نواب صدیق حسن خان قنوجی کے سوانح حیات پر ایک نظر

نواب صدیق حسن خان قنوجی کے سوانح حیات پر ایک نظر

محترم علامۃ الزمان، ترجمان حدیث و قرآن، علوم عربیہ کو زندہ کرنے والے، سارے ہند کے چاند، سید شریف صدیق حسن بن اولاد حسن بن اولاد علی حسینی، بخاری قنوجی، مشہور صفتوں کے مالک اور بہت زیادہ تالیفات والے تھے۔

 

سنہ ۱۲۴۸ھ ۱۹؍جمادی الاولیٰ اتوار کے دن شہر بانس بریلی میں اپنے نانا مفتی محمد عوض عثمانی بریلوی کے گھر پیدا ہوئے، پھر اپنی والدہ کے ہمراہ بریلی سے قنوج اپنے آبائی وطن تشریف لائے، جب آپ کی عمر چھ سال ہوئی تو آپ کے والد کا انتقال ہوگیا اس لئے یتیم اور فقیر ہوکر اپنی والدہ کی پرورش میں آگئے۔

تعلیم و تربیت
قرآن پاک اور فارسی زبان کے ابتدائی اور مختصر کتابیں علم صرف و نحو، بلاغت اور منطق اپنے بھائی احمد حسن بن اولاد حسن سے پڑھیں، اور چند مہینے فرخ آباد اور شہر کانپور میں اقامت کی، وہاں کے اساتذہ کرام سے علوم نحو، منطق، فقہ اور حدیث غیر مرتب ادھر ادھر سے پڑھیں اور علماء و شیوخ سے ملاقات کی۔ سید امام احمد بن عرفان شہید کے کچھ خلفاء اور ان کے ماننے والوں سے بھی ملاقات کی اور وہ لوگ آپ پر مہربانی کرتے تھے، کیونکہ آپ کے والد سید شہید کے ساتھیوں میں سے تھے۔

سنہ ۱۲۶۹ھ میں دہلی شہر تشریف لے گئے۔ مفتی صدرالدین خان نے جو صدرالصدور اور پورے دہلی میں سارے اساتذہ کرام کے صدر تھے آپ کی طرف خصوصی توجہ فرمائی، آپ کو اس گھر میں جگہ دی جو محترم فاضل نواب مصطفیٰ خان کا تھا، یہ گھر تمام علماء اور شعراء، فضلاء اور مشہور و محترم لوگوں کے لئے عام تھا خواہ وہ کسی حلقہ اور طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ان تمام لوگوں سے فائدہ اٹھایا اور سارے علوم و آداب و حسن محاضرۃ کو حاصل کیا۔ پھر مفتی صدرالدین صاحب سے ذمہ داری سے ساری درسی اور ضروری کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں۔
چنانچہ مختصر المعانی، شرح الوقایہ، ہدایہ الفقہ، توضیح و تلویح، سْلم العلوم اور اس کی شرحیں میبذی، صدر الشمس بازغۃ، میر زاہد اور اس کے حواشی، شرح مواقف، جامع صحیح بخاری کے چار پارے، قرآء ۃً اور باقی پارے سماعاً، تفسیر بیضاوی کی سورۃ بقرۃ، تحریر اقلیدس، عقائد نسفی، دیوان متنبی، مقامات حریری کے علاوہ دوسری مقررہ اور عام کتابیں پڑھیں جو کہ پڑھی جاتی ہیں۔

طلب رزق و تعلیم کے لئے سفر
اپنی عمر کے اکیسویں سال میں سند فراغت حاصل کی اور مفتی صدرالدین صاحب نے اپنی خاص اجازت اور علم حاصل کرنے کی خاص شہادت لکھ کر دی۔
پھر طلب رزق کے لیے آپ نے سفر کیا اور قدرت نے آپ کو ریاست بھوپال میں ٹہرایا چنانچہ وہاں کے وزیر جمال الدین صدیقی دہلوی نے اپنے نواسوں اور پوتوں کی تعلیم کے لئے مقرر کرلیا، مگر آپ نے تھوڑی سی فرصت میں کتب حدیث کے منتخب ابواب مثلاً: صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی اور دراری مضیۂ جو علامہ شوکانی کی شرح درۃ البھیہ ہے، یہ ساری کتب قاضی زین العابدین بن محسن انصاری یمانی سے جو ریاست بھوپال میں ٹہرے ہوئے اور وہاں کے قاضی تھے ان سے پڑھیں، آپ کو آپ کے بڑے صنو، شیخ حسین بن محسن سبعی انصاری یمانی اور شیخ معمر عبدالحق بن فضل اللہ عثمانی نیوتنی سے اجازت حاصل ہوئی۔
آپ بھوپال ہی میں تھے اور آپ کے معاملات کچھ اس طرح کے تھے کہ آپ کو انہیں وزیر نے اس شہر سے نکال دیا اور دور کردیا، چنانچہ آپ ریاست ٹونک چلے آئے، سید زین العابدین بن سید احمد علی الشہید نصیر آبادی جو شہید سید احمد مجاہد غازی کی بہن کے بیٹے تھے، کے گھر سفر کی گٹھری کھول دی۔ اس لئے انہوں نے وزیر الدولہ سے سفارش کی جو اس علاقہ کے امیر تھے۔
چنانچہ انہوں نے آپ کے لئے ماہوار اسی روپے مقرر کردیئے۔ اس طرح ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اللہ تعالی نے اسی وزیر کے دل میں نرمی اور مہربانی ڈال دی اور دوبارہ اپنے پاس بلالینے ہی میں مصلحت سمجھی، چنانچہ آپ ۱۲۷۶ھ میں ریاست بھوپال تشریف لے گئے اور لڑائیوں اور واقعات کے لکھنے کا آپ کو ذمہ دار مقرر کردیا، اور وزیر نے اپنی اسی بیٹی سے جس کے بیٹے آپ سے پڑھتے تھے کا نکاح کردیا۔
سنہ ۱۲۸۵ھ میں آپ نے حج کی نیت سے سفر کیا تو آپ اسی سال ماہ رمضان کی ۲۷؍تاریخ کو حدیدہ میں داخل ہوئے اور تیرہویں ذی القعدہ میں مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور مناسک حج سے فارغ ہوئے اور بقیہ وقت حدیدہ اور مکہ معظمہ میں فن حدیث کی نادر و نایاب کتابوں کے لکھنے پر معتکف جیسے رہنے لگے، اور منیٰ میں بھی اسی کتاب کے نقل کرنے میں مشغول رہے۔ اپنے خاص قلم سے بعض موٹی کتابوں کو بھی لکھا اور حدیث کی کچھ کتابوں کو جمع کیا اور سنت کی کچھ کتابیں یمن کے محدثین سے پڑھیں اور حدیث میں ان سے اجازت حاصل کی۔ شیخ یعقوب بن محمدافضل عمری مہاجر جو شیخ عبدالعزیز بن ولی اللہ دہلوی کے نواسے تھے ان سے خصوصی اجازت حاصل کی۔
پھر ریاست بھوپال تشریف لے آئے۔ سنہ ۱۲۸۶ھ میں نظارۃ المعارف کے عہدہ پر ذمہ دار ہوگئے۔ پھر نظارہ دیوان انشاء کے عہدہ پر سنہ ۱۲۸۷ھ کے ماہ شعبان کے شروع دنوں میں مقرر ہوئے، اور آپ کو خلعت دی اور خان بہادر کا لقب دیا۔

ملکہ بھوپال سے شادی
حکم عہدہ کے منصب کے لحاظ سے نواب شاہجہاں بیگم جو ریاست بھوپال کی ملکہ تھی آمد و رفت کیا کرتے تھے اور آپ ان ملکہ کے سامنے با ادب رہا کرتے تھے۔ اچانک اللہ تعالی نے ملکہ کے دل میں آپ کی محبت ڈال دی اس لئے اپنے آپ سے ان کو قریب تر کرلیا۔ اتفاق سے وہ شوہر کے بغیر تھیں، کیونکہ ان کے شوہر نواب باقی محمد خان چند برس پیشتر انتقال کرچکے تھے۔ اس وقت انگریزی حکومت نے آپ سے یہ اصرار کیا کہ ان سے شادی کرلیں تا کہ شوہر کی حیثیت سے آپ کے پاس رہیں اور حکومت اور ادارے کے کاموں میں آپ کی مدد کریں، پس ملکہ نے آپ کے نسب کی شرافت اور اخلاق کے درست ہونے کی پوری طرح معلومات کرلی اور شادی کرلی۔
سنہ ۱۲۸۷ھ میں معتمد المھام کا عہدہ دیا ور بہت ساری خراجی زمینیں آپ کو دیں جس کی قیمت پچاس ہزار روپے سے زائد سالانہ آپ کو ملتے تھے، اور حکومت برطانیہ نے جو ہندوستان پر حاکم تھے آپ کو قیمتی خلعت پہنائے اور لقب دیا۔
سنہ ۱۲۸۹ھ کے شعبان کے مہینہ کے بعد سے دس سال کے لیے نواب والا جاہ امیرالملک سیدمحمد صدیق حسن خان بہادر اور سارے ہندوستان کی لانبائی اور چوڑائی کے تمام علاقوں میں آپ کی تعظیم کرائی، اور یہ اعلان ستری توپیں چلا کرکیا اور بہت ہی قیمتی کپڑوں کا جوڑا دیا اور سلطان عبدالحمیدخان نے سنہ ۱۲۹۵ میں دوسرے درجہ کے مجیدی تمغے دیئے۔

حکومتی عہدوں سے معزولی
آپ انتہائی خوش اسلوبی اور اچھی حالت میں علم، مطالعہ کتب، تالیف اور تصنیف کتب میں مشغول رہتے، علم وعمل دونوں کی ریاست کو جمع کرتے کہ اچانک چغل خوروں نے چغلیاں کھائیں اتنی زیادہ اور اس طرح کہ آپ کا دل لرز گیا اور حال مشغول ہوگیا اور آپ پر برے حالات طاری ہوگئے اور انگریزی حکومت کے وکیل نے کینہ رکھتے ہوئے ہندوستانی حاکموں کے پاس شکایت کی اور آپ پر یہ الزام لگایا کہ آپ اپنی کچھ تصنیفات میں لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرتے ہیں اور آپ اپنی جان و دل کی کوششوں وھابی مذہب کے پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ وہ مذہب ہے کہ آپ کے ساتھیوں نے انگریز حکومت نے انگریزوں کی غداری پر آمادہ کردیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ جہاد پر تمام لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں اور یہ بھی الزام لگایا کہ آپ ہی نے شاہجہاں بیگم ملکہ بھوپال کو شرعی پردہ کرنے پر مجبور کردیا ہے تا کہ یہ ملکہ حکومت کے کاموں پر زیادہ جبر نہ کرسکیں، اور اپنے ہاتھ کو ان تمام معاملات پر دراز کرسکیں۔
ان کے علاوہ اور بھی دوسرے بہت سے الزمات لگائے، اس بناء پر انگریز حکومت نے از خود آپ کو جو عزت اور شرافت کے القاب دیئے تھے اور توپ داغ کر جو عزت افزائی کی تھی ان سب کو باطل قرار دیا، یہ واقعہ ۱۴؍ذی القعدہ سنہ ۱۳۰۲ھ میں پیش آیا اور دوسرے سال حکومتی معاملات کے نظم و نسق میں دخل دینے سے بالکل منع کردیا اور تمام لوگوں نے آپ سے اپنا منہ موڑلیا جس سے تمام دشمن خوش ہوگئے اور آپ انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کرتے گئے۔ لیکن آپ کی بیگم جو تمام علاقوں کی امیر تھی اخلاص محبت وفاداری اور اتحاد کے ساتھ باقی رہیں اور ان تمام الزامات کی اپنے طور پر مدافعت کرتی اور ان تمام الزامات کو دور کرتی رہیں۔

مرض استسقاء
جب یہ واقعات پیش آئے اسی وقت استسقاء کی بیماری بھی لگ گئی اس طرح کی آخر اسی حالت میں آپ اللہ کو پیارے ہوگئے اور اللہ کا فیصلہ جاری ہوگیا، اور اب حکومت نے امارۃ کے لقب نواب کو سنہ ۱۳۰۷ھ میں لوٹا دیا جبکہ آپ دنیا کو چھوڑ کر رفیق اعلی سے ملاقات کرچکے تھے، جبکہ آپ کا مرض بڑھ چکا تھا اور علاج نے تھکا دیاتھا۔ بھول جانے اور بیہوشی کی حالت طاری ہوچکی تھی، لیکن آپ کی انگلیاں کچھ اس طرح کی حرکت کرتی دکھائی دیتی تھی کہ گویا آپ کچھ لکھ رہے ہیں۔

اُحِبُ لقاءَ اللہ
سنہ ۱۳۰۷ھ کا ماہ جمادی الاخریٰ ختم ہونے پر آیا اور آپ کا ذرہ افاقہ ہوا تو اپنے ساتھی شیخ ذوالفقار احمد مالوی سے مقالات الاحسان کے متعلق سوال کیا (کیونکہ یہی آپ کی آخری کتاب تھی جو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب فتوح الغیب کا ترجمہ ہے) کہ کیا یہ کتاب کسی کارخانہ سے چھپی ہے؟ تو کہا کہ وہ تو بازار میں آنے والی ہے اور شاید کہ آج کل کسی بھی دن یا رات کو بازار میں آجائے گی۔ تو اس بات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور کہا یہ تو مہینہ کا آخری دن ہے اور وہ ہماری تالیفات کی آخری کتاب ہے۔ اس کے بعد جب آدھی رات گذر گئی تو آپ کی زبان سے قدرتی طور پر یہ کلمہ جاری ہوگیا: ’’اُحب لقاء اللہ‘‘، میں اللہ کی ملاقات پسند کرتا ہوں، یہ جملہ ایک دو مرتبہ ادا کئے، پھر پانی مانگا، اور پھر مرض آپ پر غالب آگیا، اور آپ کی آنکھ سے آنسو بہہ پڑے، یہ واقعہ ۲۹؍جمادی الاخریٰ سنہ ۱۳۰۷ھ کو پیش آیا جبکہ آپ کی عمر کے ۵۹ سال تین ماہ چھ دن ہوئے، آپ کے جنازہ میں بے شمارہ لوگ تھے اور تین بار آپ کے جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔

وصیت
اس وقت انگریزی حکومت کی طرف سے یہ حکم اور اعلان جاری ہوچکا تھا کہ آپ کے جنازہ کو امراء اور ارکان دولت کے مطابق شان و شوکت کے ساتھ لے جایا جائے۔ جیسے کہ آپ کے پرانے بادشاہی القاب اور حکومت علامات باقی رہتے ہوئے کئے جاتے، لیکن آپ نے یہ وصیت کردی تھی کہ آپ کے جنازہ کو اہل سنت کے طریقہ پر دفن کیا جائے چنانچہ اس موقع پر آپ کی وصیت پوری کی گئی۔

علمی خدمات
آپ تمام تر حکومتی مشغولیتوں میں رہنے کے ساتھ مطالعہ کتب، قرآن پاک کی کتابت اور بے شمار و بے حد و حساب کتابوں کے جمع کرنے میں بہت مصروف تھے، آپ کی تصنیفیں اور مشہور تالیفیں جو تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ اور ادب میں ہیں ایسا اتفاق بہت ہی کم علماء کے حصہ میں آیا ہے۔
آپ بہترین کتابت اور جلد لکھنے کے عادی تھے، آپ ایک ہی مجلس میں دو اجزاء باریکوں حرفوں میں بڑے صفحوں پر لکھ لیتے۔ لیکن آپ کی تالیفات ان چند چیزوں سے خالی نہیں ہوتیں، یا کتابوں کا اختصار یا تجرید یا ایک زبان سے دوسری زبان میں نقل کرنا، قاضی شوکانی ابن قیم، شیخ ابن تیمیہ حرانی اور ان جیسوں سے بھی زیادہ تیز نقل کرنے والے تھے، ان کے پسندیدہ مسائل کو سختی سے پکڑتے رہتے۔ آپ کو ائمہ فقہ اور تصوف سے سخت بدگمانی تھی بالخصوص امام ابوحنیفہؒ سے، اور سخت تعجب کی یہ بات ہے کہ اس کے باوجود احناف ہی کے طریقہ پر نماز ادا کرتے تھے چنانچہ آپ تکبیر تحریمہ کے سوا جیسا کہ دوسرے ائمہ کرتے ہیں رفع یدین نہیں کرتے تھے، اور آمین کو بھی فاتحہ کے بعد جہر کے ساتھ ادا نہیں کرتے، اپنے ہاتھ کو اپنے سینے پر نہیں باندھتے، ہاں ایک ہی رکعت کا وتر کرتے، اور تراویح میں آٹھ رکعتیں پڑھتے۔

رہن سہن اور وضع قطع
آپ انتہائی درجہ میں ذہن کے صاف، سمجھ کے تیز، میٹھی تقریر، اچھی تحریر، شرافت طبع، اخلاق کے عمدہ، خوش نظر اور خبر پانے کے کامل تھے، آپ اتنے زیادہ باحیاء اور تواضع والے تھے کہ دوسرا کوئی بھی ان باتوں میں آپ کے برابر نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ باتیں اسی شخص میں پائی جاسکتی ہیں جو آپ کے ساتھ اٹھا بیٹھا ہو، کیونکہ آپ تو خود کو بالکل عام آدمیوں کے برابر سمجھتے اور رکھتے، یہ تو وہ خصوصیتیں ہیں جو اللہ تعالی نے صرف آپ ہی میں رکھی تھیں، اور ان ہی باتوں سے آپ کی عزت فرمائی تھی، کیونکہ بڑی شرافت کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آنا زیادہ پسندیدہ بات ہے تکبر کے ساتھ عزت افزائی سے۔ پھر آپ کے اندر حسن اخلاق کا حصہ پورا پورا بڑھا ہواتھا، بہت ہی کم انسان ایسے ملتے ہیں جو آپ کے برابر حسن خلق رکھتے ہوں جبکہ چھوٹے انسان بھی آپ کے ساتھ آپ کی خدمت میں لگے رہے ہوں اور اللہ سبحانہ و تعالی نے جو سب سے بڑی خصوصیت آپ کے اندر رکھی تھی وہ علماء ربانیین کی محبت، اور بڑے عمدہ اوصاف کی طرف آپ کا میلان تھا اسی بناء پر ان باتوں کی اطلاع اور ان کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا۔

استغفار پر التزام
آپ کو شیخ فضل الرحمن بن اہل اللہ بکری مراد آبادی سے بہت زیادہ لگاؤ تھا اور محبت تھی خیریت کے ساتھ ہی آپ کو ہمیشہ یاد فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ وہ علماء ربانیین میں سے ایک ہیں۔ اس زمانہ میں آپ کے برابر کوئی بھی نہیں تھا جو کہ زاہد بھی ہو اور لوگوں سے مستغنی بھی ہو، اسی لئے آپ کو بھوپال بھیجا گیا تا کہ آپ ان کی بیعت کرسکیں لیکن شیخ نے وہاں داخل ہونے سے ہی انکار کردیا اور آپ کے پاس اپنا عمامہ بھیج دیا اور آپ کے لیے برکت اور حسن خاتمہ کی دعا فرمائی اور یہ وصیت فرمائی کہ ہمیشہ ہی استغفار فرماتے رہیں، چنانچہ آپ نے ایک تسبیح لی اور استغفار کو ہمیشہ کے لیے اپنے اوپر لازم کرلیا یہاں تک کہ ساری رات اور سارا دن اسی میں مشغول رہتے۔
ایک مرتبہ آپ کے لڑکے ہمارے فی سبیل اللہ بھائی نورالحسن عفاللہ عنہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ پہلی مرتبہ جب میں نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تو مجھے زیادہ تعجب ہوا اور میرے سوال پر آپ نے فرمایا کہ جب سے میرے شیخ نے مجھے فرمایا ہے میں نے خود پر استغفار لازم کرلیا ہے، شیخ کے پاس انفاس سے یہ بڑی کرامت ظاہر ہوئی کہ استغفار کی روشنیاں آپ پر ظاہر ہوئیں اور آہستہ آہستہ وہ بڑھتی رہیں یہاں تک کہ میں نے کہا یہ آپ کی برائیاں ہیں جو آپ کی آخری عمر میں ہیں اور آپ کے چمکدار حالات ہیں جو آپ پر غالب آرہے ہیں اور پھر یہی ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ آپ کو پہلے آئمہ فقہ اور فن تصوف سے جو بدگمانی تھی اس سے اللہ تعالی نے توبہ کی توفیق فرمادی۔
اور آپ نے اپنی آخری عمر میں مقالات احسان اور مقامات عرفان میں ایک کتاب لکھ ڈالی جو حقیقت میں شیخ امام عبدالقادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب کا ترجمہ ہے اور یہ کتاب آپ کی آخری تصنیف ہے پھر آپ نے اسے پریس میں بھیج دیا چنانچہ وہ چھپ کر بازار میں آگئی اور جس رات اللہ تعالی نے آپ کو وفات دی اسی رات شروع میں آپ کے پاس پہنچ چکی تھی، ان تمام باتوں باتوں کے متعلق مجھے آپ کے ساتھی سید ذوالفقار احمد حسینی مالوی نے اطلاع دی۔

ادائیگی فرائض اور معمولات
آپ تمام نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے عادی تھے اور وقت کے پہلے ہی حصہ میں نمازوں کو ادا فرماتے، اسی طرح ہر سال زکوۃ بھی ادا کیا کرتے تھے، بسا اوقات آپ کے مالوں کی زکاۃ ہزاروں روپے کی مقدار کو پہنچ جاتی تھی۔ بہت زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ درود بھیجتے رہتے تھے۔ اسی طرح ماثورہ دعائیں بھی ان کے اوقات میں ادا کرتے رہتے۔ اپنے مالوں کے بارے میں آپ بہت پرہیزگار تھے، جس مال کا لینا آپ کے لئے حلال نہیں ہوتا یا جس کے بارے میں بھی آپ کو شک ہوتا اسے قبول نہیں فرماتے۔
آپ کے چہرہ ہر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی، میٹھی گفتگو فرماتے، کم گفتگو کرنے والے، آپ ظالم نہ تھے اور نہ ہی منہ بگاڑ کر رکھتے تھے۔ بہت زیادہ بردبار اور کم غصہ والے تھے، پاک زبان تھے اور اپنی ذات کے لئے آپ کسی چیز کی فرمائش نہیں کرتے۔ ہمیشہ کتابوں کے مطالعہ اور تالیف کی فکر میں مشغول رہتے یہاں تک کہ آپ بعض اوقات مختلف کھانوں کے درمیان فرق نہیں کرپاتے، ان کے اپنے زمانہ کے لئے انصاف کو پسند کرتے اور بسا اوقات وہ جو آپ کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی فضیلت پہانتے۔

علم کا آفتاب
آپ کے صاحبزادے سید علی حسن خان فرماتے تھے کہ جب آپ کو علامہ عبدالحی بن عبدالحلیم لکھنوی کی وفات کی خبر معلوم ہوئی (اس وقت آپ حضرات کے درمیان مناظرات اور مباحثات علمی جاری تھی اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے خلاف کتابیں اور رسالے لکھ رہتے تھے) اس وقت آپ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور تھوڑی دیر کے لئے اپنا سر جھکا دیا پھر اپنا سر اٹھایا، آپ کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں، اور آپ شیخ عبدالحی صاحب کے لئے دعاء خیر فرماتے تھے اور رحم کی دعائیں کرتے۔ پھر آپ نے فرمایا آج علم کا آفتاب ڈوب گیا ہے اور فرمایا کہ ہمارے درمیان جو کچھ اختلافات تھے وہ صرف بعض مسائل کی تحقیق کے سلسلہ میں تھے۔ پھر آپ نے غائبانہ نماز جنازہ کے لئے اعلان کر فرمایا۔
آپ اہل علم کی تعظیم کرنے والے اور نادر و نایاب کتابوں کی طرف بہت توجہ فرماتے، اور موجودہ کتابوں اور اسلاف کی کتابوں کی اشاعت کا بہت زیادہ خیال رکھتے۔ ان ضرورتوں کے لئے آپ نے بے شمار دولت خرچ کی، چنانچہ تفسیر ابن کثیر کے ساتھ فتح البیان، ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری کی طباعت کا حکم دیا اور اس کے نسخہ کو الحدیدہ سے خریدا جو ابن علان کے قلم کا تھا، اور اسی کی طباعت بولان کے مطبع مصر میں کی تھی۔ اس کے طباعت کے لئے آپ نے پچاس ہزار روپے عطا کئے پھر اہل علم اور فن حدیث سے تعلق رکھنے والوں کو جو ہندوستان میں ہوں یا اس سے بھی باہر، ہدیہ کے طور پر دینے کا حکم فرمایا تھا۔ جب آپ حج سے واپس تشریف لارہے تھے ایسے زمانہ میں کہ سمندر اپنی طغیانی پر اور جہاز بہت زیادہ حرکت میں ادھر ادھر ہورہا تھا، سنن دارمی کو نقل کروا کر لارہے تھے۔

معمولات یومیہ
آپ فجر سے قبل نیند سے بیدار ہوتے پھر نمازیں پڑھتے۔ جب آپ نمازوں سے فارغ ہوتے تو تلاوت قرآن پاک میں مشغول ہوجاتے اور دعائیں، اذکار، جزریؒ کی حصن حصین کے کچھ حصے تلاوت فرماتے یہاں تک کہ جب آفتاب بلند ہوجا تا تو شہری حکومت کی خبریں سنتے اور اپنے ادارہ کے طلبہ کی باتیں تھوڑی دیر کے لئے سنتے۔ پھر تالیف اور مطالعہ کتب میں ایک سیکنڈ بھی ضائع کئے بغیر لگ جاتے، یہاں تک کہ دو پہر ہوجاتی، پھر ظہر کی نماز پڑھ لیتے، پھر دو پہر کا کھانا کھالینے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاتے اور مغرب تک ادارہ سے متعلق کام کرتے اور کبھی مغرب تک تفریح کے لئے نکلتے اور تھوڑی دیر تفریح کرلیتے۔ پھر مغرب کی نماز پڑھتے اور ان اہم خبروں کو سنتے جن کو اخبار کے بعض مقالے اور اخباروں نے ٹیلیگرام اور دوسرے ذرائع سے جمع کرکے رکھا ہو۔ پھر قرآن کریم و سنت کی کتابوں سے کسی کتاب کا سبق دیتے اور جس کو کچھ ان کے اپنے بیٹے اور خاص طلبہ سنتے۔ اس مجلس میں کچھ شعراء اور ادباء بھی شریک ہوتے، اور شعر و ادب کے بارے میں آپ سے گفتگو کرتے، اور کچھ اشعاری لطیفے اور ادبی نکتے بیان فرماتے، پھر عشاء کی نماز پڑھتے، اور سونے اور آرام میں مشغول ہوجاتے۔

حلیہ شریف
جسمانی لحاظ سے درمیانہ قد، نمکین رنگ جس میں سپیدی غالب ہوتی، ابھری ہوئی پیشانی، تنگ نتھنے، ابھری ناک، چوڑی پیشانی، لمبے چہرے، حیاء دار چوڑے مونڈھے والے اور چھوٹی ڈاڑھی والے تھے۔

تصانیف
آپ کی تصنیفات تقریباً دو سو بائیس تھیں اگر ان کے ساتھ کچھ دوسرے پرچے بھی ملا لئے جائے تو تین سو تک ہوجاتیں۔ آپ کی تمام تصنیفات میں سب سے مشہور اور افضل فتح البیان، عون الباری، سراج الوھاج، حضرات التجلی، التاج المکلل، المسک الختام، نیل المرام، اکلیل الکرامۃ، حصول المامول، ذخر المجتبی، روضہ الندیہ، ظفر اللاضی، نزل الابرار، افادۃ الشیوخ، بدور الاھلہ، التقصار، حجج الکرامۃ، دلیل الطالب، ریاض المرتاض، ضوء الشمس، خرۃ الخیر، لسان العرفان، الدر البھیہ، انتقاد الحطۃ، رسالۃ ذم، علم الکلام، الاربعین فی الاخبار المتواترۃ، المعتقد المنقد، اجوبہ بعض اسولۃ، الاعلام، رسالۃ الاحتواء، رسالۃ الناسخ و المنسوخ، اتحاف النبلاء۔

ان کتابوں کے بعد بھی چند اور کتابیں آپ نے تحریر فرمائی ہیں جن میں سے سب سے اہم کتاب ابجد العلوم ہے جو تین جلدوں میں ہے۔ ان کے علاوہ آپ کی دوسری تصنیفات بھی ہیں جن کے ناموں کو آپ کے صاحبزادہ سید نورالحسن نے مقدمہ کتاب نیل المرام میں لکھا ہے اور آپ کے صاحبزادہ علی حسن نے اپنے والد کی سیرت کے بارے میں اکٹھا کیا ہے اور جس کا نام ماثر صدیقی رکھا ہے۔

نزہۃ الخواطر
اردو ترجمہ (آٹھویں جلد)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں