روزے کی برکت سے انسان کی اصلاح و مغفرت ہوتی ہے

روزے کی برکت سے انسان کی اصلاح و مغفرت ہوتی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے روزے کو اوامر و نواہی کے مجموعے پر عمل کرنے کا نام دیتے ہوئے کہا اس عظیم عبادت کی برکت سے انسان کی مغفرت ہوتی ہے اور وہ ایک اندرونی تبدیلی محسوس کرے گا۔

چارجولائی دوہزار چودہ کے خطبہ میں مولانا عبدالحمید نے کہا: روزہ صرف ایک عبادت کا نام نہیں، بلکہ بعض کاموں سے پرہیز اور بعض دیگر کاموں کو بجالانے سے روزہ مکمل ہوتاہے۔ جب ایسا کیاگیا تب ہمارا روزہ صحیح اور موثر ہوگا۔ ایسے ہی روزے سے اللہ تعالی راضی ہوگا اور اس سے قیامت کو ہماری سفارش ہوگی۔

انہوں نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے رمضان المبارک میں قرآن پاک کو نازل فرمایا، اگر مسلمان اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا وآخرت میں کامیابی ان کے قدموں کو چھومے گی۔قرآن پاک ہی کی برکت سے مکہ ومدینہ شہرت پاگئے اور ان کی قدر بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک وحی اور قرآن کی منزل بنا تو آپ ’سید ولد آدم‘ بن گئے۔ اس امت کا مقام بھی قرآن کی بدولت اونچا ہوچکاہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بڑھ کر افضل وبرتر ہے، وجہ اس رات میں قرآن مجید کا نزول ہے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے روزے کو قرآن پاک کے بہترین پروگراموں میں شمار کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے روزے کو رمضان میں فرض فرمایا تاکہ ہماری اصلاح فرمائے۔ رمضان میں بھوک اور پیاس اللہ کی رحمتیں ہیں۔ رمضان المبارک ایک موقع ہے تاکہ انسان اپنی اصلاح کرائے ۔ روزے کی برکت سے انسان تلاوت، ذکر، نماز اور انفاق جیسی عبادات کی برکت سے نفس امارہ پر قابو پاتاہے۔ اگر روزے کا حق ادا کیاجائے تو انسان کی مغفرت و بخشش اور اصلاح یقینی ہے۔

اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: رمضان المبارک میں پرخوری اور کھانے میں افراط سے گریز کیاجائے۔ افطاری کے وقت آپ کی نگاہیں دسترخوان پر نہ ہوں بلکہ آپ اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور دعا کرکے اللہ سے رازونیاز کریں۔ اللہ سے اپنی دنیا وآخرت کی کامیابی وسعادت مانگ لیں۔ روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن مجید، ذکراللہ، نوافل اور صدقہ جیسی عبادتوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سخی تھے مگر رمضان میں زیادہ خرچ فرماتے۔ لہذا نادار لوگوں، یتیموں اور بیواووں کو مت بھولیں اور دینی مدارس اور ائمہ مساجد کے ساتھ بھی تعاون کریں۔

موجودہ حالات میں عالم اسلام کو نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے
ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں عالم اسلام کے آشفتہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلم حکام کو ایک نئے موقف اور حکمت عملی اپنانے کی دعوت دی۔

انہوں نے کہا: عالم اسلام میں انتہاپسندی اور شدت پسندی کا وجود ناقابل انکار ہے اور اسی بلا کے نتیجے میں مسلم امہ متعدد مسائل اور خطرات سے دوچار ہے۔ مغرب سمیت دیگر غیرمسلم ممالک میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کا چرچا ہے اور لوگ جوق درجوق مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں۔ دوسری جانب عالم اسلام میں بھی اسلامی بیداری کی لہر اٹھ چکی ہے؛ ایسے میں اسلام دشمن عناصر زیادہ سرگرم ہوتے ہیں۔ اسلام کے دشمنوں کی کوشش ہے مسلمان آپس میں دست وگریبان ہوں تاکہ اسلام کے پھیلاو کا انسداد آسان ہو۔

خطیب اہل سنت نے ’مذہبی، لسانی اور قبائلی لڑائیوں‘ کے ابھار اور شدت کو اسلام دشمن عناصر کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا: عالمی سامراجی طاقتوں کے لیے مسلمانوں کی بیداری کی لہر ناقابل قبول ہے۔ اسی لیے وہ اندرونی لڑائیوں کو شدت دیتے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے درپے ہیں۔ عراق کے حالات نے بھی تمام مسلمانوں کو پریشان کیاہے۔ عراق اب تقسیم کے خطرے سے دوچار ہوچکاہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ اہم ملک کمزور ہوجائے گا۔

عراقی علمائے کرام، دانشوروں اور سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے رکن ’عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین‘ نے کہا: میرا پیغام عراقی قوم اور ان کے علما، دانشوروں اور سیاستدانوں کے نام یہ ہے کہ اپنے ملک کو تقسیم سے بچائیں۔ جب عراق متحد ہوگا تب ایک طاقت ور ملک ہوسکے گا۔ اگر عراق تقسیم ہوا اور شیعہ وسنی، عرب وکرد اور ترکمن ساتھ نہ بیٹھ سکے تو اسرائیل سمیت دیگر استعماری طاقتیں خوش ہوں گی۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: مسلمانوں کو چاہیے ایک دوسرے کو برداشت کریں اور رواداری و مکالمے سے اپنے مسائل حل کرائیں۔ لڑائی اور تشدد ہرگز کسی حل اور کامیابی تک پہنچنے کے راستے نہیں ہیں۔ رواداری اور مذاکرات کی راہ اختیار کریں۔ یہ بہت بڑی کم بختی و شامت ہے کہ مختلف اقوام، مسالک ومذاہب اور گروہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرسکیں۔ جو دوسروں کو برداشت کرتے ہیں وہ تہذیب یافتہ ہیں۔ میرا خیال ہے جو دوسروں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ تہذیب اورثقافت وتمدن سے عاری لوگ ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: جس طرح انتہاپسندی و شدت پسندی مسلمانوں اور عالم اسلام کے لیے خطرناک ہیں، بالکل اسی طرح تنگ نظری اور کوتہ بینی کسی معاشرے اور ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے لوگ دوسروں کو کسی حق کا مستحق نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا نقصان انتہاپسندوں سے کم نہیں ہے۔ لہذا سب کی نگاہیں ’قومی‘ و ’اسلامی‘ ہونی چاہییں۔ کوئی محض اپنے گروہ، فرقہ اور قومیت کے خاطر فیصلہ نہ کرے؛ سب کے مفادات اور حقوق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ کسی کو سنی یا شیعہ ہونے کی وجہ سے اس کے حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں مسلم ممالک کے سربراہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: بندہ اس چھوٹے سٹیج سے مسلم حکام اور علما ودانشوروں کو ندا دیتاہے، آپ شیعہ ہوں یا سنی عرب ہوں یا عجم، آپ کا تعلق جس مسلک اور قومیت سے ہو، موجودہ حالات کے تناظر میں اپنا موقف تبدیل کریں اور نئی حکمت عملی اختیار کریں۔ مختلف حالات کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں؛ موجودہ حالات میں رواداری اور باہمی گفت وشنید کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ جن ممالک میں سیاسی بحران ہے وہاں قومی حکومت بنانے سے مسائل پر قابو پایاجاسکتاہے۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں