دعوت کی مہم چھوڑنے کی وجہ سے معاشرہ گناہوں کی دلدل میں پھنس چکاہے

دعوت کی مہم چھوڑنے کی وجہ سے معاشرہ گناہوں کی دلدل میں پھنس چکاہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے معاشرے میں برائیوں اور فحاشی کی کثرت کو دعوت الی اللہ کی مہم میں غفلت برتنے کا نتیجہ قرار دیا۔

 

بائیس اگست دوہزار چودہ کے خطبہ جمعہ کا آغاز قرآنی آیت: «وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ» [آل عمران:104] کی تلاوت سے کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اسلام سے پہلے اللہ تعالی کی سنت یہ تھی کہ دین برحق کی صیانت و بقا اور اشاعت کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمائے۔ جب ایک نبی کا مشن ختم ہوتا تو دوسرے نبی کی بعثت ہوتی۔

انہوں نے مزیدکہا: لیکن امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے یہ سلسلہ بند ہوگیا اور دعوت الی اللہ کا مشن امت مسلمہ کے ذمے آگیا۔ اب ہم مسلمانوں کو حکم ہے کہ اللہ کی وحدانیت کی طرف لوگوں کو بلائیں اور انہیں برے کاموں سے منع کریں۔

مولانا عبدالحمید نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ہماری کامیابی کا راز تقوی و پرہیزکاری میں ہے۔ دشمنوں کو مرعوب کرنے کے لیے اللہ کی رسی سختی سے پکڑنا پڑے گا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے وحدت حاصل ہوتی ہے اور یہ تقوی کا ثمرہ ہی ہے۔ جب بندہ تقوی سے بے نیازی کا مظاہرہ کرتا ہے تو منکرات و معاصی میں مبتلا ہوجاتاہے اور خطرہ ہے اس کا ایمان برباد ہوجائے۔ اسی لیے قرآن پاک نے ہمیں خبردار کیاہے کہ یہود ونصاریٰ کی کوشش ہے ہمیں ہدایت ودین سے دور رکھیں، لیکن تقوی سے ہمیں نجات حاصل ہوسکتی ہے۔

امربالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت واضح کرتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: متعدد آیات و احادیث میں مسلمانوں پر زوردیا گیاہے کہ تم میںسے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو بھلائی اور نیک کاموں کی جانب بلائے اور ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کی سوچ میں رہے۔ سرورِکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ ابوجہل وابولہب سمیت دیگر مشرکین کو اللہ کی توحید کی طرف بلایا اور آپ اس راہ میں ہرگز تھکاوٹ محسوس نہیں فرماتے تھے۔ حدیث کے مطابق امربالمعروف اور نہی عن المنکرکیا کرو اس سے پہلے کہ اللہ کا عذاب تم پر نازل ہو اور اس وقت کسی کی دعا قبول نہیں ہوگی۔

انہوں نے مزیدکہا: آج کے مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری پس پشت ڈالاہے اور وہ اختلاف و فرقہ واریت سے نالاں ہیں۔ جب کوئی شخص کسی برائی کو دیکھ لے اور خاموشی اختیار کرکے کوئی ردعمل نہ دکھائے تو اس فرد نے اپنی ذمہ داری سے غفلت کی ہے اور روزِحساب اسے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

فلسطین میں جاری صہیونی ریاست کی دہشت گردی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: فلسطین خاص کر غزہ کے مظلوم عوام پر ایک بڑا ظلم ہورہاہے اور مسلمان بے بس ہیں؛ اس کی وجہ راہ رشد وہدایت سے ان کی دوری ہے۔ نجات اور مشکلات کا حل صرف دین کی طرف واپس لوٹنے میں ہے۔ اللہ کی نافرمانی نہیں ہونی چاہیے اور لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

معاشرے میں معاصی و برائیوںکی بہتات و فراوانی کو دعوت سے غفلت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: مختلف قسم کے گناہ معاشرے میں عام ہوچکے ہیں۔ لوگ باجماعت نماز کی پابندی نہیں کرتے ہیں۔منشیات اور شراب و سیاہ کاری کا رواج ہے۔ مسلمانوں میں غیرمسلموں کی مختلف رنگارنگ خصلتیں اور برائیاں رائج ہوچکی ہیں۔ یہ سب امربالمعروف و نہی عن المنکر سے غفلت کے نتائج ہیں۔ لہذا ہمیں جماعت تبلیغ سے تعاون کرکے اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولانا نے والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اپنی اولاد کی دینی و عصری تعلیم پر خصوصی توجہ دیں؛ حقیقی سرمایہ یہی اولاد ہیں جائیداد اور مال ودولت فانی ہیں۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں