ویڈیو گیمز کے نقصانات

ویڈیو گیمز کے نقصانات

دنیا کی تاریخ میں ایک طویل زمانہ گزرا ہے جب انسان کی زندگی انتہائی سادہ اور عام سی تھی چند ضروری چیزوں کے سوا نہ زیادہ لکھنے پڑھنے کا رواج تھا اور نہ ہی حساب کتاب کی جھنجھٹ، اور یہ سب اس وجہ سے تھا کہ دنیا کی آبادی کم تھی، علاقوں، ملکوں اور براعظموں کے باہمی تعلقات، ان کے باسیوں کے درمیان میل جول اور تجارت زیادہ نہ تھی۔ پھر جوں جوں دنیا ترقی کرتی چلی گئی توں توں مختلف ذرائع مواصلات، آلات تعلیم و تعلم اور حساب کتاب کی مشینیں ایجاد ہوتی چلی گئیں۔

 

ایک وہ دور تھا جب انسان گنتی اور حساب کتاب کے لئے کنکریوں اور ہڈیوں کو استعمال کیا کرتا تھا پھر اٹھارویں صدی میں چین میں دو بھائیوں نے ایباکس (Abacus) ایجاد کیا یہ دنیا کا پہلا انتہائی سادہ کمپیوٹر تھا جو آج الیکٹرونک کمپیوٹر کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور دنیا کی ترقی کے لئے شہہ رگ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
ایک وہ دور تھا جب انسان کو اپنے کلچر کے فروغ دینے کیلئے ڈراموں، فلموں کی ضرورت نہ تھی بلکہ نسل در نسل روایات و ثقافت چل آرہی تھی لیکن آج اس مقصد کیلئے الیکٹرونک مشینیں (ٹی وی، ریڈیو و غیرہ) ایجاد ہوچکے ہیں۔

لیکن اب قابل غور بات یہ ہے کہ کیا آج یہ آلات صرف اپنے صحیح مقاصد ہی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں؟
کیا کمپیوٹر سے صرف تعمیری اور علمی کام لیا جارہا ہے یا کچھ اور بھی؟
یقیناًآج ان کو صحیح، مثبت پہلو کے ساتھ منفی پہلو پر بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اور وہ کمپیوٹر جو انتہائی برق رفتار مواصلاتی ذریعہ ہے اور کئی انجینئروں کے کئی دنوں کے کام کو پلک جھپکنے میں کردیتا ہے، جو انسانیت کے لیے ایک بیش بہا نعمت ہے اسی کمپیوٹر سے ٹارگٹ بمبنگ کا کام لے کر انسانوں کے پر خچے بھی اڑائے جارہے ہیں، سافٹ ویئرز اور بعض دیگر راستوں سے خطرناک قسم کے انٹرورڈرز اور ہائی جیکرز آپ کے P.C. میں داخل ہوکر آپ کی ہارڈ ڈسک اور I.D. میں داخل ہوکر آپکا پرسنل ڈیٹا، خالی جگہ اور آپ کا کریڈٹ کارڈ نمبر، N.I.C نمبر اور ضروری معلومات چرا کر ان کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔
خیر، ایک لمبی فہرست لکھنے کا موقع نہیں اس وقت میں جس خطرناک Sychological Virus For Humainity پر لکھنے لگا ہوں وہ ہے جنگی طرز اور قتل و غارت کے منظر پر مشتمل وڈیو گیمز اور موویز کے ذریعے پھیلنے والے نقصانات کا سر سری جائزہ، تو آپ آیئے اس کے لئے عربی اخبار ’’الاتحاد‘‘ (2فروری 2008) میں چھپی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کا ایک مختصر حصہ دیکھتے ہیں:
’’رأس الخیمہ (عرب امارات) میں سال 2008میں 94 ایسے جرائم ہوئے جن میں پکڑے جانے والے مجرموں کی عمریں 10 سے 18 کے درمیان تھیں اور گزشتہ سال کا آخری واقعہ یہ ہوا کہ عیسیٰ حسن نامی طالب علم نے ایک مووی کی نقل کرتے ہوئے اپنے سکول بیگ کی بلیٹ گلے میں ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔ رأس الخیمہ کی انوسٹی گیشن کے چیف آف اے تھنکنگ ٹینک سال الدرمکی نے کہا کہ گزشتہ سال قتل و غارت کے 74 جرائم ایسے ہوئے جن میں نو عمر لڑکے ملوث تھے۔ اور اس سلسلے میں نفسیات کے اسپیشلسٹ فیصل حسن (امارات) نے کہا کہ طالب علموں کو جرائم سے روکنے میں والدین بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں اور ان کا اپنے بیٹوں کو یوں آزاد چھوڑ دینا اور نگرانی نہ کرنا مستبل میں ان کو ندامت پر مجبور کردے گا۔‘‘

محترم قارئین، اس رپورٹ میں مزید بھی شواہد دیئے گئے ہیں جن کا سبب تشدد اور قتل و غارت پر مبنی ویڈیو گیمز اور پروگرامز ہیں نیز ہمارے وطن عزیز میں بھی ان چیزوں کے تیزی سے پھیلنے کا اندازہ نو عمر لڑکوں کی پسندیدہ گیمز کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جو فائٹینگ، کلنگ اور کمانڈو آپریشنز مشتمل ہوتی ہیں۔
تو آیئے ہم اپنے دوستوں، بھائیوں اور بیٹوں کو اس قسم کی منفی سرگرمیوں سے باز رکھنے کی کوشش کریں اور حکومت کو چاہیے کہ نفسیات کے اسپیشلسٹ فیصل حسن (امارات) کی تجویز کے مطابق نو عمر لڑکوں کے لیے ایسے تعلیمی و تعمیری مراکز اور سرگرمیاں ترتیب دیں جو ان کی صلاحیتوں کو منفی مصروفیات میں لگنے کے بجائے مثبت کاموں میں استعمال ہونے کا ذریعہ بنیں۔

عمر فاروق
طالب علم دورہ حدیث، جامعہ دارالعلوم کراچی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہنامہ الشریعہ

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں