نمازِ تراویح

نمازِ تراویح

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح فرض نہیں، بلکہ سنت ہے۔

البتہ 1400 سال سے جاری عمل کے خلاف بعض حضرات 20 رکعات نمازِ تراویح کو بدعت یا خلاف ِسنت قرار دینے میں ہر سال رمضان اور رمضان سے قبل اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں، جس سے امت مسلمہ کے عام طبقہ میں انتشار ہی پیدا ہوتا ہے، حالاں کہ اگر کوئی شخص 8 کی جگہ20 رکعات پڑھ رہا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہی تو ہے، کیوں کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے، نیز حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے امت مسلمہ جماعت کے ساتھ 20 ہی رکعات تراویح پڑھتی آئی ہے، حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں آج تک کبھی بھی8 رکعات تراویح نہیں پڑھی گئیں۔

اس موضوع سے متعلق احادیث کا جتنا بھی ذخیرہ موجود ہے، کسی بھی ایک صحیح ،معتبر اور غیر قابل نقد وجرح حدیث میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے تراویح کی تعداد رکعات کا واضح ثبوت نہیں ملتا ہے، اگرچہ بعض احادیث میں، جن کی سند میں یقینا کچھ ضعف موجود ہے،20 رکعات کا ذکر ملتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ  نے تحریر کیا ہے کہ جس شخص کا یہ خیال ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے تراویح کی کوئی تعداد مقرر کی ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی تو وہ غلطی پر ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 401) اسی طرح علامہ شوکانی  نے تحریر کیا ہے کہ مسئلہ تراویح کی تمام روایات میں نماز تراویح کا باجماعت یا تنہا پڑھنا تو ثابت ہے، لیکن خاص کر تراویح کی تعداد اور اس میں قراء ت کی تعیین نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے منقول نہیں ہے۔ (نیل الاوطار ج3 ص 64) میں نے اِن دو شخصیات کا ذکر اس لیے کیا ہے، کیوں کہ 8 رکعات تراویح کا موقف اختیار کرنے والے حضرات اِن دو شخصیات کی رائے کو حرف آخر تسلیم کرتے ہیں۔

خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام ہوا،جیساکہ محدثین،فقہاء ، موٴرخین اور علمائے کرام نے تسلیم کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ  فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ان خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی بابت نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق  کا یہ اقدام عین سنت ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 401) (فتاوی ابن تیمیہ ج 22 ص 434)

ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات57 یا 58 ہجری میں ہوئی او ر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 15 ہجری میں تراویح کی جماعت حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باقاعدہ شروع فرمائی، اگر بیس رکعات تروایح کا عمل بدعت ہوتا تو 42سال کے طویل عرصہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا آٹھ رکعات والی حدیث کو بیس رکعات پڑھنے والوں کے خلاف پیش کرنا ثابت ہوتا، حالاں کہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی 1999) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں ثابت کیا ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے آج تک حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں کبھی بھی 20 سے کم تراویح نہیں پڑھی گئیں۔

تراویح کے معنی
بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر العسقلانی  نے تحریر کیا ہے کہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیوں کہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعات ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)

نماز تراویح کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں، بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔

نماز تراویح کی تعدادِ رکعت
تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین ،فقہاء وعلمائے کرام کی رائے ہے کہ تراویح 20 رکعات پڑھنی چاہئیں۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں؟ جمہور محدثین،فقہاء وعلمائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعات سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں :

امام بخاری  نے اپنی مشہور کتاب (بخاری) میں نمازِ تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں، جب کہ نماز تراویح کو (کتاب صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں جیساکہ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتی تو امام بخاری  کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی۔ حضرت عائشہ  والی حدیث کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاری نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔

تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔

اگر حضرت عائشہ  کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ20 رکعات تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں 20رکعات تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے)۔ اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق  اور صحابہ کرام کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ 8 رکعات تراویح کی جگہ 20 رکعات تراویح شروع کردیتے؟ صحابہ کرام تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے اور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ کرام میں ہم سے بہت زیادہ تھا۔ بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سے اپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے۔ نیز نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے : ہم خلفاء راشدین کی سنتوں کوبھی مضبوطی سے پکڑلیں۔ (ابن ماجہ)

اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد وتراویح ایک نماز ہے) تو رمضان کے آخری عشرہ میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟

اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج1 ص 154، ابوداوٴد ج۱ ص196، ترمذی ج1 ص 58، نسائی ج1 ص 154، موٴطا امام مالک ص 42)

علامہ شمس الدین کرمانی (شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ  کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ  کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔ (الکواکب الدراری شرح صحیح البخاری ،ج ۱ ص 155۔156)

حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی  فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم گیارہ رکعات (وتر کے ساتھ) پڑھتے تھے، وہ تہجد کی نماز تھی۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی  تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔ (مجموعہ فتاوی عزیزی ص 125)

نمازِ تراویح نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں
حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ صلى الله عليه وسلم نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح)… اِن دو یا تین دن کی تراویح کی رکعت کے متعلق کوئی تعداد احادیث صحیحہ میں مذکور نہیں ہے۔

حضرت ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے، لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے۔ آپ صلى الله عليه وسلم فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتدائے عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح)

صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق  کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی۔ البتہ حضرت عمر فاروق  کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی ہے، اس تبدیلی کی وضاحت مضمون میں محدثین ،فقہاء اور علمائے کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے۔

حضرت عائشہ  کی روایت (جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعات سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے کیوں کہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص 154، ابوداوٴد ج1 ص 196، ترمذی ج۱ ص 58، نسائی ج۱ ص 154، موٴطا امام مالک ص 42) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے، نہ کہ تراویح سے۔

امام محمد بن نضر مروزی نے اپنے مشہور کتاب (قیام اللیل ، ص 91 اور92) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں، مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی، اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔

علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (زاد المعاد ص 86) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظ حدیث امام قرطبی  کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔ (عینی شرح بخاری ج7 ص 187)

نمازِ تراویح خلفائے راشدین کے زمانے میں
حضرت ابو بکر صدیق  کے عہد میں کتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہٴ کرام کا کوئی واضح عمل مذکور نہیں ہے۔ گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے رہے، غرضیکہ حضرت ابو بکر صدیق  کے عہد خلافت (یعنی دور رمضان) میں نماز تراویح باقاعدہ جماعت کے ساتھ ایک مرتبہ بھی ادا نہیں ہوئی ۔

حضرت عمر فاروق  نے جب اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر فاروق  نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعب  کی امامت میں جمع کیا ، اور عشا کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت 20 رکعات نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔ ملاحظہ ہو کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں یہ سب کچھ شروع ہو ا :
پورے رمضان تراویح پڑھنا۔ (جس پر پوری امت کا عمل ہے)
تراویح کا مستقل باجماعت پڑھنا۔(جس پر پوری امت کا عمل ہے)
رمضان میں وتر باجماعت پڑھنا۔ (جس پر پوری امت کا عمل ہے)
بیس رکعات تراویح پڑھنا۔

تراویح کی کیفیت تو قابل قبول ہے لیکن تعداد تراویح محل نظر ؟
حضرت عبد الرحمن قاری  فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروہوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتدا میں جمع کردیا جائے تو بہت اچھا ہے۔ اور سب کو حضرت ابی بن کعب  کی اقتدا میں جمع کردیا … حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ میں سوجاتے ہو ،وہ اس وقت سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان)

حضرت یزید بن رومان  فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہ کرام) حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں 23 رکعات (20 تراویح اور3وتر) ادا فرماتے تھے۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص 98)

علامہ بیہقی نے کتاب المعرفہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے دور حکومت میں ہم 20 رکعات تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ امام زیلعی  نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (نصب الرایہ، ج 2ص 154)

حضرت ابی بن کعب  سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں۔ چناں چہ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قراء ت اچھی طرح نہیں کرسکتے۔ اگر آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ پس حضرت ابی بن کعب  نے انہیں 20 رکعتیں پڑھائیں۔ (مسند احمد بن منیع بحوالہ اتحاف الخیرہ المہرہ للبوصیری علی المطالب العالیہ ج2ص 424)

موٴطا امام مالک میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید  کی روایت ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعات تراویح تھیں۔ (فتح الباری لابن حجر ج 4 ص 321، نیل الاوطار للشوکانی ج2 ص 514)

حضرت محمد بن کعب القرظی  (جو جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر  کے دور میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے۔ ( قیام اللیل للمروزی ص 157)

حضرت یحییٰ بن سعید  کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے۔ (مصنف بن ابی شیبہ ج 2ص 285)

حضرت حسن  سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب  کی امامت پر جمع فرمایا۔ وہ لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح پڑھاتے تھے۔ (ابو داوٴد ج۱ ص 211، باب القنوت والوتر)

حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے دور میں تین رکعات (وتر) اور بیس رکعات (تراویح) پڑھی جاتی تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق ج 4 ص201، حدیث نمبر 7763)

حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں ہم 20 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان غنی  کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج2 ص496)

حضرت ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)

حضرت ابو عبدالرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی  نے رمضان میں قاریوں کو بلایا۔ پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے اور حضرت علی  خود انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 496)

نماز ِ تراویح سے متعلق صحابہ وتابعین کا عمل
حضرت اعمش  فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  کا معمول بھی بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھنے کا تھا۔ (قیام اللیل للمروزی ص 157)

حضرت حسن بصری حضرت عبد العزیز بن رفیع  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب  رمضان میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)

حضرت عطا بن ابی رباح  (جلیل القدر تابعی، تقریباً 200 صحابہ کرام کی زیارت کی ہے) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ ) کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج2 ص 285)

حضرت ابراہیم نخعی  (جلیل القدر تابعی، کوفہ کے مشہور ومعروف مفتی) فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعات پڑھتے تھے۔ (کتاب الآثار بروایت ابی یوسف ص41)

حضرت شتیر بن شکل  (نام ور تابعی، حضرت علی  کے شاگرد) لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 496)

حضرت ابو البختری  (اہل کوفہ میں اپنا علمی مقام رکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عمر  اور حضرت ابو سعید  کے شاگرد) ۔ آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)

حضرت سوید بن غفلہ  (حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرہ صحابہ کی زیارت کی ہے) آپ کے بارے میں ابو الخضیب فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ  رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 496)

حضرت ابن ابی ملیکہ  (جلیل القدر تابعی، تقریباً تیس صحابہ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے) آپ کے متعلق حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی ملیکہ  ہمیں رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص285)

نماز ِ تراویح سے متعلق اکابرین امت کے اقوال

امام ابو حنیفہ 
علامہ ابن رشد  لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ  کے ہاں قیام رمضان بیس رکعات ہے۔ (بدایة المجتہد ج1 ص 214)

امام فخر الدین قاضی خان  لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ  فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔ (فتاوی قاضی خان ج1 ص112)

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی  لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے حضرت ابی بن کعب  کی امامت میں صحابہ کرام کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی ،جو صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)

امام مالک
امام مالک  کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعات ہیں،جب کہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعات سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی  فرماتے ہیں کہ امام مالک  نے ایک قول میں بیس رکعات تراویح کو پسند فرمایا ہے۔ (بدایہ المجتہد ج۱ ص 214)مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعات کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کرلیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعات نفل پڑھنی شروع کردیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36 رکعات (20 رکعات تراویح اور 16 رکعات نفل) ہوگئیں۔

امام شافعی 
امام شافعی  فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعات تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعات ہی پڑھتے ہیں۔ (قیام اللیل ص 159)ایک دوسرے مقام پر امام شافعی  فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔ (ترمذی ج ۱ ص 166) علامہ نووی شافعی  لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعات کا ہے اور بیس رکعات پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعات کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ ، ان کے اصحاب ، امام احمد بن حنبل  اور امام داوٴد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض  نے بیس رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)

امام احمد بن حنبل
فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ  لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعات کا ہے اور حضرت سفیان ثوری  بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق  نے صحابہ کرام کو حضرت ابی بن کعب  کی اقتدا میں جمع کیا تو وہ بیس رکعات پڑھتے تھے، نیز حضرت امام احمد ابن حنبل  کا استدلال حضرت یزید وعلی کی روایات سے ہے۔ ابن قدامہ  کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ جس چیز پر حضور اکرم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں ، وہی اتباع کے لائق ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج2 ص139، صلاة التراویح)

امام ترمذی  فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علیو حضرت عمر  اور دیگر صحابہ کرام سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعات ہیں، حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک  اور امام شافعی  کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی  فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعات پڑھتے دیکھا۔ (ترمذی، ما جاء فی قیام شہر رمضان) امام ترمذی نے اس موقع پر تحریر کیا ہے کہ بعض حضرات مدینہ منورہ میں 41 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔ لیکن امام ترمذی  نے اہل مکہ یا اہل مدینہ میں سے 8 تراویح پر کسی کا عمل نقل نہیں کیا۔

مسلم شریف کی سب سے مشہور ومعروف شرح لکھنے والے علامہ نووی  ،جو ریاض الصالحین کے مصنف بھی ہیں، فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور تمام علماء متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، البتہ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ گھر میں اکیلا پڑھنا بہتر ہے یا مسجد میں باجماعت؟ تو امام شافعی  ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، بعض مالکی اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ باجماعت پڑھنا بہتر ہے، چوں کہ حضرت عمر فاروق  اور حضرات صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا اور اس پر مسلسل عمل جاری ہے، حتی کہ یہ مسلمانوں کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔(شرح مسلم للنووی، ملخص: الترغیب فی قیام رمضان)

نیز علامہ نووی فرماتے ہیں کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعات ہیں جن میں ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار، ص83)

علامہ عینی (بخاری شریف کی شرح لکھنے والے) تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان ، حضرت علی  کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعات پڑھی جاتی تھیں۔ (عینی ج7 ص 178)

شیخ امام غزالی  فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، جن کا طریقہ معروف ومشہور ہے اور یہ سنت موٴکدہ ہے۔ (احیاء العلوم ج1 ص 132)

شیخ عبد القادر جیلانی  فرماتے ہیں کہ تراویح نبی اکرم ا کی سنت مبارکہ ہے اور یہ بیس رکعات ہیں ۔ (غنیہ الطالبین ص 267، 268)

مولانا قطب الدین خان محدث دہلوی  فرماتے ہیں : اجماع ہوا صحابہ کا اس پر کہ تراویح کی بیس رکعات ہیں۔ (مظاہر حق ج1 ص 436)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  نے اپنی سب سے مشہور ومعروفکتاب (حجة اللہ البالغہ ) میں تحریر کیا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعات مقرر ہوئی تھیں، چناں چہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین نے قیام رمضان میں تین چیزیں زیادہ کی ہیں :
مسجدوں میں جمع ہونا، کیوں کہ اس سے عوام وخواص پر آسانی ہوتی ہے۔
اس کو شروع رات میں ادا کرنا، جب کہ اخیر رات میں پڑھنا زیادہ افضل ہے، جیساکہ حضرت عمر فاروق  نے اس طرف اشارہ فرمایا۔
تراویح کی تعداد بیس رکعات ۔ (حجة اللہ البالغہ ج 2 ص 67) (جاری)

مولانامحمد نجیب قاسمی
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ کراچی)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں