عالم اسلام کا ایک بڑا المیہ

عالم اسلام کا ایک بڑا المیہ

غیر مسلم آقاوٴں کے حکم پر اسلام کی بیخ کنی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی بدعہدی اور معاہدہ ٴصلح کے باوجود خفیہ طور پر دشمنان اسلام کی مدد کرنے کو بہت شدت سے محسوس کیا تھا اور غزوہ خندق کی فتح کے بعد فوراً اس غدار قبیلہ پر حملہ کرکے ان کو سزا دی ،تاکہ آئندہ کسی کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسی جرات کی ہمت نہ ہو۔

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صلح حدیبیہ کے بعد راحت و سکون کا جب کچھ وقفہ ملا تو دعوتی خطوط دے کر اپنے قاصدوں کو مصر و شام اور فارس وغیرہ کے بادشاہوں کے پاس بھیجا ،اس زمانہ میں بھی سفارت کاروں کی جان و مال کی حفاظت کی جاتی تھی، مگرشہر بصریٰ کے خودمختار گورنر شرحبیل غسانی نے آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد حارث بن عمیر ازدی کو بلا جواز قتل کردیا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حادثہ کی خبر ملی تو آپ نے ذرا بھی تاخیر نہیں کی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر تیار کرکے روم کے تابع شہر بصریٰ کے لیے روانہ فرمایا، کیوں کہ اس طرح کا اقدام نہ کرنے سے اسلامی عظمت اور سفارتی اصولوں کی دھجیاں اڑانے کا ان حکم رانوں کو موقع مل جاتا اور وہ اپنے تمرد و سرکشی میں بہت بڑھ جاتے، مسلمانوں کی ہیبت باقی نہ رہ جاتی ،اس فوج کشی میں اگرچہ تین بہادر سپہ سالار یکے بعد دیگرے شہید ہوئے، مگر اللہ نے خالد بن ولید کی قیادت میں عظیم الشان فتح سے ہمکنار فرمایا اور مسلمانوں کی ہیبت قیصرروم تک جم گئی۔

٭…حجاج بن یوسف ثقفی کو اطلاع ملی کہ سراندیپ (سری لنکا) کے حاجیوں کے سمندری قافلوں پر سندھ کے راجہ داہر کے فوجی حملے کرکے ان کو ہلاک اور گرفتار کرتے ہیں تو حجاج بن یوسف کی اسلامی حمیت برداشت نہ کرسکی اور اس نے عبدالملک بن مروان سے اجازت لے کر اپنے بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم ثقفی کی قیادت میں زبردست لشکر روانہ کیا، پھر سندھ کی فتح، راجہ داہر کے زوال اور ہندوستان میں مسلم فاتحین کی آمد، اسلامی پرچم کی سربلندی کی داستان رقم ہونے لگی۔

٭…عہد عباسی کے ضدی، مگر انتہائی غیرت مند، خلیفہ معتصم باللہ کو جب معلوم ہوا کہ عیسائی ریاست کے قیدخانہ میں ایک بوڑھی مظلوم عورت نے اپنی فریادرسی کے لیے ”وامعتصما!“ ”ہائے معتصم مدد کرو“ کا نعرہ لگایااورمعتصم باللہ کو جب اس پکار کی خبر دربار میں پہنچی تو وہ فرط غضب و غیرت سے ”لبیک أماہ“ ”اے میری ماں! میں آرہا ہوں“ کہتے ہوئے کھڑا ہوگیا اور اسی دم عباسی اسلامی فوج کو کوچ کرنے کا حکم صادر کیا، یہاں تک کہ وہ اس عیسائی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجاکر اس مظلوم بیوہ کو نکال کر لایا تھا۔

ہم جب ان واقعات کو پڑھتے ہیں اور آج کے اسلامی ممالک کے حالات پر غور کرتے ہیں اور ان کے ساتھ امریکہ و یورپ کی بدعہدی، دغابازی اور ان ملکوں کے ارباب حل و عقد کی چاپلوسی، حاشیہ برداری اور بے غیرتی کو دیکھتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ان ملکوں کی رعایا اور جنتا کی ایمانی غیرت، اسلامی حمیت اور یورپ وامریکہ سے بے پناہ نفرت اور اس کی پاداش میں اپنے ہی مسلم حکم رانوں کی طرف سے ان پر ظلم و ستم کی داستاں سنتے ہیں تو دل کڑھتا ہے اور یہی واضح ہوتا ہے کہ ذلت و رسوائی کا یہ لباس خود اپنا اختیارکردہ ہے، وہ غیرت مند، باحمیت، بلند کردار اور رسول عربی کے سچے غلام خلفاء و سلاطین تھے جنہوں نے یہودو نصاریٰ کو کبھی قابل اعتبار دوست نہیں جانا، کبھی ان کے وعدوں اور معاہدوں پر بھروسہ نہیں کیا، ہمیشہ چوکنا رہے، اپنے دفاعی امور کو مستحکم بنانے پر توجہ دی، اس لیے کہ ان کو قرآن کی حق بیانی اور اللہ رب العالمین کے ارشادات کا یقین تھا، قرآن بار بار مختلف انداز میں خبردار ہے کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے عہدوپیمان کرنے میں محتاط رہو، ان کو اپنا قریبی معتمد دوست مت بناوٴ، یہ تم کو نقصان پہنچانے سے کبھی بھی باز نہیں آئیں گے، ان کو جب بھی اپنا رازدار بناوٴگے، ان پر اعتماد کروگے، دھوکہ کھاوٴگے، یہ فطری طور پر باطل پرست اور اللہ کے دشمن ہیں، لہٰذا ایمان کی وجہ سے تمہارے بھی دشمن ہیں ،ان کی دوستی ظاہری ہے۔ یہ مفادپرست، خودغرض دوست ہیں۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّةِ ﴾․(سورہ ممتحنہ آیت:1)
ترجمہ:”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں (کافروں) کو دوست نہ بناوٴ کہ ان کو پیغام دوستی بھیجو۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ ﴾․ (سورہ المائدہ آیت :51)
ترجمہ:”اے ایمان والو! یہودونصاریٰ کو دوست مت بناوٴ کیوں کہ وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور (مسلمانوں سے ان کو کوئی ہم دردی نہیں) جو ان کو اپنا دوست و حلیف بنائے گا وہ انھیں میں شمار ہوگا۔“

﴿اَّ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّہِ فِیْ شَیْْء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَاةً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفْسَہُ وَإِلَی اللّہِ الْمَصِیْر﴾ (سورہ آل عمران:28)
ترجمہ:”مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو دوست نہ بنائیں ،مسلمانوں کو چھوڑ کر اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والا نہیں ہوگا، مگر ایسی صورت میں (سیاسی ظاہری دوستی کی اجازت ہے) کہ تم اس سے کسی قسم کا اندیشہ رکھتے ہو اور اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“

ان چند آیات میں سب کچھ بتادیا گیا اور سیاسی و دفاعی نقطہٴ نظر سے معاہدہ کرنے، تعلقات بنانے کی اجازت بھی دی گئی ہے، مگر انھیں کو اپنا مخلص اور ہمدرد مان لینا جیسا کہ آج کے حکم رانوں کی حالت ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر ہے کہ اپنے اقتدار کے لیے امریکہ سے مدد کی بھیک مانگتے ہیں، امریکہ کی تمام پالیسیوں کو نافذ کرتے ہیں، اپنے سیاسی حریفوں اور دین پسند لوگوں کی فہرست اور بایوڈیٹا سی ․آئی․اے کے سپرد کرتے ہیں، امریکہ و یورپ کے کہنے پر اسلام پسندوں کو ہلاک کرتے ہیں، دینی مدارس اور اسلامی تنظیموں پر پابندی لگاتے ہیں، امریکہ کے کہنے پر اپنے مدارس اور اسکولوں کا نصاب تیار کرتے ہیں، یہ دوست سے بڑھ کر غلام اور ایجنٹ کا رول ادا کرتے ہیں۔ مغربی تہذیب، مغربی افکار، مغربی نظریات میں سب کچھ ہے۔

اس موقع سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ تاریخی جملہ یاد کرنا چاہیے کہ انھوں نے شام کے سفر کے موقع پر اپنے سپہ سالاروں اور شامی شیروں کے اس مشورہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ امیرالموٴمنین ملک شام کے باشندے ہمیشہ قیصر روم کے تابع رہے ہیں ،وہ امیروں، وزیروں، سرداروں کے سلسلہ میں خودنمائی، جاہ و جلال اور ظاہری رعب و دبدبہ دیکھنے کے عادی ہیں، لہٰذا آپ اس سادہ عربی لباس کی جگہ کوئی عمدہ لباس زیب تن فرمالیں تو فاروق اعظم کا تاریخی جواب یہ تھا۔

”انکم کنتم اذل الناس فاعزکم اللّٰہ بالاسلام، فمھما تطلبوا العز بغیرہ یذلکم اللّٰہ“․ (البدایة والنہایة ج7/60)

تم سب سے زیادہ ذلیل افراد تھے، پھر اللہ نے تمہیں اسلام کی بدولت عزت بخشی، لہٰذا جب بھی تم اسلام کے بغیر کسی اور راہ سے عزت و عظمت کے طالب بنوگے… اللہ تم کو ذلیل کردے گا۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہم مسلمان ذلت و رسوائی کا سامنا کررہے ہیں، ہم اسلام کے نام پر عزت کیا تلاش کرتے، بجائے اس کی عظمت وسر بلندی کے لیے کوششیں کرتے اپنے غیرمسلم آقاوٴں کے حکم پر اسلام ہی کی بیخ کنی میں سرگرم ہیں۔

عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ کراچی)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں