مولانا عبدالحمید: توبہ کا مطلب اندرونی انقلاب ہے

مولانا عبدالحمید: توبہ کا مطلب اندرونی انقلاب ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے توبہ کو ایک ’اندرونی انقلاب‘ یاد کرتے ہوئے ’باطنی آلودگیوں سے پاکی‘ کو خالص توبہ کے نتائج میں شمار کیا۔

بیس جون دوہزار چودہ کے خطبہ جمعہ میں توبہ اور انابت الی اللہ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: توبہ کا مطلب ہے اللہ تعالی کی طرف واپس لوٹنا، اندرون سے ایک انقلاب لانا اور ماضی کے کرتوتوں پر ندامت کرکے آئندہ گناہ کے قریب نہ جانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام نے لوگوں کو باطن سے تبدیل کیا اور ان کی ذات میں تبدیلی لائی۔ اسلام کی برکت سے پورے جزیرة العرب اور کرہ زمین کا ایک بڑا حصہ ہدایت اور سچائی کی راہ پر چل پڑے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے ہر انسان کی ذات میں نفس امارہ کو قرار دیا ہے اور شیطان کو بھی خلق فرمایا ہے۔ بعض حکمتوں کے تحت اللہ تعالی نے گناہوں اور معاصی کی تخلیق فرمائی ہے۔ اگر نفس و شیطان نہ ہوتے تو انسان اور فرشتوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا؛ لیکن ہمارے اعمال اس وقت قابل قدر ہوتے ہیں جب ہم نفس اور شیطان کی کارستانیوں کے باوجود درست راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہوں اور برائیوں سے دور رکھتے ہیں۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: توبہ کا مطلب ہے گناہوں کی آلودگیوں سے پاکی حاصل کرنا۔ اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتاہے۔ ترمذی شریف کی ایک حدیث کے مطابق آدم کے تمام بیٹے خطاکار ہیں اور سب سے اچھا خطاکار وہی ہے جو توبہ کرتاہے۔ جب انسان سچی توبہ کرتاہے تو وہ گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف ہوتاہے۔ اللہ تعالی کو بندے کی توبہ اور اشک ریزی پسند ہے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے حقیقی جہاد کو نفس وشیطان کے مقابلے مجاہدہ کو قرار دیتے ہوئے کہا: رمضان المبارک آنے والاہے؛ یہ نفس سے مقابلے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالی شیطان کو پابند سلاسل کرکے انسانوں سے دور رکھتاہے۔ خوش قسمت لوگ اس ماہ میں اپنے باطن کو صاف کرتے ہیں اور اندرونی صفائی پر توجہ دیتے ہیں۔ مگر اچھا یہی ہے کہ بندہ شعبان میں خود کو گناہوں کی آلودگیوں سے صاف کرے اور پاک صاف ہوکر رمضان المبارک کا استقبال کرے۔

مولانا نے حقوق الناس خاص کر والدین کے حقوق پر زور دیتے ہوئے کہا: لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم نے کسی رشتے دار، پڑوسی یا اپنے والدین کا حق ضائع کیا تو ضرور معافی مانگیں اور لیاگیا مال واپس کردیں۔ غیبت، تہمت اور غصب مال کی صورت میں بھی معافی مانگیں اور مال واپس کریں، اگر ممکن نہ ہو تو صدقہ کرکے ان کے حق میں دعا کریں۔ جنت تک پہنچنے کے لیے آسان راستوں میں ایک والدین کی خدمت اور ان کی رضامندی حاصل کرنے میں ہے۔

خطاب کے اس حصے کے آخر میں انہوں نے ان لوگوں پر سخت تنقید کی جو گناہوں سے توبہ میں تاخیر کرتے ہیں اور سب کو جلدسے توبہ کی ترغیب دی۔

جامع حکومت بنانے سے عراق تقسیم سے نجات پاسکتاہے
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ممتازسنی عالم دین نے عراق میں ’کسی بھی گروہ‘ کی طرف سے لوگوں کے قتل وخونریزی کی مذمت کرتے ہوئے ایک ’جامع حکومت‘ کی تشکیل کو اس ملک کی نجات کا واحد راستہ قرار دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے عراق کی جاری تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عراق میں جاری تبدیلیوں اور نئے منظرنامہ نے سب کو ہلاکر رکھ دیاہے اور عراقی قوم کے خیرخواہ تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں کہیں یہ ملک تقسیم کا شکار نہ ہوجائے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں عراق کے قومی اتحاد کو ٹھیس پہنچے گا اور یہ ملک پارہ پارہ ہوجائے گا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اگر ہم غیرجانبداری سے مسلم ممالک کے حالات کا جائزہ لیں تو واضح ہوگا انتہاپسندی و شدت پسندی کو ناانصافی اور قوموں کی باتوں پر توجہ نہ دینے سے تقویت ملی ہے۔ بعض لوگ حکومتوں کے رویوں کے تاب نہیں لاتے ہیں اور جب تمام رستوں کو بند دیکھتے ہیں، تو تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ لہذا انصاف کی فراہمی اور عوام کی بات سننے سے انتہاپسندی کا مقابلہ ممکن ہے اور شدت پسندی کا سب سے اچھا علاج یہی ہے۔

عراق کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی اہل سنت کے سرکردہ رہنما نے کہا: عراق میں غلط پالیسیوں کے نتیجے میں بعض انتہاپسندوں کے علاوہ معتدل خیالات کے افراد بھی مرکزی حکومت کے خلاف ہوچکے ہیں اور وہ بھی حالیہ تبدیلیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اب مرکز سے نالاں اعتدال پسند اور ناراض لوگ بندوق اٹھانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ہمارے خیال میں صرف جامع حکومت بنانے سے یہ ملک بحران سے نجات پاسکتاہے؛ عراق میں رہنے والے تمام گروہوں اور سیاسی ومذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو ایک نئی حکومت میں حصہ ملنا چاہیے۔

مولانا عبدالحمید نے گزشتہ سال ’ایک جامع حکومت کی تشکیل‘ کے اپنے مشورے کی یاددہانی کراتے ہوئے کہا: افسوس کا مقام ہے کہ خیرخواہوں کے تجاویز اور مشوروں پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اور موجودہ عراقی حکومت فرقہ وارانہ خیالات اور مخصوص سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اس رویے کا انجام برا ہے اور مزیدمشکلات ایسی حکومتوں کے حصے میں آئیں گی۔ جو حکومتیں مشکلات و بحرانوں سے دوچار ہیں، اگر دوراندیشی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرکے جامع حکومت بنائیں اور قوم کی تمام اکائیوں کو حکومت میں شامل کریں، اس سے عوام کے دلوں میں قربت آئے گی اور ان کے ملکوں کی وحدت محفوظ ہوگی۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے عوام کے قتل وخونریزی کی مذمت کرتے ہوئے کہا: میرے خیال میں ایسے بحرانوں سے نجات کا راستہ قتل اور خونریزی نہیں ہے۔ میں قتل و خونریزی کی مذمت کرتاہوں، چاہے وہ کسی بھی فرد یا گروہ کی طرف سے ہو۔ کسی بھی گروہ، جماعت اور حتی کہ حکومت کے لیے جائز نہیں ہے اپنے کسی حق کی خاطر دوسروں کو قتل کرڈالے۔ تشدد اور لڑائی مزید تشدد کو جنم دیتی ہے۔ ایسے بحرانوں کا علاج مذاکرات، باہمی گفت وشنید، دوراندیشی اور فراخدلی ہے۔ حکومتوں کو چاہیے اپنے مخالفین کی باتیں سنیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی گروہ، جماعت اور فرقے سے ہو، اور ساتھ بیٹھ کر اپنی بات بھی ان تک پہنچادیں۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے زور دیتے ہوئے کہا: میرے خیال میں اگر عراق میں ایک نئی اور جامع حکومت اقتدار پر آئے تو حالات پر قابو حاصل کیاجاسکتاہے۔ اس لیے تمام مسلم ممالک اور بااثر شخصیات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ موافق ومخالف کو ساتھ بٹھائیں اور تاریخی ملک و قوم کے مسائل حل کرائیں۔ اس سے ان کے ملک کا مستقبل خطرے سے نجات پائے گا اور تقسیم کا خطرہ ٹل جائے گا۔

اپنے خطاب کے آخر میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: عالمی طاقتوں اور صہیونی عناصر کی کوشش ہے مسلم قومیں آپس میں دست وگریبان ہوں تاکہ ان کے مفادات محفوظ رہیں۔ دنیا میں خانہ جنگی، مذہبی ونسلی فسادات کا وجود ان کی قلبی خواہش کے عین مطابق ہے۔ افسوس ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کرنا ایک پالیسی بن چکی ہے۔ حالانکہ ایسے اختلافات اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہیں۔ جن علاقوں میں ایسے بحران پائے جاتے ہیں، وہاں خیرخواہی اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں