گمنام صحابی۔۔۔ حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی الله عنہ

گمنام صحابی۔۔۔ حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی الله عنہ

حضرت ثابت بن قیس انصاری قبیلہ خزرج کے نمایاں سردار اور یثرب کے معدودے چند زعماء میں سے تھے۔

وہ نہایت ذہین، حاضر دماغ، حاضر جواب، خوش بیاں اور بلند آواز شخص تھے۔ جب بولتے تو محفل پر چھا جاتے اور جب تقریر کرتے تو سامعین کو مسحور کر لیتے۔ وہ یثرب کے اُن افراد میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ انہوں نے جیسے ہی نوجوان مکی داعیِ اسلام حضرت مصعب بن عمیر کو اپنی پرسوز، دل شک آواز اوربلند ودل گداز لہجے میں قرآن حکیم کی تلاوت کرتے سُنا، اس نے اپنی حلاوت تاثیر سے ان کی سماعت کو اسیر کر لیا۔ اپنے حُسن بیان سے اِن کے دل کو اپنے قابو میں کر لیا۔جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت ثابت بن قیس نے اپنے قبیلے کے شہ سواروں پر مشتمل ایک جماعت کے ساتھ آپ کا شان دار استقبال کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے رفیق سفر حضرت ابوبکرصدیق کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ایک مؤثر تقریر کی، جس کا آغاز الله تعالیٰ کی حمد وثنا اوراس کے نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود وسلام سے او راس کا اختتام ان الفاظ پر کیا۔” اے الله کے رسول ! ہم آپ سے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم ہر اس چیز سے آپ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی اولاد کی اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں تو ہمیں اس کے بدلے میں کیا چیز ملے گی ؟ “جواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” جنت“۔جنت کا لفظ جیسے ہی لوگوں کے پردہ سماعت سے ٹکرایا، ان کے چہرے فرط مسرت سے جگمگا اُٹھے او ران کی پیشانیاں خوشی سے دَمکنے لگیں اور سب نے یک زبان ہو کر کہا۔رضینا یا رسول الله… رضینا یا رسول الله… اور اس روز سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس کو اپنا خطیب بنا لیا، جیسا کہ حضرت حسان بن ثابت رضی الله عنہ آپ کے شاعر ونعت وخواں تھے۔ جب بھی عرب قبائل کے وفود اپنے فصیح البیان خطبا اور قادر الکلام شعرا کو لے کر مفاخرہ یا مناظرہ کرنے کے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آتے تھے ،آپ ان خطیبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت ثابت بن قیس کو اوران کے شاعروں کا جواب دینے کے لیے حضرت حسان بن ثابت کو طلب فرماتے تھے۔حضرت ثابت بن قیس غزوہ بدر کے سوا تمام غزوات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے او راس شہادت کی طلب میں جس کی بشارت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو دی تھی جنگ کے خطرناک ترین معرکوں میں گھستے رہے، مگر ہر بار وہ ان کے بالکل قریب سے ہو کر گزر جاتی اور اسے حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں مسلمانوں او رمسیلمہ کذاب کے درمیان مرتدین کے خلاف جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس وقت حضرت ثابت بن قیس انصار کے علم بردار ، حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ مہاجرین کے سردار او رحضرت خالد بن ولید پوری فوج کے سپہ سالار تھے، جس میں انصار ومہاجرین او رعرب بادیہ نشین سب شامل تھے۔جنگ کے پہلے مرحلے کے بیشتر معرکوں میں قوت وغلبہ کا توازن لشکر مجاہدین کے مقابلے میں مسیلمہ اور اس کے لشکر کی طرف تھا، یہاں تک کہ وہ حضرت خالد بن ولید کے خیمے میں داخل ہو گئے او ران کی بیوی ام تمیم کو قتل کر دینا چاہا۔ انہوں نے خیمے کی طنا بیں کاٹ ڈالیں اور اس کو بری طرح پھاڑ ڈالا۔ حضرت ثابت نے اس روز مسلمانوں کی کمزوری اور ان کے انتشار وپراگندگی کے جو مناظر دیکھے او رایک دوسرے پر طعن وتشنیع اور الزام تراشی کی جو باتیں سنی ، انہوں نے ان کے دل کورنج واَلَم او ران کے دل کو غم واندوہ سے بھر دیا۔ اس وقت شہروں کے رہنے والے ، بادیہ نشینوں پر بزدلی کا الزام لگا رہے تھے اور صحرا نشین شہریوں کو طعنہ دے رہے تھے کہ یہ ٹھیک سے نہیں لڑ رہے ہیں اور انہیں کیا معلوم کہ جنگ کیسے لڑی جاتی ہے ۔ اس وقت حضرت ثابت نے کفن سر سے باندھا او رمسلمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔”مسلمانو! ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معیت میں اس طرح نہیں لڑا کرتے تھے ۔ کتنی بری ہے یہ حرکت کہ تم نے دشمن کواپنے اوپر جرات کا موقع فراہم کیا اور کیسی ناپسندیدہ ہے یہ بات کہ تم نے ان کے سامنے کم ہمتی اور پست حوصلگی کا ثبوت دیا“۔ پھر اپنی نگاہوں کو آسمانوں کی طرف اُٹھاتے ہوئے کہا۔”خدایا! مسیلمہ او راس کے متبعین نے جس کفر اور شرک کا ارتکاب کیا ہے او رمسلمانوں نے جس کمزوری کا اظہار کیا ہے میں اس سے تیری جناب میں اپنی برأت اور لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں ۔“ پھر حضرت براء بن مالک انصاری، حضرت عمرکے بھائی حضرت زیدبن خطاب اور حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضوان علیہم اجمعین وغیرہم جیسے مبارک وفرخندہ فال صحابہ کرام کے شانہ بشانہ ایکبپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑے اور شجاعت ومردانگی کی ایسی مثال قائم کر دی جس نے مسلمانوں کے دلوں کو غیرت وحمیت او ردشمن کے سینوں کو خوف ورُعب سے بھر دیا۔ وہ برابر لڑتے او رہر ہتھیار سے مقابلہ کرتے رہے، تاکہ آنکہ زخموں سے چُور ہو کر میدان جنگ میں گر پڑے او راس شہادت سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو ئیں جس کی بشارت ان کے محبوب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی تھی اور اس فتح سے ان کا دل خوش ہو گیا جو الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے ذریعے عطا فرمائی۔حضرت ثابت بن قیس کے جسم پر ایک قیمتی زِرہ تھی۔ ایک مسلمان اِدھر سے گزرا تو اس نے وہ زرہ ان کے جسم سے اتار کر اپنے پاس رکھ لی۔ ان کی شہادت کی اگلی رات کو ایک مسلمان نے ان کوخواب میں دیکھا، انہوں نے اس سے کہا۔” میں تم کو ایک وصیت کر رہاہوں۔ سنو! اس کو ایک خواب کی بات کہ کر ٹال نہ دینا۔ کل جب میں قتل کر دیا گیا تو اس اس حلیے کے مسلمان کا گزر میری طرف سے ہوا۔ اس نے میری زرہ اتارلی او راسے اپنے خیمے میں، جو کیمپ کی فلاں سمت سے واقع ہے، لے گیا او راس کو ایک ہانڈی کے نیچے رکھ کر اس کے اوپر کجاوہ رکھ دیا۔ تم خالدبن ولید کے پاس جاکر ان سے کہنا کہ وہ زرہ لینے کے لیے کسی آدمی کو اس کے پاس بھیج دیں۔ وہ زرہ ابھی تک اسی جگہ پر ہے اور میں تم کو ایک دوسری وصیت بھی کر رہا ہوں۔ سنو! اس کو ایک سونے والے کا خواب سمجھ کر نظر انداز نہ کرنا۔ خالد سے کہنا کہ جب آپ مدینہ میں خلیفہ کے پاس پہنچیں تو ان سے کہیں کہ ثابت بن قیس کے ذمے یہ یہ قرضے ہیں اور ان کے فلاں فلاں غلام آزاد ہیں۔ وہ میرے قرضے ادا کر دیں اورمیرے غلاموں کو آزاد کردیں۔جب وہ آدمی نیند سے بیدار ہوا تو اس نے حضرت خالد بن ولید کے پاس جاکر جو کچھ ُسنا اور دیکھا تھا سب ان کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے ایک آدمی کو زرہ لینے کے لیے بھیجا اور وہ اس کو اسی جگہ ملی جس کی نشان دہی انہوں نے کی تھی، چناں چہ اس کو لاکران کے سامنے پیش کر دیا گیا اور جب حضرت خالد مدینہ واپس آئے تو انہوں نے حضرت ابوبکر سے حضرت ثابتکی یہ بات بتائی او ران کی وصیت بیان کی، چناں چہ حضرت ابوبکرنے ان کی وصیت کو نافذ کر دیا۔حضرت ثابت بن قیس کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں ہیجس کی مرنے کے بعد کوئی وصیت نافذ کی گئی ہو ۔ الله حضرت ثابت بن قیس سے راضی ہو اور ان کو راضی کرے او راعلیٰ علیین میں ان کا ٹھکانہ بنائے۔ آمین

الآسر چینل

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں