جہیز ایک نعمت‘ مگر ہمارے ہاں لعنت کیوں؟

جہیز ایک نعمت‘ مگر ہمارے ہاں لعنت کیوں؟

چنانچہ پہلے زمانے میں محلے اور برادری کی خواتین دلہن کو دیکھنے اور مبارکباد دینے کیلئے آتی تھیں اب جہیزاور کپڑے دیکھنے کیلئے آتی ہیں۔

جہیز کو دیکھتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ ٹی وی ہے یا ایل ای ڈی‘ فریج کون سی کمپنی کا ہے؟ سپلٹ اے سی کونسی کمپنی کا ہے؟
لفظ جہیز کی تحقیق کی جائے تو یہ چار حروف پر مشتمل ہے ج۔ ہ۔ ی۔ ز۔ سے مراد ہے ج سے جزاء، ہ سے ہمت‘ ی سے یقین‘ اور ز سے زندگی۔۔۔۔ مگر اب ج سے جرم‘ ہ سے ہوس‘ ی سے یلغار اور ز سے زہر کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
پہلے انسان سیدھا سادہ تھا‘ نہ جہیز کو دیکھتا تھا نہ اس کا مطالبہ کرتا تھا ۔اب پڑھا لکھا ہوتے ہی سب کچھ بدل گیا ہے۔ اس کی نظر میں جہیز دینے کی چیز ہے لینے کی نہیں۔ لڑکی والوں کو جہیز دینا ہی چاہیے اور لڑکے والوں کو ہر چیز مانگنی ہی چاہیے۔ چنانچہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکے والے بہو لانے تک جہیز اور جوڑے کو اپنا جائز حق اور مطالبہ سمجھتے ہیں لیکن اپنی بیٹی کے بہو بننے کے وقت جہیز اور جوڑے کے مخالف بن جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لینے کیلئے تیار کیوں اور دینے کے وقت انکار کیوں۔۔۔؟؟؟ ایک اللہ والے فرماتے ہیں کہ چند سال پہلے ملک شام کے ایک بزرگ ہمارے ہاں تشریف لائے اتفاق سے ایک مقامی دوست بھی اسی وقت آگئے جب انہوں نے ایک عرب بزرگ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان سے دعا کی درخواست کی کہ میری دو بیٹیوں کی شادی کیلئے اسباب پیدا ہوجائیں۔ شیخ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی لڑکیاں ہیں یا لڑکے؟ کہنے لگے کہ لڑکیاں ہیں۔ شیخ نے سراپا تعجب بن کر کہا کہ لڑکیوں کی شادی کیلئے مالی وسائل کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس انہیں جہیز دینے کیلئے کچھ بھی نہیں۔ شیخ نے پوچھا کہ جہیز کیا ہوتا ہے؟ اس پر حاضرین مجلس نے انہیں بتایا کہ ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ باپ شادی کے وقت اپنی بیٹی کو زیورات‘ کپڑے‘ گھر کا اثاثہ اور بہت سا سازوسامان دیتا ہے۔ اسے جہیز کہتے ہیں اور جہیز دینا باپ کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ جس کے بغیر لڑکی کی شادی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور لڑکی کے سسرال والے بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شیخ نے یہ تفصیل سنی تو وہ سرپکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ کیا بیٹی کی شادی کرنا کوئی جرم ہے جس کی سزا باپ کو دی جائے پھر انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں اس قسم کی کوئی رسم نہیں ہے اکثر جگہوں پر تو یہ لڑکے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ اپنے گھر میں دلہن کو لانے سے پہلے گھر کا اثاثہ اور دُلہن کی ضروریات فراہم کرکے رکھے۔ لڑکی کے باپ کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتا جبکہ بعض جگہوں پر یہ رواج بھی ہے کہ لڑکی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سامان تو باپ ہی خریدتا ہے لیکن اس کی قیمت لڑکا ادا کرتا ہے البتہ باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت کوئی مختصر سا تحفہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے لیکن یہ کچھ ایسا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔
شرعی اعتبار سے بھی جہیز کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے کوئی تحفہ اپنی استطاعت کے مطابق دینا چاہیے تو دیدے اور بظاہر ہے کہ تحفہ دیتے وقت لڑکی کی آئندہ ضروریات کو مدنظر رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے لیکن نہ وہ شادی کیلئے کوئی لازمی شرط ہے‘ نہ سسرال والوں کو کوئی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کا مطالبہ کریں اور اگر کسی لڑکی کو جہیز نہ دیا جائے یا کم دیا جائے تو اس پر بُرا منانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے‘ نہ ہی لڑکی کو مطعون کریں اور نہ یہ کوئی دکھاوے کی چیز ہے کہ شادی کے موقع پر اس کی نمائش کرکے اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا جائے۔
ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی لڑکیاں اسی وجہ سے بن بیاہی رہتی ہیں کہ باپ کے پاس انہیں دینے کیلئے جہیز نہیں ہوتا اور اگر شادی سر پر آہی جائے تو جہیز کی شرط پوری کرنے کیلئے باپ کو بعض اوقات روپیہ حاصل کرنے کیلئے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں اور وہ باپ بے چارہ رشوت‘ جعلسازی‘ دھوکہ فریب‘ خیانت جیسے جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اگر کوئی باضمیر باپ ہے تو وہ اپنے آپ کو ناجائز ذرائع سے بچا کر قرض کے ادھار کے شکنجے میں جکڑنے پر مجبور ہے اور اوپر سے سب سے گھٹیاحرکت یہ کہ لڑکی کا شوہر یا اس کے سسرال کے لوگ جہیز پر نظررکھتے ہیں اور توقعات باندھی جاتی ہیں کہ دلہن اچھا ساجہیز لائے گی جسے دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے اور ان کی تعریف بھی حاصل کی جاسکے۔ افسوس کہ معاشرے کی اصلاح و تربیت کاکام جو کسی بھی قوم کی تعمیر کیلئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کسی بھی شمارو قطار میں نظر نہیں آتا۔ ذہنی تربیت اور کردار سازی کا کام خرافات میں ایسا گم ہوا ہے کہ اس کا نام ایک مذاق معلوم ہوتا ہے۔
ایک داعی حق کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہنے سے نہ اکتائے‘ اپنے دائرے کی حد تک کام کرنے سے نہ تھکے۔ بالآخر ایک وقت آتا ہے جب حق و صداقت کی کشش دوسروں کو بھی اپنی طرف کھینچنا شروع کردیتی ہے اور قوموں کی نہ صرف سوچ میں بلکہ عمل میں انقلاب آجاتا ہے۔ ایک اللہ والے لکھتے ہیں کہ ’’بیوی جو جہیز‘ زیور‘ نقدی وغیرہ میکے سے لاتی ہے وہ شرعًا بیوی کی ملکیت ہے۔ بعض خاوند اسے اپنا مملوک سمجھتے ہیں اور اس میں مالکانہ تصرف کرتے ہیں اور بیوی کی صراحتہً یا دلالۃً رضامندی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ کوئی چیز کسی کو دیدی‘ کوئی کسی کو۔۔۔ ساس بھی اس جہیز میں اپنے آپ کو مالکانہ تصرفات کا حقدار سمجھتی ہیں۔ یہ ظلم ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔پہلے شادی میں اصل چیز دلہن تھی مگر اب جہیز ہے۔ چنانچہ معاملہ نیچے سے اوپر تک بدل گیا ہےیعنی دلہن کتنی ہی اچھی ہو جہیز کے بغیر بیکار ہوجاتی ہے دلہن کتنی ہی خراب ہو جہیز اچھا ہو تو قابل قبول بن جاتی ہے۔ نہ لڑکے والے سوچتے ہیں کہ بعد میں کیا ہوگا‘ نہ لڑکی والے۔۔۔؟ یہی وجہ ہے کہ زندگیاں تلخ ہوتی جارہی ہیں اور قسم قسم کے جھگڑے اور فتنے سر اٹھارہے ہیں۔
چنانچہ پہلے زمانے میں محلے اور برادری کی خواتین دلہن کو دیکھنے اور مبارکباد دینے کیلئے آتی تھیں اب جہیزاور کپڑے دیکھنے کیلئے آتی ہیں۔ جہیز کو دیکھتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ ٹی وی ہے یا ایل ای ڈی‘ فریج کون سی کمپنی کا ہے؟ سپلٹ اے سی کونسی کمپنی کا ہے؟ کمپیوٹر ہے یا لیپ ٹاپ؟ جاتے وقت بھی یہی کہا جاتا ہے کہ لڑکا خوش نصیب ہے کہ اس کو اتنا اچھاجہیز ملا۔ جہیز دیتے وقت تین امر کا لحاظ کرنا چاہیے۔ 1۔ اختصار: گنجائش سے زیادہ تردد نہ کرے۔ 2۔ ضرورت کا لحاظ: جن چیزوں کی سردست ضرورت واقع ہوگی وہ دینی چاہئیں۔ 3۔ اعلان نہ ہونا: کیونکہ یہ تو اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے دوسروں کی دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔

عبقری میگزین

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں