پاس کچھ بھی نہ تھا، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: بخدا! اگر میرے پاس کچھ ہوتا تو میں آج مہمان نوازی کا اعزاز حاصل کرنے سے محروم نہ رہتی، کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں پوچھنے بھی نہ دیتی اور نہ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو قیمت ادا کرنا پڑتی۔

یہ سال خشک تھا، پورا دیہاتی علاقہ قحط کی لپیٹ میں تھا، لوگوں کے پاس کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو چکی تھیں، تمام لوگ شدید قحط کی زد میں آئے ہوئے تھے، سخت بھوک او رافلاس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت سوکھ کر کانٹا بن چکی تھی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نگاہ خیمے کے ایک کونے میں کھڑی بکری پر پڑی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ام معبد! یہ بکری کیسی ہے؟

عرض کیا، یہ بہت لاغر ہے، جس کی وجہ سے یہ دوسری بکریوں کے ساتھ چرنے کے لیے نہ جاسکی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ عرض کیا، کمزوری کی وجہ سے یہ دودھ دینے کے قابل نہیں رہی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا آپ مجھے اجازت دیتی ہیں کہ میں اس کا دودھ دوہ لوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، میرے ماں باپ آپ صلی الله علیہ وسلم پر قربان ، چشم ماروشن دل ماشاد، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس میں دودھ کے آثار دکھائی دیتے ہیں تو بڑے شوق سے دودھ حاصل کر لیں۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بکری کے تھنوں کو ہاتھ لگایا، الله کا نام لیا اور یہ دعا کی : ”الہٰی! اس بکری میں برکت عطا کر دے “، ان دعائیہ کلمات کا آپ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک منھ سے نکلنا تھا کہ بکری کا ہوانا بھرگیا او راس کے تھنوں سے دودھ جاری ہوا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اتنا بڑا برتن منگوایا جس سے پورا کنبہ سیر ہوسکے، جس سے پوری جماعت سیراب ہو سکے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے دودھ دوہا، یہاں تک کہ برتن بھر گیا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے پہلے گھر کی مالکہ خاتون کو دودھ پلایا، انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو دودھ پلایا اور آخر میں دودھ پیا اور فرمایا: ” قوم کا ساقی آخرمیں پیا کرتا ہے“، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دوبارہ دودھ دوہا یہاں تک کہ برتن بھر گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہ دودھ ام معبد کے پاس چھوڑا اور آپ صلی الله علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ام معبد کے حق میں برکت کی دعا کی، جس سے ان کے بھاگ جاگ اٹھے، بوصیری نے اپنے قصیدے میں اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا ہے #
درت الشاة حین مرت علیھا
فلھا ثروة بھا ونماء
(جب قافلہ ام معبد کے پاس سے گزرا تو بکری دودھ سے مالا مال ہو گئی اور وہ بکری ان کے لیے دولت اور فراوانی کا باعث بن گئی۔)

علامہ سبکی نے اپنے قصیدے میں اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا #
مسحت علی شاة لدی أم معبد
بجھد فألفتھا أدر حلوبة
(الطبقات:230/1)
(آپ صلی الله علیہ وسلم نے ام معبد کی بکری کو بڑی چاہت اور کوشش سے تھپکی دی تو وہ وافر مقدار میں دودھ دینے والی بن گئی۔)

واضح ایمانی موقف
نادرو پسندیدہ بات یہ ہے کہ ام معبد کے دل کو ایمان کی نرم ونازک ہوانے اس وقت چھو لیا تھا اور نسیم اسلام کے عطر بیز جھونکے ان ابتدائی لمحات میں ان کے دل سے جاٹکڑائے تھے جب انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی میٹھی میٹھی باتیں سنی تھیں، راویوں کا بیان بھی میرے اس موقف کی تائید کرتا ہے ، قریش کے چند جوان ام معبد کے پاس سے گزرے، انہو ں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں سرگرداں تھے، انہوں نے خطرے کو بھانپتے ہوئے ان کے سامنے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: تم مجھ سے ایک ایسی بات پوچھتے ہو جس کے بارے میں، میں نے اس سے پہلے سنا ہی نہیں، بھلا میں کیا جانوں؟ جب جانوں ہی نہیں تو تمہیں بتاؤں کیا؟ اس طرح انہوں نے قریشی نوجوان کا رُخ پھیر کر انہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دور رہنے کی تدبیر کی، یہ انداز ان کی ذہانت پر دلالت کرتا ہے۔

ام معبد کی فصاحت
حسن وجمال کے اوصاف ومحاسن کو جب شمار کیا جائے گا تو کلام کا حسن ان پر بازی لے جائے گا، اس لیے کہ حسن وجمال کے معنی کا پر تو صرف جسم ہوتا ہے، جب کہ کلام کا حسن روح اور دل سے کشید ہوتا ہے، فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے ام معبد  مشہور ومعروف ہوئیں، کیوں کہ اسلوب گفت گو جادواثر اور ایسا دل نشین ہوتا تھا کہ سننے والے کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا، انہوں نے اپنے حسن بیان سے ایسی شہرت پائی کہ کبھی بھلائی نہ جاسکیں او رخاص طور پرجس انداز سے انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف بیان کیے، اس کی تو مثال نہیں ملتی، بہت سے لوگوں نے رسول اقدس صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف بیان کیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے شمائل کا تذکرہ بڑی فصاحت وبلاغت سے کیا، لیکن ام معبد کی فصاحت وبلاغت کے معیار کو کوئی نہ پہنچ سکا، جب ام معبد نے اپنے خاوند ابو معبد کے سامنے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف اس انداز میں بیان کیے کہ ان کے کانوں میں رسیلے کلمات رس گھول گئے، ان کی آنکھوں میں چمک اور دل میں وجدآ فریں سرور پیدا کر گئے، بلکہ یہ اوصاف سنتے ہی ان کے دل میں یہ ولولہ پیدا ہواکہ ابھی اسی وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردوں۔

سبحان الله
یہ و اقعہ اس وقت پیش آیا جب ابو معبد کمزور، لاغر او رہڈیوں کے ڈھانچوں پر مشتمل بکریوں کا ریوڑ چرا کر شام کو گھر واپس آئے، انہوں نے ام معبد کے پاس دودھ دیکھا تو حیران رہ گئے، پوچھا یہ دودھ کہاں سے آیا؟ بکریاں تو گھر سے بہت دور تھیں اور یہاں گھر میں کوئی دودھ دینے والی بکری موجود نہ تھی، انہوں نے کہا: کیا بتاؤں؟ ہمارے تو نصیب جاگ اٹھے، ایک برکتوں والی ہستی نے یہاں قدم رنجہ فرمایا اور ہماری کایا پلٹ گئی، انہوں نے سارا قصہ سنایا، ابو معبد نے یہ سن کر کہا: بخدا! میرے خیال میں یہی تو وہ ہستی ہے جسے قریش تلاش کرتے پھرتے ہیں، ام معبد مجھے بتاؤ وہ کیسے تھے؟ ان کا سراپا کیسا تھا؟ ان کا انداز گفت گو کیا تھا؟ ام معبد نے رسول اقدس صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف ایسی خوش اسلوبی سے بیان کرنے شروع کیے کہ سننے والا دم بخود ہو جائے، ایسی جادو بھری گفت گو اور دل کو قیدی بنانے والے الفاظ استعمال کیے کہ سننے والا انگشت بدنداں رہ جائے، ام معبد نے ایسا نقشہ کھینچا کہ جیسے سننے والا رسول اقدس صلی الله علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو، انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ ان جادواثر الفاظ میں بیان کیے:

”خوش شکل، خوب رُو، حسین وجمیل، جسمانی ساخت، جسے بڑی توندنے عیب دار نہ کیا تھا، نہ جسمانی ساخت کو سر کے گنجے پن نے حقیر بنایا، خوب صورت اور قد آور غزالی آنکھیں، دراز پلکیں، گرج دار آواز، صراحی دار گردن، انتہائی حسین، سرمگیں آنکھیں، باریک بھنویں، جو آپس میں ملی ہوئی تھیں، سر کے بال شدید سیاہ رنگ، چپ رہتے تو پر وقار ، بات کرتے تو پر رونق اور خوب صورت ، دور سے تمام لوگوں سے زیادہ خوب صورت دکھائی دیتے اور قریب سے سب لوگوں سے زیادہ حسین شکل اور شیریں زبان دکھائی دیتے، شیریں کلام، فیصلہ کن گفت گو ،نہ اتنی طویل کہ اکتادے اور نہ ہی اتنی مختصر کہ سمجھنے میں خلل انداز ہو ، بات کرتے تویوں دکھائی دیتا جیسے منھ سے موتی جھڑ رہے ہیں، درمیانہ قد، نہ اتنا لمبا کہ آنکھ کو برا لگے او رنہ اتنا پست کہ آنکھ کو حقیرلگے، دو ٹہنیوں میں درمیانی ٹہنی جو دیکھنے میں تینوں میں سب سے زیادہ سر سبز وشاداب اور خوب صورت دکھائی دے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایسے ساتھی گھیرے ہوئے تھے کہ جب بات کرتے تو کان لگا کر ان کی بات سنتے اورحکم کرتے تو فوراً حکم بجا لاتے، ایسے مقدوم کہ مجلس ہر وقت بھری رہتی، نہ ماتھے پر بل ڈالنے والے اور نہ حواس باختہ۔“
صلی الله علیہ وسلم۔
مدح رسول بزبان ام معبد
بولی عفیفہ مادر معبد کیا کہوں؟
حیران ہوں کہ اس کا سراپا بیاں کرو
اوصاف اس حبیب کے میں کس طرح گنوں؟
اس کے حسین وجود کو تشبیہ کس سے دوں؟
وہ پیکر جمیل، سراپا جمال ہے
میری زباں سے اس کی ستائش محال ہے
پاکیزہ رو، کشادہ جبیں، چشم سرمگیں
گردن بلند، پتلیاں روشن وقد حسیں
شیریں کلام، جادو بیاں، نطق انگبیں
پیوستہ ابرو، غالیہ مو، زلف عنبریں
دل بستگی لیے ہوئے، خاموش وپروقار
آواز پر جلال وہمہ تمکنت شعار
دیکھیں جو دور سے تو وہ زیبا دکھائی دے
بولیں تو کھینچا ہوا دل کو سنائی دے
گفتار موتیوں کی لڑی سی سجائی دے
مظلوم اس کے پاس پنہا کہ دہائی دے
اس کے رفیق سنتے تو ہیں بولتے نہیں
فرمان پر زبان کبھی کھولتے نہیں
(علیم ناصری)

ابو معبد نے سن کر کہا: بخدا! یہی وہ ہستی ہے جو قریش کو مطلوب ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ میں ابھی ان سے جاملوں، اگر ہو سکا تو میں یہی کچھ کروں گا، اہل مکہ کے کانوں میں یہ آواز آئی:
جزی الله رب الناس خیر جزائہ
رفیقین حلا خیمتی أم معبد
ھما نزلا بالبر وارتحلا بہ
وأفلح من أمسی رفیق محمد
(الاستیعاب:473/4)
(الله رب الناس ان دونوں رفقاء کو جزائے خیر عطا کرے جو ام معبد کے خیمے میں فروکش ہوئے تھے، دونوں نیک تمناؤں سے فروکش ہوئے اور نیک خواہشات سے ہی وہاں سے کوچ کر گئے ، یاد رہے کہ جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا ساتھی بنا، وہ کام یاب ہو گیا۔)

مناسب ہے کہ یہ بھی تذکرہ کر دیا جائے کہ ام معبد نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے اسی وقت اسلام قبول کر لیا تھا، جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابھی ان کے خیمے کے پاس تشریف فرما تھے، سفر پرروانہ ہونے سے پہلے انہوں نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔

بعض روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ام معبد نے ہجرت کی اور اسلام قبول کیا، اسی طرح ابو معبد نے ہجرت کی او راسلام قبول کیا، ام معبد سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف بہت لوگوں نے بیان کیے، لیکن آپ  نے جس اسلوب میں رسول اقدس صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف بیان کیے کوئی اور اس درجے کو نہ پہنچ سکا؟ تو ام معبد نے برجستہ یہ بات کہی کہ عورت کا مشاہدہ مرد کی نسبت سے کہیں تیز او رگہرا ہوتا ہے۔ حضرت علی  سے دریافت کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ توصیف رسول اقدس صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے ام معبد کے مقام کو کوئی نہ پہنچ سکا ؟حضرت علی نے ارشاد فرمایا: لأن النساء یصفن بأھوائھن فیُجِدن فی صفاتھن․“

ام معبدا ور ازواج مطہرات رضی الله عنہن
ازواج مطہرات ام معبدکی بڑی عزت کیا کرتی تھیں ، ان کے مرتبے ومقام کو خوب اچھی طرح جانتی تھیں، ام معبد ازواج مطہرات کے ساتھ ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں ، میں نے حضرت عمر بن خطاب کی خلافت کے آخری ایام میں عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف کو دیکھا کہ ازواج مطہرات حج کے لیے تشریف لے جارہی ہیں، حضرت عثمان  اپنی سواری پر ان کے آگے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف  اپنی سواری پر ان کے پیچھے ہیں، جب کوئی انسان آگے سے آتا دکھائی دیتا تو حضرت عثمان کہتے ایک طرف ہو جاؤ ، عبدالرحمن بن عوف بھی پیچھے کسی کو دیکھ کر یہی کہتے، جب ازواج مطہرات کہیں قیام کرتیں تو پردے کا اہتمام کیا جاتا، چاروں طرف درختوں کی اوٹ ہوتی ، جب میں نے انہیں دیکھا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، میں نے ان سے عرض کیا، مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم یاد آگئے، جب وہ اس جگہ فروکش ہوئے تھے، یہ سن کر سب رونے لگیں، انہوں نے مجھے بہت عزت دی، میری قدر کی او رہر ایک میرے ساتھحسن سلوک سے پیش آئیں او رمجھ سے کہا کہ جب امیر المؤمنین ہمیں گزارہ الاؤنس دیں گے تو ہمارے پاس ضرو رآنا، میں اس موقع پرگئی تو ہر ایک نے مجھے پچاس دینار دیے، اس وقت ان کی تعداد سات تھی ۔ (انساب الاشراف)

معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام معبد حضرت عمر کی خلافت کے آخری ایام تک زندہ رہیں، وفات کب ہوئی تاریخ خاموش دکھائی دیتی ہے، لیکن توصیف رسول صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے ان کا خوش بو دار کلام ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں ثبت ہو گیا، جب ہجرت اور اوصاف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تذکرہ ہوتا ہے تو ام معبد کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔

الله ام معبد سے راضی ہو او ران کا انجام اچھا ہو او رانہیں جنت نشیں کرے۔ (بہ شکریہ تعمیرحیات)

الفاروق میگزین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں