رمضان المبارک اور تزکیہ نفس

رمضان المبارک اور تزکیہ نفس

 

انسان عقل ،جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ ان میں روح کو ایک خاص قسم کی فضیلت حاصل ہے۔یہ روح اگر عقل اور بدن کو متوازن نہ رکھے ،بلکہ خود بہکنے لگے یا شیطانی وساوس اور برائیوں کی طرف مائل ہونے لگے تو اس کا اثر انسان کی پوری شخصیت پر ہوگا ۔

پھر وہی انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایاتھا دنیا کا رذیل اور خسیس سمجھا جائے گا اور جسے اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجا تھا وہ نفسانی خواہشات کا غلام بن کر شیطان کی ترجمانی کرنے لگے گا۔
اس لحاظ سے نفسِ انسان کا تزکیہ لازمی ہے تاکہ اس کی شخصیت کا ارتقاء ہواور وہ اللہ کا قرب حاصل کرکے کامیابی کی منزل پاسکے۔
تزکیہ نفس کیا ہے؟
تزکیہ کے دومعانی ہیں:ایک معنی صفائی ،ستھرائی کے ہوتے ہیں جب کہ دوسرانمو ،زیادتی اور ارتقاکے ہیں ۔ ان دونوں معانی کاحاصل یہ ہوا کہ خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت،کبروتفاخر،بخل اور تنگ نظری جیسی گھٹیاصفات سے پاک رکھے اور اپنے اندر صدق وصفا،الفت ومحبت ،شفقت وعنایت ، فراخ دلی وفیاضی جیسی اوصاف حمیدہ کواپنے اندرپیدا کرے اور پروان چڑھائے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اورقریبی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی۔(الاعلیٰ:۱۴)
دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یقیناًفلاح پا گیا (کامیاب ہْوا ) وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (پاک کیا)اور نامراد ہوا وہ جس نے اْسے دبا دیا۔ (آلودہ کیا)۔(الشمس:۹)
ہم سب جانتے ہیں کہ نفس انسان کاسب سے بڑا داخلی دشمن ہے۔ اگر اسے کنٹرول میں نہ رکھا جائے تو وہ اتنا جری ہوجاتاہے کہ خود انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنے مرضی کا شکار بنالیتا ہے اور اس کوسرکشی پر آمادہ کر تاہے،دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کے لیے اکساتا ہے،جو چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے۔یہاں تک کہ انسان اس کا غلام بن کر اس درجہ گرجاتاہے کہ اسے اپنی حیثیت کابھی احساس نہیں رہتی ۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے شرور نفس سے پناہ مانگی ہے۔
نعوذباللہ من شرورانفسنا و من سیات اعمالنا
ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
دوسری جگہ آپ نے نفس کی بہت سی خرابیوں سے اللہ کی پناہ چاہی ہے۔آپ ؐ کاارشادہے:
اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل، والجبن و البخل، والہرم عذاب القبر، اللہم آت نفسی تقواہا ووزکہا انت ولیہا و مولاہا، اللہم انی اعوذبک من علمٍ لا ینفع، و من قلب لا یخشع، و من نفس لاتشبع، و من دعوۃ لا یستجاب لہا‘‘ (مسلم)
مذکورہ طویل روایت درحقیقت دعا پر مبنی ہے۔ جس میں خاص طور سے ان برائیوں سے پناہ مانگی گئی ہے، جو عموماً نفس کے بہکاوے میں آ کرانجام دی جاتی ہیں، جس کا انجام انسان کی رسوائی اور ذلت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔اس لیے جوشخص نفسپر کنٹرول رکھے گا، اسے متقی اوربہت بڑا بہادر سمجھا جائے گا۔ جس کی طرف آپ ؐ کاارشاد ہے:
لیس الشدید بالصرعۃ ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (بخاری)
پہلوان وہ نہیں جو میدان میں کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے۔
علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
’’صوفیاء کرام کا اپنے طریقہ تزکیہ پر اختلاف کے باوجود اس بات پر اتفاق ہے کہ نفس انسانی قلوب کو اپنے پروردگارسے تعلق پیدا کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتاہے۔ اور یہ کہ اللہ سبحانہ تعالی بھی ایسے شخص کے قریب نہیں ہوتا (جس کا نفس حائل ہو)جب تک کہ اسے ہٹانہ دیا جائے یا اس پر قابو نہ پالیا جائے۔‘‘ (اغاثۃ اللہقفان من مصادید الشیطان،ج:۱،ص:78-75)
ماہ رمضان نیکیوں کا موسم بہارہے۔اس ماہ مبارک میں ہمیں تزکیہ نفس کا بھرپور سامان ملتا ہے۔جس میں تطہیرقلب اور تزکیہ نفس کے اسباب وذرائع سے بھرپور استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اس ماہ کی تفصیل بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اذادخل رمضان فتحت ابواب السماء و فی رواےۃ فتحت ابواب الجنۃ و غلّقت ابواب جہنم و سلسلت الشیاطین و فی رواےۃ فتحت ابواب الرحمۃ (متفق علیہ)
’’جب رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوتاہے ، تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (اسی سے متعلق دوسری روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں) اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتاہے کہ اس ماہ مبارک میں انسان کو تزکیہ نفس کے لیے ماحول ملتا ہے ،کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ اگر انسان چاہے تو اس مہینے کے ماحول اور لوگوں کے رجوع الی اللہ کی کیفیت اور نیکی کی طرف دوڑنے کا جذبہ دیکھ کر خود اپنا انفرادی پروگرام بناسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت اور بندگی کے ذریعہ اپنے نفس کی بگڑی ہوئی حالت کو درست کرسکتاہے۔
رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں۔ اللہ تعالی روزے دار کے بالکل قریب ہوتا ہے حتی کہ وہ اپنے بندے کے روزے کو اس درجہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے خالی معدے سے آنے والی بوکو اپنے لیے مشک سے بھی زیادہ عزیز قرار دیتا ہے۔ اگر دیکھاجائے تو روزے کی حالت میں انسان کا ایسا کیا عمل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک وہ کھانا ،پینا اورجنسی تعلق سے بچتاہے۔ مگر بندے کا شدت سے اس کی اطاعت کرنا اوربلاریا ونمود کے صرف اللہ کی خاطرروزے کی پابندی کرنا حتی کہ اس پابندی کے سبب اپنے اوپر اللہ کے تمام احکام کی پیروی کو لازم کرنے کی جوتربیت اس کے ذریعہ ملتی ہے وہ اصل ہے، جو اس عمل کو بہت محبوب بنادیتی ہے۔ اطاعت الہٰی کے لیے نفس کو تیار کرنا یہی تزکیہ ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد ہے:
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔ (بخاری ومسلم)
اس روایت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ روزہ اس لیے نہیں ہے کہ سب رکھ رہے ہیں تو ہم بھی رکھ لیں بلکہ اسے اللہ کا حکم مان کر کہ وہ اس کا اجروثواب عطا کرے گا۔اس نیت کے ساتھ روزہ رکھاجائے تو انسان کے اندر حکم الٰہی کی اطاعت کرنا آسان ہوجاتاہے ،پھراللہ تعالی اس کو ایسی توفیق دیتا ہے کہ پوری زندگی اس کا فرماں بردار بن کر زندگی گزارنے لگتا ہے۔ یہی اس کے پچھلے گناہوں کی معافی کا مطلب ہے۔
رمضان المبارک کے روزے ہمارے نفس کا تزکیہ بایں طور بھی کرتے ہیں کہ ایک انسان جو مالدار صاحب ثروت ہے پھر بھی پورے دن بھوک وپیاس کی شدت سے اسے بھی گزرنا پڑتاہے جس طرح ایک غریب عام دنوں میں کس مپرسی کے ساتھ فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتاہے۔روزہ رکھنے والے کے پاس سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ کھاپی نہیں سکتا۔ یہ درحقیقت اس احساس کے جذبہ کو پروان چڑھاتاہے کہ ایسے غریب لوگوں کی ضرورت پوری کی جائے ، ہم ان کے مشکل وقت میں کام آئیں۔ ان کا ہرطرح سے تعاون کیا جائے ۔بہ حیثیت انسان سب اللہ کے بندے اور آدم کی اولاد ہیں۔ اس لیے باہمی کدورت کو ختم کیاجائے۔ یہی کیفیت انسان کے اندر انفاق کے جذبہ کو ابھارتی ہے اور بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت،کبروتفاخر،بخل اور تنگ نظری ختم کردیتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
کان رسول اللہ ﷺ اجودالناس ، وکان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل، وکان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان یدارسہ القرآن، فلرسول اللہ ﷺ اجود بالخیر من الریح المرسلۃ (مسلم)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ یہ سخاوت ماہ رمضان میں مزید بڑھ جاتی تھی جس وقت آپ کی ملاقات جبریل ؑ سے ہوتی تھی، آپؐ کی یہ ملاقات رمضان کی ہر شب میں ہوتی تھی جس میں ان کے ساتھ قرآن کریم کا دورکرتے ، آپ کی سخاوت آندھی سے بھی تیز ہوتی تھی۔ ‘‘
اس ماہ میں روزے دار کے افطارکا نظم کرنا بھی بڑا کار خیر ہے جومذکورہ خوبیوں کے علاوہ انسان کے اندر اللہ کے محبوب بندوں سے محبت کرنے اور کسی روزے دار کی ضرورت پوری کرنے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من فطر صائما فلہ مثل اجرہ من غیر ان ینقص من اجرالصائم شیء (ترمذی)
’’جس شخص نے کسی روزے دار کو روزہ افطار کرایا اس کے لیے روزے دار کے اجروثواب میں کوئی کمی کئے بغیرروزے دار کے برابر ہی اجر وثواب ہے ۔‘‘
اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت حاصل ہے ۔کیوں کہ اسی ماہ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ آپؐ حضرت جبریل امین کے ساتھ رمضان کی شب میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تراویح میں مسلسل کلام اللہ کی تلاوت ہوتی ہے۔اسی طرح روزہ اور قرآن کو سفارشی بھی قرار دیا گیا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ قرآن کریم تزکیہ نفس کے اسباب میں سے ایک اہم بھی ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی:
’’اور اے ربّ ، ان لوگوں میں خود اِنہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو ، جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘(البقرۃ:129)
قرآن کریم جو پوری انسانیت کے لیے سراپا ہدایت ہے اوررمضان کو قرآن کی مناسبت کے سبب لوگوں میں بکثرت اس کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا جاتاہے۔ مگر تلاوت قرآن پاک کو معانی ومفاہیم کے ساتھ سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہم اللہ کے احکام کو سمجھ کر اس پر عمل پیراہوں۔ دل کی صفائی جو تزکیہ نفس کے لیے بے حد ضروری ہے،جس کے لیے تلاوت کلام اللہ اور موت کا ذکر لازم ہے۔آپ ؐ نے ایک مثال سے اس کی وضاحت فرمائی :
ان القلوب لتصدأ کما یصدأ الحدید قیل و ما جلاؤہا قال تلاوۃ القرآن وذکر الموت (مشکوۃ، بیہقی شعب الایمان)
’’یقیناًدل بھی زنگ آلود ہوتے ہیں جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ پوچھا گیا اس کی صفائی کیسے ہوگی ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا تلاوت کلام اللہ اور موت کو یاد کرنے سے۔‘‘
اس ماہ مبارک میں لوگ نوافل اور ذکر الہٰی کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں ثواب کا درجہ بڑھا دیاجاتاہے ، یعنی نوافل کا ثواب فرض کے برابر ملتا ہے اورفرائض کا سترگنااضافے کے ساتھ ثواب ملتاہے۔ اس سے بھی بندوں میں اللہ کی قربت پیداکرنے کی تربیت ہوتی ہے ، کیوں کہ انسان جب نماز میں ہوتا ہے۔تو وہ اللہ کے بے حد قریب ہوجاتاہے۔ اسی طرح جب انسان کا دل ذکر الٰہی سیترہوتا ہے تو دل کو زندگی ملتی ہے ورنہ اس پر بھی ویرانی اور پژمردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب کہ تزکیہ کے لیے اطمینان قلب کے ساتھ دل کا صاف اوراس کا زندہ ہونا بے حد ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکراللہ تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸)
’’خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت (متفق علیہ)
’’نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک کو انسانی تربیت کے لیے ایک تحفہ کے طور پر عطا کیا ہے تا کہ بندہ اس مہینہ میں بھر پور عبادت وریاضت کے ذریعہ اپنے نفس کی خاص طور سے تربیت کرے پھر وہ بقیہ دیگر مہینوں میں اللہ تعالی کے احکام کاپابند ہوکر زندگی بسرکرے اور اپنے نفس کو اوصاف حمیدہ سے آراستہ کرکے خود کوبلند کردارکا حامل بنائے ساتھ ہی ان تمام خصلتوں سے جو نفس کو مردہ بنادیتے ہیں یا اسے ذلت وپستی کی کھائی میں ڈھکیل دیتے ہیں ان سے بالکلیہ اجتناب کرے تاکہ وہ انسان اللہ کا محبوب بندہ ہوجائے۔

محب اللہ قاسمی

بسیرت آن لائن

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں