امہات المومنین اور آیت حجاب کا حکم

امہات المومنین اور آیت حجاب کا حکم

اگست 2007ء کے ’’الشریعہ‘‘ میں جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب کا مضمون ’’امہات المومنین کے لیے حجاب کے خصوصی احکام‘‘ نظر سے گزرا۔ جناب ندوی صاحب کے مذکورہ مضمون کی گئی باتوں سے مجھے اختلاف ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

 

1۔ ندوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’قرآن میں پردہ کے کچھ احکام تو ایسے تو ہیں جن کا تعلق امہات المومنین یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے اور دوسرے احکام وہ ہیں جو عام مسلمان خواتین سے متعلق ہیں اور بعض حکم ایسے ہیں جن میں دونوں مشترک ہیں۔‘‘ (ص: 37)
مگر آگے چل کر ندوی صاحب نے اپنے عجیب و غریب نظریے کی وضاحت نہیں فرمائی کہ ان تین اقسام کے پردوں کے لیے قرآن و حدیث سے کیا دلیل ملتی ہے انہوں نے صرف ایک قسم کے پردے کی وضاحت کرتے ہوئے سورۃ الاحزاب آیت 33 کا حوالہ دیا ہے باقی دو قسموں کے پردوں کے بارے میں نہ کوئی دلیل دی ہے اور نہ کوئی حوالہ بلکہ اس معاملے سے اعراض کرکے انہوں نے اس بحث میں اچھا خاصا الجھاؤ اور مغالطہ پیدا کردیا ہے، کہ اسلام میں ستر و حجاب کے احکام ازواج مطہرات کے لیے اور ہیں اور عام مسلمان خواتین کے لیے اور۔

2۔ جناب ندوی صاحب کے مضمون کا دوسرا نکتہ جس سے مجھے اختلاف ہے یہ ہے کہ انہوں نے سورۃ الاحزاب کی آیت 33 کے الفاظ: ’و قرن فی بیوتکن‘ (اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو…) کے حکم کو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص کردیا ہے اور وہ اس حکم میں عام مسلمان عورتوں کو شامل نہیں سمجتے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’بعض مفسرین نے قدیم زمانے سے مذکورہ آیت 33 کے پہلے جملے ’و قرن فی بیوتکن‘ (اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو) کا اطلاق عام مسلمان خواتین پر کرکے عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں محبوس کردیا‘‘۔ (ص:38)

وہ مزید لکھتے ہیں کہ:
’’عورتوں کو چار دیواری میں رکھنے کے دفاع میں جو کچھ بھی کہا جائے وہ اپنی جگہ لیکن اس کا حکم قرآن میں نہیں ہے۔ اور ازواج مطہرات پر قیاس کرتے ہوئے اس حکم کو تمام مسلمان خواتین کے لیے عام کرنا کسی طرح درست نہیں، کیونکہ سورۃ الاحزاب کی انہی آیتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ ازواج مطہرات میں سے اگر کوئی بد کرداری کرے تو ان کو آخرت میں دگنی دی جائے گی، اور اگر وہ اطاعت شعاری اور نیکوکاری کریں گی تو ان کو دگنا اجر دیا جائے گا (سورۃ الاحزاب آیت 30۔31) جب کہ عام مسلمانوں کو کسی گناہ کی سزا دینے کا ذکر قرآن میں نہیں‘‘۔ (ص38)
اصل نکتے پر بحث کرنے سے پہلے میں عرض کروں گا کہ ندوی صاحب کا یہ دعوی کہ عام مسلمانوں کو کسی گناہ کی دگنی سزا دینے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، ہرگز صحیح نہیں ہے۔ سورۃ الفرقان آیت 68۔69 میں عام مسلمانوں کو بھی تین قسم کے گناہوں (شرک، قتل اور زنا) پر آخرت کی دگنی سزا سنائی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ:
{ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً (69)}
(الفرقان، آیت: 68۔69)
’’اور جو شخص ایسے کام کرے گا وہ اپنے کیے کی سزا بھگتے گا، قیامت کے دن اسکو دگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ذلیل ہو کر رہے گا۔‘‘
اب اصل نکتے کی طرف آتے ہیں، یہ بجاہے کہ سورۃ الاحزاب آیت 33 میں ’و قرن فی بیوتکن‘ (اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو) کا خطاب اگر چہ ازواج مطہرات سے ہے مگر اس حکم میں عام مسلمان خواتین بھی داخل ہیں کیوں کہ اسی آیت میں نماز، زکوۃ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت جیسے احکام بھی موجود ہیں جو ظاہر ہے صرف ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہوسکتے۔ پوری آیت یوں ہے:
{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}
(الاحزاب، آیت: 33)
’’اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو، دور جاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنی زینت کی نمائش کرتی نہ پھرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ چاہتا ہے یہ کہ تم اہل بیت سے آلودگی کو دور رکھے اور تمہیں اچھی طرح پاک کردے۔‘‘

کیا اس آیت کا یہ مطلب لیا جائے کہ صرف ازواج مطہرات ہی گندگی سے پاک ہوں اور اللہ تعالی باقی مسلمان عورتوں کو گندگی سے پاک نہیں کرنا چاہتا؟ مذکورہ آیت کے حوالے سے اگر ندوی صاحب کے موقف کو تسلیم کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ صرف امہات المومنین ہی کو اپنے گھروں میں ٹک کر رہنے کا حکم دیا گیا تھا، اور عام مسلمان خواتین کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ گھروں میں ٹک کر نہ رہا کریں بلکہ گلیوں اور بازاروں میں پھرتی رہا کریں۔ صرف امہات المومنین کے لیے حکم تھا کہ وہ تبرج جاہلیت سے پرہیز کریں اور عام مسلمان خواتین کو باہر ٹھن کر نکلنے کی اجازت ہے۔ صرف امہات المومنین کے حکم تھا کہ وہ امہات المومنین کو زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور عام مسلمان خواتین کے لیے زکوۃ کا حکم نہیں ہے۔ صرف امہات المومنین کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور عام مسلمان خواتین کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ و رسول کی نافرمانی کیا کریں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
تمام مفسرین مانتے ہیں کہ اس آیت میں گھر میں ٹکے رہنے کا جو حکم ہے، وہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے دیا گیا ہے، مگر اس کے مفہوم میں عام مسلمان خواتین بھی شامل ہیں، مثال طور کے پر امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن) میں اسی آیت کے تحت یہی لکھا ہے کہ ’’معنی ھذہ الایۃ الامر بلزوم البیت، و ان کان الخطاب لنساء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقد دخل غیر ھن فیہ بالمعنی‘‘۔
اسی طرح مذکورہ آیت کے تمام (چھ) احکام کا اطلاق ازواج مطہرات کے علاوہ عام مسلمان خواتین پر بھی کیا گیا ہے۔ دراصل اللہ تعالی نے تمام مسلمان گھروں میں جو اصلاح فرمائی تھی، اس کا آغاز سب سے پہلے ازواج مطہرات سے کہا گیا تا کہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ عمل بن جائیں۔

3۔ تیسری بات اس مضمون میں ندوی صاحب کا وہ طرز کلام ہے جو ان جیسے بزرگ اور عربیت کے ماہر شخص کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’عورتوں کو چاردیواری میں رکھنے کے دفاع میں جو بھی کہا جائے وہ اپنی جگہ، لیکن اس کا حکم قرآن میں نہیں ہے۔‘‘ (ص:38)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’بعض مفسرین نے قدیم زمانے سے مذکورہ آیت کے پہلے جملے ’و قرن فی بیوتکن‘ (اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو) کا اطلاق عام مسلمان خواتین پر کرکے عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں محبوس کردیا…‘‘ (38)

ان عبارات میں ’’عورتوں کو چار دیواری میں رکھنے‘‘ اور آیت کا اطلاق عام مسلمان خواتین پر کرکے ’’عورتوں کو گھر میں محبوس کردیا‘‘ جیسی پھبتیاں کسنا ندوی صاحب کے شایان شان نہیں ہے۔ یہ تو مغربی تہذیب کے دلدادگان کا شیوہ ہے۔ آخر ندویوں کے لیے کیوں لازم ہوگیا ہے کہ وہ بھی مغرب کی ہم نوائی میں پردہ جیسے اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے لگیں؟ شریعت نے پردے کا حکم عورت کو محبوس کرنے کے لیے نہیں دیا، اس کی عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے دیا ہے۔
ندوی صاحب کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اب کی اس پھبتی اور طعن و تسمخر کی زد کہاں تک پہنچی ہے۔ ان کی ان عبارات سے یہ تو نکلتا ہے کہ اصل میں اللہ تعالی نے تو اپنے قرآن میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو گھر کی چار دیواری میں ’’محبوس کرنے‘‘ کا حکم دیا تھا، مگر کم فہم مفسرین نے اس خاص حکم کو عام قرار دے کر عام مسلمان خواتین کو بھی گھروں میں محبوس کردیا۔ یا للعجب! کیا ایسی بات کہنے کے بعد کسی مسلمان کا ایمان محفوظ رہ سکتا ہے؟! محترم ندوی صاحب کو اس سے توبہ کرنی چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ عربی ادب اور چیز ہے، اور دین کی سمجھ اور چیز!

4۔ جناب ندوی صاحب کے مضمون کے آخری نکتہ جس سے مجھے اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ وہ سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۳ جسے آیت حجاب کہا جاتا ہے، کے حکم کو بھی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص مانتے ہیں اور ان کو یہ شکایت ہے کہ مفسرین کرام نے اس خاص حکم کو بھی غلطی سے ساری خواتین کے لیے عام کردیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ آیت اپنے طرز خطاب اور اپنے سبب نزول کی روشنی میں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے متعلق ہے لیکن اس کے آخری جملے ’’اور جب ان (ازواج مطہرات) سے کچھ کہا مانگا کرو تو یہ پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘‘ کا حکم بعد کے مفسرین نے ساری خواتین کے لیے عام کردیا۔‘‘
قارئین کی آسانی کے لیے یہاں پر متعلقہ آیت حجاب بھی لکھ دی جاتی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ… }
’’ٓاے ایمان والو! نبی کے گھروں میں بلا اجازت نہیں چلا جائے کرو، نہ کھانے کا وقت تکتے رہو، ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، مگر جب کھانا کھالو تو چلے جاؤ، بیٹھ کر باتیں کرنے میں نہ لگے رہو، تمہارا یہ عمل نبی کو تکلیف دیتا ہے، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے، اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے، نبی کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے مناسب طریقہ ہے‘‘۔

اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے کہ جہاں تک طرز خطاب اور سبب نزول، کا معاملہ ہے، تو اہل علم جانتے ہیں کہ تفسیر کا یہ مسئلہ قاعدہ ہے کہ ’’العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ جن آیات کا کوئی خاص شان نزول ہوتا ہے، ان کا حکم بھی صرف مخصوص موقع ہی کے لیے ضروری نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کے حکم کو عام قرار دیا جاتا ہے۔
گویا یہ نہیں کہا جائے گا کہ چونکہ فلاں آیت شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لہذا اس کے بارے میں جو حکم آیا ہے، وہ بھی اسی شخص کے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ حکم عام بھی ہوسکتا ہے، اور سبب کے لیے ہوسکتا ہے۔ یہی معاملہ اس آیت حجاب کا ہے۔ یہ اگر چہ اپنے طرز خطاب اور سبب نزول کے اعتبار سے خاص حکم رکھتی ہے مگر اس کے معنی و مفہوم میں عموم پایا جاتا ہے۔ روایات میں ہے کہ اس آیت حجاب کے نازل ہونے کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے تھے۔ پھر چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا، اس لیے سب مسلمانوں نے بھی اپنے گھروں پر پردے لٹکا دیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے بھی اس آیت کے حکم کو خاص نہیں سمجھا بلکہ عام سمجھ کر اس پر عمل کیا اور صحابہ کرام کی قرآن فہمی بعد والوں کے قرآن فہمی سے بہر حال مقدم ہے۔
دوسرے اس آیت کے آخری فقرے میں بھی اس بات کا واضح اشارہ موجود ہے کہ جو لوگ اپنے مردوں اور اپنی عورتوں کے دلوں کو پاک رکھنا چاہتے ہیں، وہ یہی طریقہ اختیار کریں جس کا یہ آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ پھر جہاں تک (ذلکم أطھرُ لقلوبکم و قلوبھن) کی قرآنی حکمت کا تقاضا ہے تو کیا اسلام میں بھی صرف صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے دلوں کی پاکیزگی مطلوب ہے، اور بعد میں آنے والے مسلمان مردوں اور عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی اسلام کو مطلوب نہیں ہے؟ جس طریقے کے بغیر صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے دلوں کی پاکیزگی میں کمی آسکتی تھی، کیا اس طریقے کے بغیر جد و جہد میں آنے والے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی میں کمی نہیں آسکتی؟

محمد رفیق چودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہنامہ الشریعہ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں