رویت ھلال

رویت ھلال

حدثنا یحیی بن بکیر قال: حدثنی اللّیث، عن عقیل، عن ابن شھاب، قال: اخبرنی سالم بن عبداللہ بن عمر ان ابن عمر رضی اللہ عنھما قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: «اذا رایتموہ فصوموا، و اذا رایتموہ فافطروا، فان غم علیکم فاقدروا لہ»۔

و قال غیرہ عن اللّیث: حدثنی عقیل و یونس: لھلال رمضان۔

 

ترجمہ: ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو افطار کرو، اگر تم پر بدلی چھائی ہو تو اس کا اندازہ کرو۔

مسئلہ رویت ھلال
’’اذا رایتموہ فصوموا، و اذا رایتموہ فافطروا‘‘۔
جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو۔
اس سے علماء کرام نے استدلال کیا ہے کہ ثبوت ہلال رؤیت ہی سے ہوگا، حسابات سے ہلال کا ثبوت نہیں ہے بلکہ اعتبار رؤیت کا ہے۔ اس لئے حسابات کے نتائج اور آلات رصدیہ سے حاصل شدہ معلومات کو اگر بالکل یقینی سمجھا جائے جب بھی احکام شرعیہ میں ان کی مداخلت بجائے مفید ہونے کے مضر اور مسلمانوں کے لئے سخت مشکلات پیدا کرنے والی ہیں، اور اگر ان حسابات اور آلات کے نتائج قطعی اور یقینی ہوتے تو ماہرین فن کے اختلاف رائے کا کوئی احتمال نہ رہتا۔
سائنس کی نئی ترقیات اور فن ریاضی و فلکیات کی جدید ترقیات کا آج کی دنیا میں بڑا ہنگامہ ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ بہت سی نئی تحقیقات نے پرانے فلسفے اور ریاضی کے اصول کی دھجیاں بکھیردیں اور اس کے خلاف مشاہدہ کرادیا، لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آج ایک محقق ماہر نے جو کچھ کہہ دیا وہ حرف آخر ہے اس کی تغلط آئندہ کوئی نہیں کرسکے گا۔ آیندہ کو چھوڑ کر اسی موجودہ دور میں اسی درجہ کے دوسرے ماہرین اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
مثلا چوتھی صدی ہجری کا مشہور اسلامی فلاسفر اور ماہر نجوم و فلکیات ابو ریحان البیرونی جو شہاب الدین غورہی کے زمانہ میں ایک مدت دراز تک ہندوستان میں بھی رہا اور فنون کا بے نظیر امام مانا جاتا ہے، اسی نئی روشنی اور نئی تحقیقات کے دور میں بھی اس کی امامت سب کے نزدیک مسلّم ہے، روسی ماہرین نے اس کی تحقیقات سے راکٹ و غیرہ کے مسائل میں بڑا کام لیا ہے، ان کی مشہور کتاب ’’الآثار الباقیۃ عن القرون الخالیۃ‘‘ ایک جرمن ڈاکٹر سی ایڈورڈ سخاؤ کے حاشیہ کے ساتھ لیزک میں چھپ کر شائع ہوئی ہے، اس میں الآت رصدیہ کے ان نتائج کے غیر یقینی ہونے کے مسئلہ کو تمام ماہرین فن اجماعی اور اتفاقی نظریہ بتلایا ہے۔ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالے ’’رؤیت ہلال‘‘ میں ان کی جو عبارت نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
(علماء ریاضی و ہیئت اس پر متفق ہیں کہ رؤیت ہلال کے عمل میں آنے کے لئے جو مقداریں فرض کی جاتی ہیں وہ سب ایسی ہیں جن کو صرف تجربہ ہی سے معلوم کیا جاسکتا ہے اور مناظر کے احوال مختلف ہوتے ہیں جن کی وجہ سے آنکھوں سے نظر آنے والی چیز کے سائز میں چھوٹے بڑے ہونے کا فرق ہوسکتا ہے اور فضائی و فلکی حالات ایسے ہیں کہ ان میں جو بھی ذرا غور کرے گا تو رؤیت ہلال ہونے یا نہ ہونے کا کوئی قطعی فیصلہ ہرگز نہ کرسکے گا۔
اور ’’کشف الظنون‘‘ میں بحوالہ زیج شمس الدین محمدبن علی خواجہ کا چالیس سالہ تجربہ یہی لکھا ہے کہ ان معاملات میں کوئی صحیح اور یقینی گوئی نہیں کی جاسکتی جس پر اعتماد کیا جاسکتے۔)
جب یہ ثابت ہوگیا کہ رصدگاہوں اور آلات رصدیہ کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات بھی رؤیت ہلال کے مسئلہ میں کوئی یقینی فیصلہ نہیں کہلا سکتی بلکہ وہ بھی تجرباتی اور تخمینی معاملہ ہے تو اس اصول کے حکیمانہ اصول ہونے کی اور بھی تائید ہوگئی جو رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں اختیار فرمایا ک ان کاوشوں اور باریکیوں میں امت کو الجھائے بغیر بالکل سادگی کے ساتھ رؤیت ہونے یا نہ ہونے پر احکام شرعیہ کا مدار رکھ دیا جس پر ہر شخص ہر جگہ ہر حال میں آسانی سے عمل کرسکے۔
اب آگے اس میں کلام ہوا ہے کہ رؤیت کا کیا مطلب ہے؟ کیا ہر شخص کا دیکھنا ضروری ہے؟
ظاہر ہے یہ تو مطلب ہے نہیں، تو پھر رؤیت کس حد تک معتبر ہے تو اس میں ائمہ ثلاثہ کا مذہب یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور جہاں مطلع مختلف ہے تو وہاں ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ کے لئے کافی نہیں ہوگی ’’لکل اھل بلد رؤیتہ‘‘ یہ ائمہ ثلاثہ کا مذہب ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک جگہ کی رؤیت اگر شرعی طریقہ سے ثابت ہو جائے تو وہ دوسری جگہ کے لئے بھی حجت ہے، چنانچہ فقہاء حنفیہ نے فرمایا کہ اگر اہل مغرب نے چاند دیکھ لیا تو وہ اہل مشرق کے لئے بھی حجت ہو گا۔
البتہ حافظ زیلعی رحمہ اللہ نے متأخرین حنفیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار بلادِ نائیہ میں کیا جائے گا اور بلاد قریبہ میں نہیں کیا جائے گا، یعنی قریب کے شہروں میں نہیں دور کے شہروں میں اعتبار ہوگا۔ دور کا اگر بہت زیادہ فاصلہ ہے تو وہ کہتے ہیں کہ گویا حنفیہ کے نزدیک بھی ائمہ ثلاثہ کے قول پر عمل ہوگا کہ اختلاف مطالع معتبر ہے، اور حضرت والد صاحب رحمہ اللہ نے حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے حوالے سے قرب و بُعد کی یہ تفصیل لکھی ہے کہ اگر وہاں کی رؤیت کا اعتبار کرنے سے مہینہ اٹھائیس دن کا رہ جائے یا اکتیس دن کا ہوجائے تو وہ بعید سمجھا جائے گا، لیکن یہ قول متأخرین کا ہے اور ظاہر الروایہ حنفیہ کی یہی ہے کہ اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے، ساری دنیا میں کسی ایک جگہ بھی چاند دیکھ لیا جائے اور دوسری جگہ اس کا ثبوت شرعی طریقہ پر ہوجائے تو ثبوت ہلال ہوجائے گا۔
لیکن اصل میں گڑبڑ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اختلاف مطالع کا مطلب ہی نہیں سمجھتے، جس کی وجہ سے خرابی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے بڑا خلجان ہوا ہے۔
اصل میں اختلاف مطالع کا معتبر نہ ہونا ایک اسی بدیہی سی حقیقت ہے کہ اس سے انکار کرنا مشکل ہے اور سمجھ لو کہ اختلاف مطالع ہوتا کیسے ہے؟
اختلاف مطالع سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جگہ اگر دور ہے تو مطلع مختلف ہوگا اور اگر قریب ہے تو مطلع متحد ہوگا حالانکہ حقیقت یہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی چاند اُفق پر طلوع ہوتا ہے تو وہ اپنے دیکھنے والوں کے حساب سے زمین پر ایک قوس بناتا ہے جو شخص اس قوس کے اندر ہوگا وہ چاند دیکھ سکے گا اور جو قوس سے باہر ہوگا وہ چاند نہیں دیکھ سکے گا، مثال کے طور پر یہ سمجھ لو جیسے چاند طلوع ہوا اور یہ ڈیسک کی طرح جو رقبہ ہے وہ قوس، جس میں کہ چاند دیکھا جاسکتا ہے تو ایک آدمی ڈیسک کے ایک کونے پر کھڑاہے اور ایک آدمی ڈیسک کے دوسرے کونے پر کھڑا ہے اور دونوں کے درمیان ہزارہا میل کا فاصلہ ہے مگر دونوں کے لئے مطلع متحد ہے اس واسطے کہ دونوں قوس کے اندر ہیں اور چاند کو دیکھ رہے ہیں اور ایک آدمی یہاں اندر کھڑا ہے اور دوسرا باہر تو دونوں کے درمیان ہوسکتا ہے کہ ایک میل کا بھی فاصلہ نہ ہو لیکن مطلع مختلف ہوگیا۔
اس کی ایک حسّی مثال لیجئے کہ دارالعلوم کے باہر ایک اونچی سی ٹنکی لگی ہوئی ہے تو اس کو دیکھتے چلے جائیں یہ دور تک نظر آئے گی اور نظر آتی رہے گی یہاں تک کہ ایک نقطہ ایسا آئے گا کہ نظر آنی بند ہوجائے گی، جہاں وہ آخری بار نظر آئی اور پھر دور قائد آباد (مشرق) کی طرف چلے جائیں تو یہاں بھی دور تک نظر آتی رہے گی اور جہاں آخری بار نظر آئے گی تو یہ دونوں کا مطلع ایک ہے جبکہ دونوں کے درمیان چار پانچ میل کا فاصلہ ہے لیکن جہاں آخری بار نظر آئی اور اس سے آگے جہاں نظر نہیں آرہی تو ان کے درمیان ہوسکتا ہے ایک ہی گز کا فاصلہ ہو لیکن دونوں کا مطلع مختلف ہے تو معلوم ہوا کہ مطلع کے اتحاد اور اختلاف کا تعلق فاصلے کی کمی اور زیادتی پر نہیں بلکہ نظر آنے کی صلاحیت پر ہے، پھر اگر یہ ہوتا کہ دائمی طور پر چاند ایک ہی قوس بناتا کہ جب بھی طلوع ہوتا تو ساری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا اور ایک حصہ میں نظر آتا اور دوسرے حصے میں نظر نہیں آتا تو بھی معاملہ آسان تھا کہ حساب لگا کر دیکھ لیتے کہ قوس میں کون کون سا ملک آرہا ہے اور کون سا نہیں آرہا، جو آرہا ہے اس کو کہتے کہ اس کا مطلع متحد ہے اور جو نہیں آرہا اس کو کہتے کہ اس کا مطلع مختلف ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب چاند طلوع ہوتا ہے تو وہ زمین پر نئی قوس بناتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جو ممالک یا جو علاقے پچھلے مہینے اس قوس میں داخل تھے تو ہوسکتا ہے کہ اس مہینے میں وہ سب خارج ہوئے ہوں اور نئے علاقہ قوس میں آگئے ہوں اور ہر ماہ اسی طرح یہ قوس بدلتی رہتی ہے، لہذا کوئی دائمی فارمولہ ایسا وضع نہیں کیا جاسکتا کہ یوں کہا جائے کہ کراچی اور حیدرآباد کا مطلع تو ایک ہے اور کراچی اور لاہور کا مختلف، بلکہ ہر مرتبہ نئی صورتحال پیدا ہوتی ہے، لہذا اختلاف مطالع کو اگر معتبر مانا جائے جیسا کہ ائمہ ثلاثہ فرماتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ کورنگی میں چاند نظر آئے تو صدر والوں پر حجت نہ ہوتا چاہئے اور اگر اختلاف مطالع کو بالمعنی الحقیقی معتبر مانا جائے تو ایک شہر میں بھی ایک آدمی کی رؤیت دوسرے کے لئے کافی نہ ہونی چاہیے لیکن یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور ہدایات کے خلاف ہے۔
چنانچہ سنن ابی داؤد میں واقعہ مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں چاند دیکھا تو نظر نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمادیا کہ آج چاند نظر نہیں آیا، اگلے دن عصر کے بعد ایک قافلہ آیا اور اس نے کہا کہ ہم نے کل شام مغرب کے وقت چاند دیکھا تھا تو چوبیس گھنٹے بعد آکر انہوں نے شہادت دی تو چوبیس گھنٹے تک چاند دیکھنے کے بعد وہ سفر میں رہے تو یہ تقریبا ایک مرحلہ کا سفر ہوگا اور ایک مرحلہ تقریبا سولہ سے بیس میل تک کا فاصلہ ہوتا ہے تو وہاں کی رؤیت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے حجت قرار دیا، اگر اختلاف مطالع معتبر ہوتا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رؤیت کو اہل مدینہ کے لئے حجت قرار نہ دیتے، تو معلوم ہوا کہ اختلاف مطالع کا عدم اعتبار ہی صحیح مسلک ہے جو حنفیہ نے اختیار کیا اور جو ان کی ظاہر الروایۃ ہے۔
متأخرین حنفیہ نے بلادِ نائیہ اور بلاد قریبہ کا جو فرق کیا ہے، یہ اختلاف مطالع کی حقیقت کے خلاف ہے اس لئے کہ بلاد نادئیہ اور قریبہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لہذا حنفیہ کی ظاہر الروایۃ یہی ہے کہ ساری دنیا میں کسی ایک جگہ بھی چاند نظر آجائے تو دوسرے اہل دنیا کے لئے وہ حجت ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس کا ثبوت دوسری جگہ شرعی طریقہ سے ہوجائے، اور اگر اس اصول پر آج تمام ممالک متفق ہوجائیں تو پھر مہینہ کے اٹھائیس یا اکتیس دن کے ہونے کا سوال بھی باقی نہ رہے اور مختلف ملکوں میں انتشار بھی ختم ہوجائے۔

ثبوت کا صحیح طریقہ
ایک تو یہ ہے کہ شہادت ہو، آدمی آکر چاند دیکھنے کی شہادت دیں اور آج کل یہ مشکل نہیں رہا، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں کا آدمی دیکھ کرگیا اور جا کر امریکہ میں شہادت دے دی، اس واسطے کہ یہاں اور امریکہ میں دس گھنٹے کا فرق ہے اور امریکہ کے بعض علاقوں میں بارہ تیرہ گھنٹے کا فرق ہے تو شہادت کی بنیاد پر رؤیت ہلال کا ثبوت ہوسکتا ہے۔
دوسرا طریقہ شہادت نہ ہو تو شہادت علی الشہادۃ سے بھی رؤیت ہلال کا ثبوت ہوسکتا ہے۔
تیسرا طریقہ یہ کہ شہادت علی القضاء ہو کہ ایک قاضی نے ایک جگہ ثبوت ہلال کا فیصلہ کردیا، اب کوئی شخص اس بات کی شہادت دے کہ میں گواہی دیتا ہوں کی فلاں جگہ پر قاضٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے۔
چوتھی چیز استفاضہ خبر ہے تو اس سے بھی رؤیت ہلال کا ثبوت ہوجاتا ہے، اور یہ سب عید کے چاند کی بات ہے، البتہ رمضان کے لئے تو ایک آدمی کی خبر بھی کافی ہے لیکن عید میں استفاضہ خبر بھی شہادت کے قائم مقام ہوتاہے۔
استفاضہ خبر کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کی خبریں آگئیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے اور اتنے لوگوں کی خبریں آگئیں کہ ان کے اوپر اطمینان ہوگیا کہ ہاں یہ صحیح بات کہہ رہے ہیں تو اس صورت میں استفاضہ خبر سے بھی چاند کا ثبوت ہوجاتا ہے۔
اس ساری تشریح سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر سارے مسلمان چاہیں تو ساری دنیا میں ایک دن روزہ اور ایک دن عید ہوسکتی ہے، کیونکہ ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ کے لئے کافی ہے اور آج کل کے ذرائع مواصلات میں یہ بات کوئی مشکل نہیں رہی کہ استفاضہ خبر کے ذریعے ثبوت دوسری جگہ فراہم کردیا جائے، ٹیلی فون کا معاملہ یہی ہے، ٹیلی فون پر گواہی تو نہیں ہوتی، لیکن اگر ٹیلی فون مختلف اطراف سے اتنی تعداد میں تعداد میں آجائیں جو اطمینان پیدا کردیں تو وہ استفاضہ خبر کے حکم میں آجاتا ہے اور استفاضہ خبر کے ذریعے دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے پر خبر پہنچائی جاسکتی ہے تو ایک ہی دن میں ساری دنیا میں روزہ اور عید ہوسکتے ہیں، لیکن ہوتا کیوں نہیں؟
اور حد یہ ہوجاتی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں دو دو دن کا فرق ہوجاتاہے حالانکہ دو دن کا فرق عقلا ممکن ہی نہیں بلکہ مستحیل ہے، زیادہ سے زیادہ اگر فرق ہوسکتا ہے تو ایک دن کا ہوسکتا ہے اور در حقیقت سعودی عرب نے گڑبڑ پیدا کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مسئلہ الجھا ہوا ہے اور اگر سارے مسلمان متفق ہوجائیں کہ کعبہ جو مرکز اسلام ہے وہ سعودی عرب میں ہے تو وہاں کی رؤیت کو ساری دنیا کے لئے معتبر مان لین اور ایسا کرنا چاہیں تو بالکل کرسکتے ہیں اور اس میں کوئی مانع شرعی موجود نہیں ہے لیکن گڑ بڑ اس لئے واقع ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں رؤیت ہلال کا جو نظام ہے وہ دنیا سے نرالا ہے اور کی وجہ سے کافی مسائل پیدا پوجاتے ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ رؤیت ہلال حسابات سے ثابت نہیں ہوسکتا، یہ بات تو موجودہ زمانے میں تقریبا اکثر علماء مانتے ہیں۔
لیکن دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا حسابات کے ذریعے سے ہلال کی نفی ہوسکتی ہے؟ یعنی اگر کسی دن حساب کی رو سے چاند کا نظر آنا یا افق پر ہونا عقلا محال ہو اور پھر بھی کوئی شخص شہادت دے دے کہ میں نے آج چاند دیکھا ہے تو آیا وہ شہادت متعبر ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر یہ بات طے شدہ ہے علم فلکیات کی رو سے چاند ولادت کے بعد اٹھارہ گھنٹے تک نظر آنے کے قابل نہیں ہوتا اور ولادت ہلال کے اٹھارہ گھنٹے بعد وہ قابل رؤیت ہوتا ہے اور ولادت کے کیا معنی ہیں؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ چاند کا محاق میں آجانا اور بعض لوگ کہتے ہیں محاق سے نکل جانا، بہر حال ولادت کے اٹھارہ گھنٹے بعد تک چاند قابل رؤیت نہیں ہوتا اور اگر ابھی تک ولادت ہوئی ہی نہ ہوتو پھر قابل رؤیت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر چاند کی ولادت ہی نہیں ہوئی اور دو آدمیوں نے آکر گواہی دے دی کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے، تو آیا یہ شہادت معتبر ہوگی یا نہیں؟
تو سعودی عرب کے علماء کا کہنا یہ ہے کہ ولادت ہلال نہ ہونے کے باوجود چونکہ ہمیں شہادت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، لہذا ہم شہادت پر عمل کرتے ہیں، چاہے حساب کی رو سے اس وقت چاند کا نظر آنا ممکن ہی نہ ہو، اور ہماری فقہ کی کتابوں میں اسی کے مطابق مسئلہ لکھا ہے کہ اگر ۲۹ تاریخ کی صبح کو چاند نظر آیا، پھر اسی شام کو رؤیت ہلال شہادت آگئی تو وہ شہادت معتبر ہوگی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فلکی حساب کا نفی میں بھی اعتبار نہیں ہے، لیکن اس وقت بیشتر علماء عصر کا کہنا یہ ہے کہ جب عقلا ممکن ہی نہیں ہے تو ایسی صورت میں جو شہادت پیش ہو رہی ہے وہ شہادت مہتم ہے اور مہتم ہونے کی وجہ سے وہ شہادت معتبر نہیں ہونی چاہئے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ بھی نہیں کرنا چاہئے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ فقہاء کرام نے فرمایا کہ اگر مطلع صاف ہوتو اس وقت ایک یا دو آدمیوں کی شہادت معتبر نہیں جب تک کہ جمِ غفیر شہادت نہ دیدے، اس لئے کہ جب مطلع صاف تھا تو پھر ایک دو آدمیوں کو ہی کیوں نظر آیا بلکہ زیادہ آدمیوں کو نظر آنا چاہئے تھا تو جب صرف دو آدمیوں کو نظر آیا تو ان کی شہادت مہتم ہوگئی اور اب صرف ان کی شہادت کا اعتبار نہیں جب تک کہ جمِ غفیر شہادت نہ دیدے، تو محض مطلع صاف ہونے کی صورت میں دوسروں کو نظر نہ آنے کی وجہ سے فقہاء کرام نے جمِ غفیر کی شرط لگا دی تو جہاں بلکل ہی چاند کا نظر آنا ناممکن ہو وہاں پر جمِ غفیر کی شرط بطریق اولیٰ ہونی چاہئے اور صرف دو آدمیوں کی شہادت مقبول نہ ہونی چاہئے اور بہت سے علماءِ عصر کا یہی مؤقف ہے اور ہمارا بھی رجحان اسی طرف ہے۔
لیکن سعودی عرب میں چونکہ مؤقف وہ ہے کہ حساب کا نفی میں بھی اعتبار نہیں ہے، نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہاں پر بکثرت یہ صورتحال ہوتی ہے کہ چاند ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا اور شہادتیں آگئیں، رمضان شروع ہوگیا اور عید ہوگئی اور سعودی عرب کے مقابلے میں دوسرے ممالک میں دو دو دن کا فرق ہوجاتا ہے اور چونکہ ہم یہ مؤقف صحیح نہیں سمجھتے، اس لئے اس پر عمل نہیں کرتے ورنہ سیدھی سی بات یہ تھی کہ سعودی عرب کے فیصلے پر ہم خود بھی پاکستان میں عمل کرتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ اس موقف کو صحیح نہیں سمجھتے تو پھر حج کا کیا ہوگا؟
لوگ حج تو سعودی عرب ہی کے حساب سے کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسئلہ چونکہ مجتہد فیہ ہے اس لئے ان کا قول وہاں ان کے اپنے ملک میں تو نافذ ہوجاتا ہے جب وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر حج اور قربانی سب کچھ درست ہوجاتی ہیں، لیکن ہم اپنے ملک میں مختار ہیں کہ چاہیں ان کے قول کولیں یا نہ لیں، تو اگر ہم ان کے قول کو نہیں لے رہے اس وجہ سے کہ ان کے قول کو درست نہیں سمجھتے تو اس کی گنجائش ہے لیکن اگر کوئی ان کے قول کولے تو چونکہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے اس لئے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے خطاء صریح یا گمراہی کا ارتکاب کیا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جن ملکوں میں خود اپنے طور پر رؤیت ہلال کا انتظام نہیں مثلا بہت سے مغربی ممالک ایسے ہیں جہاں پر بہت شاذ و نادر ہی چاند نظر آتا ہے، کیونکہ وہاں اکثر بادل چھائے رہتے ہیں تو وہ دوسرے ملکوں کی رؤیت کا اعتبار کرنے پر مجبور ہیں تو وہاں اگر مسلمانوں میں اختلاف ہورہا ہے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے سعودی عبر کو اگر معیار بنایا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر کہہ دیا جائے کہ جب وہاں عید ہوگی اس دن ہم بھی یہاں عید کریں گے تو اس کی گنجائش ہے۔
پاکستان میں رؤیت ہلال کمیٹی کا جو انتظام ہے وہ بحثیتِ مجموعی شریعت کے ضابطے کے مطابق ہے تو لوگوں کو چاہئے کہ جو کچھ بھی شکایت ہو یا جو کچھ اختلاف ہو تو اس کا اظہار کرے، اس کی کوئی وجہ نہیں کہ رؤیت ہلال کمیٹی کو تو خیر دی نہیں کہ ہمارے ہاں شہادتیں آئی ہیں اور خود اپنا اعلان کردیا، رؤیت ہلال کمیٹی کو جب شہادتیں ملیں تو مرکزی ہلال کمیٹی تک ان شہادتوں کو پہنچانے کا انتظام کیا جائے تا کہ متفقہ طور پر فیصلہ ہو جائے، اب لوگ مرکزی ہلال کمیٹی کو شہادتیں نہیں پہنچاتے اور اپنا اعلان کردیتے ہیں اس سے شر پیدا ہوتا ہے، البتہ بعض جگہ ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ کسی نے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے پرواہ ہی نہیں کی تو ایسے موقع پر اختلاف مجبوری ہے۔
اکثر جہاں کہیں اختلاف واقع ہوتا ہے تو وہ کسی نہ کسی فریق کی غلطی سے ہوتا ہے یا تو اختلاف کرنے والے کی غلطی سے اور یا مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی غلطی سے لیکن شریعت کے اوپر اس کا کوئی الزام نہیں اس لئے کہ شریعت نے تو سیدھا سادھا راستہ بتا رکھا ہے اس کے مطابق عمل کرے تو کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص یہاں رہتے ہوئے سعودی عرب کے مطابق عمل کرسکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے سعودی عرب کے مطابق عمل کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ یہاں پر سعودی عرب کے فیصلے کو ولایت حاصل نہیں اور جس کو ولایت حاصل ہے اس نے اس کے مطابق یہاں فیصلہ نہیں کیا، یہاں تو یہاں کی ولایت کے مطابق فیصلہ ہوگا، البتہ اگر افغانستان کی حکومت اس فیصلہ کو اپنے ہاں معتبر قرار دے تو اس کی گنجائش ہے لیکن انفرادی طور پر کسی کو دوسرے ملک کے فیصلے کے مطابق عمل کرنا جائز نہیں۔
اب اس میں ایک بات یہ کہ مثلا سعودی عرب میں کوئی شخص رمضان شروع کرکے آیا اور اکثر میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ رمضان شروع ہوا سعودی عرب میں اور ختم ہوا پاکستان میں تو روزے اکتیس، بتیس ہوجاتے ہیں تو وہ ہوجانے چاہئیں، اس واسطے کہ ’’من شھد منکم الشھر فلیصم‘‘ وہاں شہود شہر پہلے ہوگیا تھا اور یہاں شہودِ شہر دیر میں ختم ہوا، لہذا روزے پورے رکھنے چاہئیں خواہ اکتیس ہوجائیں یا بتیس، باقی بعض اوقات اس کے برعکس ہوجاتا ہے کہ پاکستان میں آدمی روزہ شروع کرکے گیا اور ختم سعودی عرب میں کئے تو اس صورت میں روزے اٹھائیس ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں اس کو ایک روزہ بعد میں رکھ لینا چاہئے۔

سوال یہ ہے کہ اگر کسی جگہ کے علما نے رؤیت ہلال کا فیصلہ کرلیا تو اس کا کیا حکم ہے؟
اس فیصلہ کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ ان کو کوئی ولایت حاصل نہیں، لہذا دوسرے آدمی پر ان کا فیصلہ حجت نہیں اور اگر دوسرا آدمی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر کرے تو اس کے لئے جائز ہے الّا یہ کہ اس دوسرے آدمی کے سامنے شہادتیں گزری ہوں اور اس کو اس فیصلے پر اعتماد ہوتو ان کے قول پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے لیکن علماء کو ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ علماء کو چاہیے کہ وہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ساتھ رابطہ کرکے حتی الامکان امت کو خلفشار سے بچائیں، شریعت نے ہر جگہ مسلمانوں کے خلفشار کو بہت برا سمجھا ہے اور ہر قیمت پر اس سے بچنے کی کوشش کی ہے اور اس کا راستہ یہی ہے کہ جب ایک متحدہ راستہ موجود ہے تو اس سے رابطہ کرو اور اس کی پرواہ نہ کرو کہ ہلال کمیٹی کاچیئرمین بریلوی ہے، دیوبندی ہے یا فلاں لیکن اس کی فکر کرو کہ امت میں خلفشار پیدا نہ ہو اور حتی الامکان اس کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔

افادات شیخ الاسلام مولانا مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ
ضبط وترتیب: محمد انور حسین عفی عنہ
بحوالہ انعام الباری، شرح صحیح البخاری، جلد۵، ص:۹۸۴۔

 


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “رویت ھلال

  1. آپکی ساری تحقیقات کا میں نے مطالعہ کیا اور سمجھا بھی
    اللہ تعالی جزاے خیر کے ساتھ ساتھ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
    میری ایک گزارش ہے کہ
    آج ١٦/٥/٢٠١٨ء
    مطابق
    ٢٩/٨/١٤٣٩ھ
    ہندوستان کے اکثر علاقوں میں 🌒 چاند نظر نہیں آیا
    لیکن بعض ایک دوجگہ کے حوالے سے موبائل فون کے ذریعے خبریں پھیل گئی تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں