حج شریعت کی مکمل پیروی کی مشق ہے

حج شریعت کی مکمل پیروی کی مشق ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایام حج کے موقع پر اس اہم فرض کے بعض مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے حج کو شرعی احکام کی مکمل تابعداری و پیروی کی مشق قرار دیا۔

 

بارہ ستمبر دوہزار چودہ کے خطبہ جمعہ کا آغاز قرآن پاک کی آیت: «وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ» [حج:27]، (اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ او رپتلے دُبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں) سے کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: حج کے مہینے رمضان کے بعد شروع ہوتے ہیں؛ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ حج کے مہینے ہیں۔ پرانے زمانے میں سہولیات کی کمی تھی اور لوگ شوال ہی سے حج کے لیے احرام باندھتے تھے۔ بعض مسلمانوں کے لیے حج کا سفر ایک سال تک طویل بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن ہمارے دور میں سہولیات کی بہتات ہے اور لوگ چند گھنٹوں میں حرمین شریفین پہنچ پاتے ہیں۔ لیکن جو روحانیت اور اخلاص سو یا دوسو سال پہلے کے حج میں ہوا کرتی تھی ہمارے دور کے حج میں ناپید ہے؛ حج کے لیے جتنی سختی اور مشقت کم ہوتی ہے اتنی ہی اس کی روحانیت، لذت اور اخلاص میں کمی آتی ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: حج اللہ تعالی کا حکم اور انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ جب کوئی حج کے لیے حرمین شریفین پہنچ جاتاہے، اسے چاہیے اپنی نیت ٹھیک کرلے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضامندی کی خاطر حج کرے۔

مناسک حج کی حکمتوں پر نظر ڈالتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: فریضہ حج کا خلاصہ چند نکتوں میں آتاہے؛ سب سے پہلے یہ کہ شعائراللہ کا احترام و تعظیم ضروری ہے۔ قرآن پاک میں سورت الحج کی آیت بتیس میں ارشاد ہے: «وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ» [حج:32]، (یہ بات بھی ہو چکی اور (قربانی کے جانورکے متعلق اور سن لو کہ) جو شخص دین خداوندی کے ان (مذکورہ) یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو ان کا یہ لحاظ رکھنا خدا تعالیٰ سے دل کے ساتھ ڈرنے سے ہوتا ہے۔)۔ صفا ومروہ اور حج کے دیگر مقامات جیسا کہ ارض حرم، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ’اللہ کی نشانیوں‘ اور شعائراللہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان سب کا احترام ضروری ہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: حج سے دوسرا سبق جو حاصل ہوتاہے وہ یہ ہے کہ حج دراصل ایک عملی مشق ہے؛ حج کے ذریعے بندہ مشق کرتاہے کس طرح ہمیشہ اللہ کی اطاعت کرے اور اتباع شریعت میں چوں وچرا اور تعلل نہ کرے۔ ایک حاجی ہمیشہ اللہ کے احکام کی اتباع کے لیے تیار رہتاہے، اسے ہرحال میں اللہ کی پیروی کرنی ہوگی۔ صحرائے مکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اہل خانہ کو اکیلا چھوڑدیا جہاں زندہ رہنے کی کوئی سہولت نہ تھی، اپنے بیٹے کو قربانی کرنے کے حکم کیلیے بھی چلے گئے، خانہ کعبہ کی تعمیر بھی کرائی؛ یہ سب اطاعت وفرمانبرداری کی بہترین مثالیں ہیں۔

مناسک حج کی ادائیگی کی کیفیت کو ’میدان محشر‘ اور صحرائے قیامت سے تشبیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: حج میدان محشر کی ایک مثال اور تصویر ہے؛ سب ننگے سر اور لباس احرام میں پیدل ہوتے ہیں اور میدان عرفات میں رازونیاز کرتے ہیں۔

خطیب اہل سنت نے اپنے بیان کے اس حصے کے آخر میں حج کو ’اللہ تعالی سے تجدیدعہد‘ قرار دیتے ہوئے کہا: لوگ حج پر جاتے ہیں اور وہاں اللہ تعالی سے دوبارہ عہد ومیثاق باندھتے ہیں۔ اپنے ماضی کے گناہوں پر معافی مانگ کر توبہ اور پچھتاوے کا اظہار کرتے ہیں۔ وہاں جاکر لوگ عزم نو سے واپس آتے ہیں کہ دوبارہ شریعت پر سختی سے عمل کریں گے۔ حج تمام مختلف ممالک سے مسلمانوں کو اکٹھا کرکے انہیں موقع فراہم کرتاہے ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہیں۔ حج میں مسلمانوں کے لیے بہت سارے سیاسی ومعاشرتی مفادات موجود ہیں۔

 

لڑائی اور تشدد سے پائیدار امن کا حصول ناممکن ہے

اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں خطیب اہل سنت زاہدان نے عالم اسلام کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مغرب کی توسیع پسندانہ اور جنگ پسندی پر مبنی پالیسیوں کی تنقید کرتے ہوئے منطق، مذاکرات اور منصفانہ صلح کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیا۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: عالم اسلام اس وقت فرقہ واریت، اندرونی اختلافات اور تشتت سے نالاں ہے۔ لڑائی اور قتل و غارتگری نے مسلمانوں کے لیے زندگی اجیرن کردی ہے؛ افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ دشمن بڑی چالاکی سے مسلمانوں کی اس حالتِ زار کا فائدہ اٹھا رہاہے۔

امریکی صدر باراک اوباما کے حالیہ بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح تم نے دعوی کیاہے، تم جہاں چاہو اپنے دشمنوں پر حملہ کرسکتے ہو، اللہ تعالی نے تمہیں یہ قوت عطا کی ہے؛ لیکن یاد رکھو فوجی یلغار اور لوگوں کے قتل سے تمہارے دشمن ختم نہیں ہوں گے الٹا زیادہ ہوجائیں گے۔ اگر تم سو بندے ماروگے تو لاکھ دشمن اپنی قوم کے لیے بناو ¿گے۔

انہوں نے مزیدکہا: اگر تمہاری رائے میں قتل وخونریزی اور مارنے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو تمہارے اور ان شدت پسندوںکے درمیان کیا فرق رہ جائے گا جن کے خلاف تم تلوار اٹھارہے ہو؟ تمہارا دعوی ہے کہ تم مہذب اور عقل مند ہو، تہذیب یافتہ اورسمجھدار لوگ تدبیر اور عقل سے کام لے کر مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ قتل کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سمجھدار لوگ خطروں کو مکالمہ اور تدبیر جیسے صحیح رستوں سے ختم کردیتے ہیں اور دشمن کو دوست بناتے ہیں یا کم سے کم ان کی دشمنی کی حد گرادیتے ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے مغربی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم دہشت گردی سے مقابلے کا دعوی کرتے ہو، سوال یہ ہے اب تک کتنی کامیابی تمہیں نصیب ہوئی ہے؟ اگر تم نے ایک ’دہشت گرد‘ ماراہے تو مزید دس افراد تمہارے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی چاہے کسی گروہ کی طرف ہو یا حکومت کی جس طرح اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی، ہم اس کے خلاف ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: پوری دنیا دیکھ رہی ہے صہیونی ریاست کس طرح نہتے فلسطینیوں کا خون بہارہی ہے، گھروں اور مساجد کو مسمار کررہی ہے اور روز اپنی قبضہ گیری کا سلسلہ بڑھادیتی ہے، ایسے میں مغربی ممالک کی اسرائیل سے حمایت اور تعاون انہی ممالک کے مفادات کے خلاف ہے؛ لوگ ان سے اسی لیے نفرت کرتے ہیں۔ اسرائیل کی پشت پناہی اور ’ہرممکن تعاون‘ ظالمانہ اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہے۔

بعض مسلم ممالک پر مغربی فوجوں کے حملوں کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا نے کہا: مسلم ممالک پر فوج کشی کے نتیجے میں ہزاروں افراد قتل ہوچکے ہیں؛ تمہاری یلغار کی وجہ سے عراق و افغانستان تباہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ عوام کو بربادی اور ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیاہے۔ ان کے مسائل پہلے سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ مسلم ممالک کے مسائل کا حل بمباری اور میزائلوں کی بارش میں نہیں ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: عالم اسلام کی مشکلات ومسائل کا حل تدبیر، مکالمہ و مذاکرات میں ہے۔ قوموں اور مختلف برادریوں کے حقوق کا خیال رکھ کر مسائل کا حل نکالنا ممکن ہے۔مجھے یقین ہے لڑائی اور عسکری حملوں سے مسائل نہ صرف حل ہوں گے بلکہ مزید گھمبیر ہوجائیں گے۔ جس راہ پر مغربی ریاستیں چل پڑی ہیں، اس کا انجام برا ہوگا۔ انہیں مشرق وسطی کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ جنگ وتشدد سے پائیدار امن کا حصول ناممکن ہے۔

 

(ایرانی) حکام فرقہ وارانہ اور لسانی حرکتوں سے اجتناب کریں

ایران خاص کر صوبہ سیستان بلوچستان میں بعض حکام کی فرقہ وارانہ حرکتوں اور اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: صوبے میں سرگرم عمل تمام حکام سے میری سفارش یہی ہے کہ لسانی وفرقہ وارانہ اقدامات اور رویوں سے پرہیز کریں۔ حکام کی نگاہیں وسیع اور قومی ہونی چاہییں۔ اگر کوئی شیعہ وسنی یا بلوچ، فارسی، عرب، کرد و دیگر قومیتوں میں فرق کرے تو یہ ہرگز ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس طرح کی پالیسیاں اور حرکتیں کسی بھی گروہ کے مفاد میںنہیں ہیں اور قانون کے بھی مخالف ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: اگر بعض ممالک میں بدامنی پائی جاتی ہے تو اس کی وجہ دوسروں کے حقوق کی پامالی ہے؛ بہت سارے ممالک اسی وجہ سے تقسیم کے خطرے سے دوچار ہوچکے ہیں۔ ایران کسی مخصوص فرقہ یا قومیت کا ملک نہیںہے؛ یہ سب کا ہے۔ موجودہ حکومت کی نگاہ قومی اور پالیسیوں کی اساس امتیازی سلوک سے پرہیز پر مبنی ہیں، لہذا وزراءاور ان سے چھوٹے درجے تک تمام حکام کو چاہیے حکومت کی پالیسیوں پر گامزن ہوکر کام کریں۔ اسی صورت میں ہم صف واحد میں کھڑے ہوکر اپنے دشمنوںکا مقابلہ کرسکیں گے۔

 

زاہدان خاش ہائے وے پر بے گناہوں پر فائرکھولنا پریشان کن اور اشتعال انگیزی اقدام ہے

ایرانی اہل سنت کے ممتاز دینی وسماجی رہ نما مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں گزشتہ ہفتے میں زاہدان خاش ہائے وے پر پولیس کی جانب سے بعض شہریوں پر فائر کھولنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: زاہدان خاش کی بین الاقوامی سڑک پر فائرنگ کے دو واقعات میں کچھ لوگ جاں بحق اور بعض دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔ ان پریشان کن واقعات سے ہمیں سخت صدمہ ہوا۔ پولیس کی ذمہ داری امن اور سکون کی حفاظت ہے؛ انہیں اس طرح عمل کرنا چاہیے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خوشی محسوس کریں اور انہیں کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ اگر پولیس عام شہریوں پر فائر کھول دے تو یہ پریشان کن اور اشتعال انگیز بات ہوگی۔

مہتمم دارالعلوم زاہدا ن نے مزیدکہا: دیگر طبقوں کی طرح پولیس میں بھی برے لوگ ہوسکتے ہیں جو اس ادارے میں گھس کر ان کی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے لوگوںکو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے جو معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ جن اداروں کے ذمہ میں امن قائم کرنا ہے، انہیں مزیدچوکس رہنا چاہیے اور ایسی حرکتوں سے باز آنا چاہیے جن سے کسی دشمن کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتاہو۔ مناسب ہوگا کہ میں گورنر اور پولیس کے صوبائی سربراہ کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے ان واقعات کے فورا بعد ملزم اہلکاروں کو گرفتار کیا۔

یاد رہے ان واقعات میں تین بلوچ نوجوان جاں بحق جبکہ ایک خاتون زخمی ہوچکی ہے۔ دوسرے واقعے میں ایک گاڑی الٹ کر آگ میں جل چکی ہے جس میں دو نوجوان سوار تھے۔ پولیس اہلکاروں نے دن دیہاڑے ڈرائیوروں اور دیگر پسنجرز پر براہ راست فائرنگ کی ہے۔

 

زاہدان کے داخلی رستوں کی بندش بلاوجہ ہے

مولانا عبدالحمید نے زاہدان شہر کے داخلی رستوں پر ناکہ بندی اور سنی شہریوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کی ایک بار پھر مذمت کی۔ انہوں نے کہا: زاہدان ایران کے سب سے بڑے صوبے کا صدرمقام اور ملک کے اہم شہروں میںایک ہے۔ اس کی چوکیوں میں آنے والے شہریوں سے ایسا برتاو ¿نہیں کرنا چاہیے جس سے ہماری شرمندگی ہو۔ ہمارے لوگ مہمان نوازی پر مشہور ہیں، لہذا ہمارے مہمانوں کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا: زاہدان ایک پرامن شہر ہے، ماضی میں بعض واقعات پیش آچکے ہیں لیکن اب شہر پرامن ہے۔ لہذا حکام اس موضوع پر توجہ دیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ تصور کریں انہیں مسلکی بنیادوں پر تنگ کیا جاتاہے۔ ہمارے لوگ ہوسکتاہے برداشت کریں لیکن دشمنوں کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم ہوگا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں