رمضان اور روزہ

رمضان اور روزہ

یہ مقالہ لجنہ علمیہ فضلائے دارالعلوم دیوبند مقیم ریاض سعودی عرب کی پانچویں ورکشاپ بعنوان’’استقبال رمضان‘‘ میں پڑھاگیا۔مولاناطاہر قاسمی کے اس مقالہ کو مولانااشرف علی قاسمی نے پیش کیا۔(ادارہ)

 

رمضان المبارک کا مہینہ امت مسلمہ کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے بیش بہا نعمت ہے ، صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک روحانیت ، نورانیت اور شادمانی کا ماحول رہتا ہے ، اس میں نیکیوں کو پروان چڑھانے اور جلا بخشنے کے بہترین مواقع میسر ہوتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے جو برکات و سعادتیں اس مہینے کے ساتھ خاص فرمائی ہیں وہ کسی اور مہینے میں نہیں ہیں ، اس مبارک مہینے میں کیے جانے والے اعمال صالحہ پر خیر وبرکت اور اجر وثواب کی جو خصوصیت ہے دوسرے مہینے ان سے خالی ہیں ، ماہ رمضان کا ہر عمل فضیلت اور برکت کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے ، اس ماہ کے روزے فرض کیے گئے ہیں ، جب کہ بقیہ ماہ کے روزے نفلی ہیں ، رمضان المبارک کے روزوں ، سحر وافطار اور اس کی پابندی میں بے شمار اجر وثواب رکھے گئے ہیں ، اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کی امت پر خاص کرم فرمایا اور نماز ، تراویح،اعتکاف ، صدقہ ، ذکر واذکار اور شب قدر کی صورت میں بے حساب فیوض وبرکات سے نواز کر ماہ رمضان کو دوسرے مہینوں سے ممتاز کردیا ہے، اس ماہ کی یہ فضیلت ہے کہ حضور پاک ﷺ خود اس ماہ مبارک کا استقبال فرماتے اور صحاب�ۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی استقبال کی تلقین فرماتے۔

ایک حدیث مبارک میں حضور پاک ﷺ نے سوالیہ انداز میں صحاب�ۂ کرام سے رمضان المبارک کے بارے میں پوچھ کر اس مہینہ کی اہمیت اور خیر وبرکت کو واضح فرمایا ، جب رمضان المبارک آتا تو حضور پاک ﷺ صحاب�ۂ کرام سے دریافت فرماتے: ’’مَاذَا تَستَقبِلُونَ؟ مَاذَا یَستَقبِلُکُم؟ ثَلاَث مَرَّات ‘‘ تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا استقبال کون کر رہا ہے ؟ (یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمائے) اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے ؟ حضور پاک ﷺ نے فرمایا :نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ، پھرآپ ﷺ نے فرمایا: ’’إِنَّ اللّٰہَ یَغفِرُ فِی أَوَّل لَیلَۃٍ مِن شَہرِ رَمَضَانَ لأَہلَ کُل ہٰذِہِ القِبلَۃِ‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ رمضان کی پہلی رات میں تمام اہل قبلہ کومعاف فرمادیتا ہے ، رمضان المبارک کا استقبال آپ ﷺ اور صحاب�ۂ کرام کی سنت ہے ، لہٰذا ہمیں بھی اس سنت پر عمل کرنا چاہیے ، تاکہ اس مہینہ کی برکات کو حاصل کیا جاسکے جس کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا اور آخری عشرہ جہنم سے آزادی کا باعث ہے ، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ دیاجس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہُوَ شَہرٌ أَولُہُ رَحمَۃٌ وَأَوسَطُہُ مُغفِرَۃٌ وَآخِرُہُ عِتقٌ مِنَ النَّار‘‘ (صحیح ابن خزیمہ)۔

رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس ماہ میں روزہ فرض کیا گیا ہے جو اسلام کا ایک رکن ہے ، قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ رمضان المبارک کی خصوصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے بندوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیتا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہرَ فَلیَصُمہُ ‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۵) تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔
صیام (روزہ) کے لفظی معنی رک جانے کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام روزہ ہے ۔

روزہ بظاہر ایک دشوار امر ہے ، اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کو اس کا خوگر بنانے کے لیے بڑے حکیمانہ انداز میں حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تم پر روزے کی فرضیت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ تم سے پہلے بھی دیگر امتوں پر فرض تھا اور یہ فطری اور بدیہی چیز ہے کہ جب کسی دشوار کام میں تمام لوگ شریک ہوجاتے ہیں تو وہ کام آسان ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ تک تمام شریعتوں اور امتوں میں نماز کی طرح روزہ بھی فرض تھا ، البتہ تعداد اور کیفیات وصفات میں فرق تھا۔

روزے کی فرضیت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ مقصد بھی بتادیا کہ روزہ رکھنے سے تقویٰ اور پرہیزگاری آتی ہے ۔ارشاد ربانی ہے: ’’یَآ أَیُّہَا الذِّینَ اٰمَنُوا کُتِبَ عَلَیکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلی الذِّینَ مِن قَبلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو تقویٰ کی صفت پیدا کرنے میں روزہ کو خاص دخل ہے ، کیوں کہ کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے انسان کا نفس پھلتا پھولتا ہے اور اس میں سرکشی آجاتی ہے ، روزہ کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ نفس کو کنڑول کرتا ہے اور سرکشی کی اصلاح کرکے احکام شریعہ کا پابند بنا دیتا ہے روزے کی وجہ سے جب کوئی شخص اپنے نفس کو قابو میں کرکے حلال چیزوں سے رک جاتا ہے تو حرام چیزوں سے رکنا بھی اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے اور تقویٰ کا معنی یہی ہے کہ انسانی نفس مغلوب ہوجائے اور احکام شریعت پر عمل آسان ہوجائے ۔ اگر کسی روزہ دار میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگئی تو دنیا وآخرت دونوں جگہ اس کے ثمرات یقینی طور پر ظاہر ہوں گے۔

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریاکاری کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، نماز اور حج وغیرہ ایسی عبادات ہیں جنہیں لوگ دیکھ سکتے ہیں ، انہیں محسوس کر سکتے ہیں اور زکوٰۃ سے استفادہ کرسکتے ہیں ، لیکن روزہ کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے ، اس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے ۔ روزہ کی اسی خصوصیت کو حدیث قدسی میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’کُلُّ عَمَل ابنِ آدَمَ لَہُ إِلاَّ الصِّیَامُ ، فَإنَّہُ لِی وَأَنَا أَجزِی بِہِ‘‘ (صحیح بخاری) ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزہ کے، یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ۔ جب اللہ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرلیا تو اس میں ریاکاری کا دخل کیسے ہوسکتا ہے۔مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دیگر عبادتوں کا اجر تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دلائے گا لیکن روزے کا اجر اللہ تعالیٰ خود عطا کرے گا، لہٰذا اللہ تبارک وتعالیٰ کا روزوں کے اجر وثواب کی نسبت اپنی طرف کرنا انعام کے ساتھ ساتھ ایک بڑا اعجاز واکرام بھی ہے۔کسی انسان کے لیے اس سے بڑھ کر انعام اور اعجاز کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ خود اللہ رب العزت اپنے بندے کو روزے کا اجر اپنے دست قدرت سے عطا کررہا ہے اور جب خود اللہ اپنے بندے کو نواز رہا ہو تو اس کی نوازش کا کیا عالم ہوگا اس کا اندازہ لگانا بھی ناممکن ہے۔

ایک اور حدیث میں روزوں کے انعام کا تذکرہ کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’إِنَّ فِی الجَنَّۃِ بَابًا یُقَالُ لَہُ الریانُ ، یَدخُلُ مِنہُ الصَّاءِمُونَ یَومَ القِیَامَۃِ ، لاَ یَدخُلُ مِنہُ أَحَدٌ غَیرُہُم ، یُقَالُ : أَینَ الصَّاءِمُونَ؟ فَیَقُومُونَ ، لاَ یَدخُلُ مِنہُ أَحَدٌ غَیرُہُم، فَإذَا دَخَلَوا أُغلِقَ فَلَمَ یَدخُل مِنہُ أَحَدٌ‘‘(صحیح بخاری)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک خاص دروازہ ہے جس کا نام ’’باب الریان‘‘ ہے ،قیامت کے دن(جنت میں) اس دروازہ سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا ، اس دن آواز لگائی جائے گی کہ وہ بندے کہاں ہیں جو اللہ کے لیے روزہ رکھا کرتے تھے؟اس پر سارے روزے دار اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کے علاوہ کسی دوسرے کا داخلہ نہیں ہو سکے گا، جب سبھی لوگ داخل ہوجائیں گے تو دروازے کو بند کر دیا جائے گا ، پھر کوئی اس دروازہ سے داخل نہیں ہوسکے گا۔

یہ بات یاد رہے کہ کھانے پینے اور خواہشات نفسانی سے رکنے کا نام ہی روزہ نہیں ہے ، بلکہ اس کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اوامر ونواہی میں ان کی اطاعت وفرمانبرداری بھی ضروری ہے ، اسی صورت ہمارے اندر تقوی وطہارت کی صفت پیدا ہوگی اور روزے کا اصل مقصد حاصل ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر ہم نے روزہ رکھ کر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پاسداری اور بجاآوری نہیں کی بلکہ جھوٹ بولنے ، غیبت کرنے اور جھگڑا کرنے میں مشغول رہے اور بیہودہ خرافات اور لہو لعب میں اپنے قیمتی اوقات صرف کرتے رہے تو پھر ایک مہینہ کیا اگر پوری زندگی روزہ رکھ لیں ہمارے اندر کبھی بھی نہ تو تقوی کی صفت پیدا ہوگی ، نہ ہم روزہ کے مقصد کو حاصل کرسکیں گے اور نہ ہی اس انعام واکرم کے حق دار ہوں کے جن کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ ایسی حالت میں ہمیں بھوکے اور پیاسے رہنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کَم مِن صَاءِمٍ لَیسَ لَہُ مِن صِیَامِہِ إِلاَّ الظَّمَأُ وَکَم مِن قَاءِمٍ لَیسَ لَہُ مِن قِیَامِہِ إِلا السَحر، رواہ الدارمی‘‘ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے بدلہ میں پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور بہت سے رات میں جاگ کر عبادت کرنے والے ایسے ہیں جن کو شب بیداری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
جھوٹ اور غیبت تو ایسے بھی نہایت قبیح اور حد درجہ کی بری چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولنے والے پر لعنت فرمائی ہے اور غیبت کرنے والے کو اپنے مردار بھائی کے گوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے ، پھر رمضان جیسے مقدس مہینہ میں اور وہ بھی روزہ کی حالت میں اس کا ارتکاب کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سخت نافرمانی ہے اورایسا کرنے والے کے روزہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مَن لَم یَدَع قَولَ الزُّورِ وَالعَمَلِ بِہِ ، فَلَیسَ للّٰہِ حَاجَۃٌ فِی أَن یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ‘‘ (صحیح بخاری) اگر کوئی شخص (روزہ رکھ کر بھی)جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپناکھانا پینا ترک کردے۔
ہمیں چاہیے کہ روزہ کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے احکام اطاعت کریں اور جھوٹ وغیبت جیسے منہیات سے بالکلیہ اجتناب کریں اور کسی طرح کے نازیبا الفاظ بھی اپنی زبان سے نہ نکالیں ، حتی کہ اگر کوئی لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوجائے تو اس سے نرمی سے کہہ دے کہ میرا روزہ ہے اور میں کسی سے لڑنا جھگڑنا نہیں چاہتا جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وإذَا کَانَ یَومُ صَوم أَحَدِکُم فَلاَ یَرفُث وَلا یَصخَب فَإن سَابَہُ أَحَدٌ أَو قَاتَلَہُ فَلیَقُل إِنی امرُؤٌ صَاءِمٌ‘‘ (صحیح بخاری) جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ اس دن نازیبا کلمات اپنی زبان سے نہ نکالے اور نہ ہی غصہ کی حالت میں زور سے باتیں کرے ، اگر اس کو کوئی شخص گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔
روزہ رکھنے سے کئی طرح کے جسمانی اور روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ جسمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو روزہ سے چستی ، صبر وشکر ، ہمدردی وغمگساری اور نظم وضبط کا حصول ہوتا ہے ، اگر اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے پابندی اور خلوص دل کے ساتھ روزہ رکھا جائے تو لالچ وحرص اور شکم پروری کا مادہ ختم ہوجائے اور روزہ دار انسانی لباس میں فرشتہ نظر آئے۔
جہاں تک روحانی فوائد کا تعلق ہے تو وہ بھی بے شمار ہیں ، مثلاًاللہ رب العزت کھانے پینے اور دیگر عوارض انسانی سے پاک ومنزہ ہے ، یہی حال اس کے فرشتوں کا بھی ہے ، لہٰذا روزہ رکھنے سے انسان تھوڑی دیر کے لیے اس ملکوتی صفت میں نظر آتا ہے۔ روزے سے اخلاق وروحانیت میں قوت پیدا ہوتی ہے ، بھوک اور پیاس کی تکلیف گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ، انسان کواپنے نفس پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ اس کو پاکیزہ کرکے قرآن مجید کی آیت ’’قَد أَفلَحَ مَن تَزَکی‘‘ کے بموجب اللہ تعالیٰ سے کامیابی کا سرٹیفکٹ حاصل کرلیتا ہے ، الغرض روزہ ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے جس کی کو ئی نظیر نہیں ہے۔
رمضان ایک مبارک مہینہ ، تلاوت قرآن کریم کا مہینہ ، عبادتوں وریاضتوں کا مہینہ ، جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کا مہینہ ، رحمتوں برکتوں اور مغفرت کا مہینہ ، صبر وبرداشت کا مہینہ ، فراخ�ئ رزق کامہینہ ، بھائی چارگی اور ایک دوسرے سے خیر خواہی کرنے کا مہینہ ، صدقات وخیرات کرنے کا مہینہ ، اپنے آپ کو سنوارنے ، سدھارنے اور تربیت کا مہینہ ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک تمام صغیرہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں ، بشرطیکہ اس درمیان کبیرہ گناہ سے اجتناب کیا جائے (صحیح مسلم) ۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس ماہ مبارک کے روزے رکھے اور اس مہینہ کی عظمت پہچان کر اس کی حفاظت کرے اور جن چیزوں کا اس ماہ مبارک میں خیال رکھنا چاہیے عملاً ان کا خیال رکھے تو اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہوں کو بخش دیا جائے گا (صحیح مسلم )۔
اسی طرح آپ ﷺ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ کہ اگر میں نے گواہی دی کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں پانچوں نمازوں کو ادا کروں ، زکوٰۃ ادا کروں ، ماہ رمضان کے روزے رکھوں اور اس ماہ کا قیام کروں یعنی تراویح اور تہجد پڑھوں تو میں کن لوگوں میں شمار ہوں گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ (تمہارا شمار) صدیقین اور شہداء میں ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اس مبارک مہینہ میں اللہ تعالیٰ کا فرشتہ بار بار پکار کے یہ کہتا ہے کہ اے خیر وبھلائی کے چاہنے والے خوش ہوجا کہ خوشی کا مہینہ ، خیروبھلائی کا مہینہ ، برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ آگیا ہے اور اے شر وبرائی کے چاہنے والے اب تو رک جااور برائی کو چھوڑ دے (ترمذی) ۔ اسی طرح مسند حاکم کی صحیح روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ بد دعا فرمائی کہ اس شخص کے لیے ہلاکت اور بربادی ہو جو رمضان المبارک کو پالے اور اپنے گناہوں اور بداعمالیوں پر پشیمان وشرمندہ ہو کر اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ رب کے حضور خلوص دل سے معافی مانگ کر اپنی بخشش نہ کراسکے۔
اس ماہ کا شرف اور اس کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ اللہ ہمیں ان خوش نصیبوں میں سے بنادے جن کے لیے یہ مبارک مہینہ رحمت مغفرت ، برکت ، جنت اور رب کی رضا کے حصول کا پیغام لا یا ہے ۔

مولاناطاہر احمد قاسمی

(بصیرت فیچرس)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں