اسلامی پردہ کا مفہوم، اس کی روح اور مقصد

اسلامی پردہ کا مفہوم، اس کی روح اور مقصد

مسلم خواتین کے لیے پردہ (اس پورے معنی میں کہ چہرہ بھی چھپاہو) ضروری ہو یا نہ ہو، اسلامی نقطہ نظر سے اس کے بہتر ہونے میں کلام کی گنجائش نہیں نظر آتی۔

مسلم معاشرہ کے عادات و اطوار کے لیے مستندترین معیار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کا معاشرہ ہے۔ اس معاشرہ میں ہمیں مردوں اور عورتوں کو الگ الگ (Segregated) رکھنے کا واضح رویہ ملتا ہے۔ جماعت کی نماز کے لیے مسجد میں عورتوں کو آنے کی اجازت تو رکھی تھی پر ان کے لیے زیادہ ثواب آپ گھر کے اندر کی نماز میں بتاتے۔ مسجد میں عورتوں آتیں تو مردوں کی صف میں نہیں کھڑی ہوسکتی تھیں، ان کی صفیں مردوں کی پشت پر ہوتی تھیں۔ نماز کے خاتمہ پر مسجد سے نکلنے کے سلسلہ میں ان کے لیے ارشاد تھا کہ مردوں کے ساتھ مخلوط ہوکر نہ نکلیں۔ عید کے موقع پر خود فرمایا جاتا تھا کہ عورتوں بچوں کو بھی ساتھ لیکر نکلو۔ لیکن وہاں بھی عورتوں کا حصہ سے جدا ہوتا اور نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرما کر عورتوں کی طرف الگ تشریف لیجاتے، اور وہاں مخصوص طور پر ان کے مناسب حال کچھ وعظ فرماتے۔
علیحدگی (Segregation) کا یہ اہتمام، جس میں عورتوں کی صنف کے لیے بہر حال ایک تکلف اور قید و پابندی کی صورت ہے، بے وجہ اور بے ضرورت نہیں ہوسکتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں بے ضرورت تکلفات اور پابندیوں کی صاف ہمت شکنی پائی جاتی ہے۔ اور کیسے نہ ہو، جبکہ آپ کو رسالت کا منصب دینے والے رب نے صاف اپنی کتاب پاک میں فرما رکھا ہے: ’’اللہ کو تمہارے لیے آسانی منظور ہے وہ تمھارے حق میں سختی نہیں چاہتا۔‘‘ (البقرۃ۔ ۲:۱۸۵)
ارد گرد پھیلے ہوئے خداپرستی کے نمونوں میں لوگ دیکھتے آئے تھے کہ اپنے جسم و جان و نفس پر تشدد اور اس سلسلہ کے تکلفات کا قرب خدا میں کچھ خصوصی دخل سمجھا جاتا ہے۔ پس بعض مسلمانوں کا کچھ اس ڈھنگ کا رجحان آپ نے کبھی دیکھا یا علم میں آیا تو جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے آپ نے سختی سے تنبیہ فرمائی کہ یہ میرا طریقہ نہیں ہے۔ اور اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اس کی عائد کردہ فرائض سے کچھ اور آگے جانے کی ہمت کھاؤ۔ اسی سلسلہ کی ایک حدیث پاک کے یہ الفاظ یاد رکھنے کے ہیں: انی لم ابعث بالیھودیۃ و لا بالنصرانیہ و لکنی بعثت بالحنیفۃ السمحہ (میں یہودیت یا نصرانیت دے کر نہیں بھیجا گیا، میں سادہ و سہل ملت حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ مسند احمد)
تو وہ کیا بات ہے کہ شریعت اسلامی نے اپنے اس مزاج کے باوجود عورتوں کے معاملہ میں کچھ ایسی قیود و حدود روا رکھیں جو انہیں مردوں کی صنف سے کچھ فاصلہ کا پابند بنائیں؟ اس کا جواب ہمیں خود قرآن پاک سے ملتا ہے۔ قرآن کی ایک سورت (۲۴) سورہ نور کے نام سے ہے۔ اس سورہ کا اہم موضوع مسلم معاشرہ کی جنسی طہارت و پاکیزگی ہے۔ اس پاکیزگی کی جو اہمیت ہمارے خالق و مالک اللہ رب العزت کی نظر میں ہے اس کا اظہار سورہ مبارکہ کے بالکل آغاز ہی میں ہوجاتا ہے، کہ اس سلسلہ کی ناپاکی کے آخری حد (زنا) تک پہنچ جانے والے مرد و عورت کے لیے سو کوڑے جیسی سخت سزا کا تعین فرمایا گیا۔ اور یہ سزا بھی خفیہ نہیں، بلکہ بر سر عام دیئے جانے کا حکم ہوا۔ سو اسی مطلوبہ پاکیزگی کے مقصد سے اس سورہ میں وہ ہدایات مسلم معاشرہ کو دی گئی ہیں جن کے ذریعہ ممکن حد تک یہ معاشرہ خود کو جنسی لغزشوں سے پال رکھ سکے۔ اس سلسلہ کی ہدایتوں میں ایک بیان یہ آتا ہے کہ ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا کچھ قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ رشتہ یا کسی دوسری نوعیت کا قریبی تعلق ہے تو بس آئے اور یوں ہی باقاعدہ و بامعنی اجازت یا بی کے بغیر گھر میں داخل ہوتے چلے گئے۔ یہ بیان جو سورہ کی آیت ۲۷ سے شروع ہوکر آیت ۳۱ تک گیا ہے۔ اس کے احکام کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے:
(۱) اہل ایمان جب ایک دوسرے کے گھر جائیں تو اسلام اور اجازت حاصل کیے بغیر گھر میں داخل نہ ہوں۔ (۲) اگر (جواب نہیں ملتا) اور اندازہ ہوتا ہے کہ شاید گھر میں کوئی ہے نہیں تو (دروازہ چاہے کھلا بھی ملے) تو اندر نہ جائیں۔ یا اگر جواب اندر سے وقتی معذرت خواہی کا آئے تو (برا نہ منائیں) لوٹ آئیں۔ (۳) اجازت کے بعد داخلہ کا ادب سکھاتے ہوئے فرمایا گیا: اہل ایمان کو زیبا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں ذرا جھکی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا راستہ ہے۔ (۴) اس کے بعد گھر والیوں کے لیے یہی حکم ہوتا ہے: مؤمن عورتیں اپنی نگاہیں ذرا جکھی رکھیں، شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اپنی کوئی زینت ظاہر نہ ہونے دیں، سوائے اس کو جو ناگزیر ہے، اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔ (۵) (البتہ) جو لوگ خواتین خانہ کے محرم ہیں، باپ ہیں، بھائی ہیں، بیٹے، بھتیجے، بھانجے و غیرہ، ان کا معاملہ الگ ہے۔ ان کے سامنے نے پر زیب و زینت کے اظہار والی یہ پابندیاں نہیں ہیں۔ (گویا اوپر والی پابندیاں نامحرموں کے تعلق سے تھیں)۔ مزید، وہ خدام خانہ جو عورتوں کی طرف رغبت کی عمر سے گزر چکے، یا وہ بچے جو اس معاملہ میں ابھی بے شعوری کی عمر کے ہوں یا مؤمن خواتین، ان سب کا یہی حکم ہے، کہ ان کے ساتھ وہ نامحرموں والی پابندیاں نہیں۔
یہ بات کہ ان احکام و ہدایات کا مقصد معاشرہ کو ممکن حد تک جنسی لغزشوں سے تحفظ دینا ہے ان کے الفاظ سے پوری طرح ظاہر ہے۔ ’’نگاہوں کو نیچا رکھنا، شرمگاہوں کی حفاظت کرنا اور زیب و زینت کا اظہار حتی الامکان نہ ہونے دینا‘‘ یہ الفاظ مقصد احکام کے سلسلہ میں بالکل صاف طور سے جنسی پاکیزگی مقصود ہونے کا تعین کرتے ہیں۔ اور احکام کی روح بالکل واضح طور پر یہ ہے کہ نامحرم مردوں اور عورتوں میں حالات کے مطابق ممکن حد تک ایک فاصلہ کی صورت رہنی چاہئے۔ اس وقت کے مدینہ میں عام طور پر گھر ایسے نہیں تھے کہ آنے جانے والوں کے لیے زنانخانہ سے بالکل الگ جگہ ہو۔ ایسے میں معاشرتی تعلقات کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے بس ایک علامتی ’’فاصلہ‘‘ ہی ممکن تھا (نظریں حتی الامکان نہ ملیں) سو اس کو بھی لازمی قرار دیا گیا۔ پس یہ جنسی طہارت و پاکیزگی کا مسئلہ ہے جس کے پیش نظر اللہ کا نازل کیا ہوا دین مسلم معاشرہ کی دونوں صنفوں کے درمیان حالات اور سچویشن کے مطابق فاصلہ رکھے جانے کو ضروری قرار دیتا ہے۔
الغرض ان قرآنی احکام کی اصل روح دونوں صنفوں کے درمیان فاصلہ رکھنے کی ٹھیری، جو بھی اس کی عملی شکل سچوایشن کے مطابق ہوسکتی ہو۔ مثلا گھر سے باہر کسی ضرورت سے نکلنا ہے، جس میں وہ فاصلہ صنف مخالف سے نہیں برقرار رکھا جاسکتا جو گھر میں رہتے ہوئے ہوتا ہے، تو خوش قسمتی ہے کہ اس صورت حال کی عملی شکل کے لیے ہمیں زوجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ایک بیان کی روایت ملتی ہے۔ فرمایا: مؤمن عورتیں فجر کے وقت اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرکے لوٹتیں تو واپسی میں بھی ایسا اُجالا نہ ہوتا کہ پہچان لی جائیں۔ (بخاری: ۵۷۸۔ وقت فجر) تو ایک مؤمن عورت کی شان منہ اندھیرے نکلنے میں بھی یہ ہوئی کہ خود کو لپیٹ لپاٹ کر نکلنے کی شکل میں مردوں سے فاصلہ کی ایک علامتی صورت بہر حال پیدا کرے۔ پس مؤمن عورتیں، بے ضرورت شدت پسندی کے بغیر، جس قدر بھی اس فاصلہ کے اصول کو برت سکتی ہوں وہ لائق تحسین ہوگا۔ اور نقاب لینا، یعنی چہرہ کو بھی مستور رکھنا، اسی فاصلہ کے اصول کو برتنے کی ایک مکمل شکل ہے۔ اس کے ضروری ہونے نہ ہونے کی بحث میں پڑے بغیر اتنا پورے اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ ہماری خواتین میں جو کوئی خاتون ایسا کرتی ہے زمانہ کی ’’خلافِ فاصلہ‘‘ ریت کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی ہمت کے لیے لائق داد اور قابل تحسین ہے۔
لیکن ’’فاصلہ‘‘ کی اس مکمل شکل کا اہتمام کرتے ہوئے ایک خاتون برطانیہ جیسے کسی ’’فاصلہ‘‘ نا آشنا ملک میں پبلک نوکری کے لیے نکل پڑے، تو اس نے نقاب کا مفہوم سمجھ کر نقاب نہیں پہنا، بس اپنے گھرانے کا ایک محترم دستور جانتے ہوئے اس کی پابند ہوئی۔ پردہ کی ایسی پابند کوئی خاتون اگر اپنے حالات میں کسی پبلک جاب کے لیے مجبور ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ شرعاً اسے اس کی اجازت ہے، تو شریعت جب اِس ’’واقعی فاصلہ‘‘ کی پابندی اس پر سے اُٹھا سکتی ہے تو نقاب جو اس فاصلہ کی محض ایک علامتی شکل ہے اس کی پابندی سے تو وہ بدرجہ اَولیٰ مستثنی ہوجانی چاہئے۔ پھر چہرہ کا پردہ یوں بھی ائمہ فقہاء میں ایک اختلافی معاملہ ہے۔ ہم احناف کے اصل مذہب میں تو ہاتھ پاؤن کی طرح چہرہ کے لیے بھی رخصت ہے۔ یہ تو بعد میں زمانہ کا فساد دیکھ کر ہمارے علماء نے اس رخصت کو برقرار رکھنے میں مضائقہ سمجھا، اور وہی ہمارے یہاں شرعی مسئلہ بن گیا۔ پس جس کسی خاتون کو مجبوری ہے اور باہر نکل کر نوکری کرنا ہے تو اس کے لیے بے معنی ہے کہ نقاب پوشی کی وجہ سے خود بھی پریشان میں پڑے اور جو فضا اس وقت پورے مغرب میں اسلامی شعائر و علامات سے الرجی کی بنی ہوئی ہے اس کی بنا پر اپنے دین اور اپنی ملت کے خلاف بھی فتنہ انگیزوں کو ایک نیا بہانہ مہیّا کردے، جیسا کہ ان دنوں ایک ایسے واقعہ کی بنا پر ہورہا ہے۔
پردہ کا مسئلہ تو خود اسلامی دنیا میں بھی مغرب کے عروج کے بعد سے ایک متنازع مسئلہ بن گیا ہے۔ حتی کہ بڑی تعداد ایسے گھرانوں کی ہوچکی ہے جو بنیادی دینی فرائض کے ماننے اور ادا کرنے والے ہیں مگر خواتین کے لیے مردوں سے فاصلہ کا تصور ان کے یہاں سے نکل چکا ہے۔ مناسب ہے کہ دو لفظ یہاں اس سلسلہ میں اور کہہ دئے جائیں۔ اس چیز میں علاوہ اور باتوں کے کافی دخل اس بات کا ہے کہ لوگ ’’جنسی پاکیزگی‘‘ کو دو ایسے الفاظ کا مجموعہ جان کر جن کے معنی معلوم ہیں خود سے اس کا مفہوم طے کرلیتے ہیں، (اسلام سے پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے) اور اس مفہوم میں پاکیزگی کے لیے ان کو کوئی ضرورت ان پابندیوں کی معلوم نہیں ہوتی جن کا عنوان پردہ ہے۔ جبکہ وہ جنسی پاکیزگی جو اسلام کو مطلوب ہے وہ اس کے عقیدہ توحید کی طرح اس کی عبادات کی طرح اپنا ایک خاص مفہوم رکھتی ہے محض الفاظ کے معنی معلوم ہونے سے وہ نہیں معلوم ہوسکتا۔ اسلام کی مطلوبہ پاکیزگی کا مفہوم جاننے کے لیے نیک نیتوں کو صرف اس حدیث پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر غور کرلینا کافی ہوجانا چاہئے۔ فرمایا: آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں، ان کا زنا نظر (میں چھپی شہوت) ہے۔ کان بھی زنا کرتے ہیں، ان کا زنا آواز پر (لذت لیتے ہوئے) لگنا ہے۔ زبان بھی زنا کرتی ہے، اس کا زنا (شہوت آلود) بات چیت ہے۔ الخ… (صحیح بخاری) کیا جنسی ناپاکی کا یہ تصور ہوتے ہوئے مسلم خواتین و حضرات کے درمیان اس فاصلہ کی ضرورت میں کلام کیا جانا چاہئے جس سے پردہ عبارت ہے؟

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
سرپرست ماہنامہ الفاروق لکھنؤ
ماہنامہ الشریعہ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں