قارى محمد ذاكر: ايک عہد ساز شخصيت

قارى محمد ذاكر: ايک عہد ساز شخصيت

قارى محمد ذاكر مرحوم ايک عہد ساز شخصيت كے مالک تهے۔ آج جزيرة العرب ميں مدارس تحفيظ القرآن كان جو جال بچها هوا نظر آتا هے قارى صاحب اسكے اولين سرخيلوں ميں سے تهے۔

آپ كا سلسلہ نسب 33 نسلوں كے بعد خليفہ اول سيدنا صديق اكبر رضى الله عنہ سے جا ملتا هے۔
باوجود اسكے كہ آپ كے والد ماجد كا اسم گرامى محمد عبد المالك تها ليكن جب آپ كو 1394ھ ميں سعودى عرب كى شہريت سے نوازا گيا تو كاتب كى غلطى سے آپ كى ولديت عبد المالك كے بجائے عبد الماجد لكھ دى گئى اور اسى نام سے مشہور ہوگئے۔
قارى صاحب 1355ھ ميں علم وادب كے گہواره شہر لكهنؤ كے ايک دينى وعلمى گهرانے ميں تولد پذير ہوئے۔ آپ كے والد بزرگوار اپنے عہد كے مشہور زمانہ قارى تهے اور فن قرأت ميں مرجع كى حيثيت ركهتے تهے اور لكهنؤ كے معروف تاريخى مدرسہ فرقانيہ ميں فنون قرأت كى تعليم ديتے تهے، ليكن 1947ء ميں برطانوى سامراج سے آزادى كے نتيجہ ميں ہندوستان دو حصون ميں تقسيم ہوگيا تو قارى ذاكر كا خاندان اپنے وطن اصلى لكهنؤ سے ہجرت كركے نومولود رياست پاكستان كے علمى وتمدنى شہر لاهور ميں متوطن ہوا۔ ہجرت كے وقت ذاكر صاحب كى عمر 14 برس كى تهى۔ قارى ذاكر صاحب بچپن سے ہى علم دين كى طرف راغب تهے. چنانچہ كم سنى ہى سے والد محترم كے ساتهے ۔مدرسہ فرقانيہ آتے جاتے تهے اور محض 7 سال كى عمر ميں پوار قرآن مجيد حفظ كرليا اور مدرسہ فرقانيہ سے حفظ كى سند عطا ہوئى۔ لكهنؤ سے لاہور ہجرت كے بعد قارى ذاكر كے والد قارى عبد المالك نے دار الترتيل كے نام سے ايك مدرسہ كى بنياد ڈالى جہاں سے سيكڑوں قراء وحفاظ نكلے۔ لاہور ميں قيام كے دوران قارى ذاكر نے دار العلوم الاسلاميہ ميں داخلہ ليا اور مختلف مروجہ علوم وفون كى تعليم حاصل كى اور قراءت سبعہ كى اجازت سے سرفرارز ہوئے۔ والد كى وفات كے بعد قارى ذاكر كو 1379ھ ميں دار الترتيل كى مسند تدريس پر بيٹهايا گيا اور دوسال تك آپ درس وتدريس كا فريضہ انجام ديتے رہے۔
قارى ذاكر كى زندگى كا سب سے سنہرى باب اسوقت شروع ہوتا ہے جب آپ 1383ھ ميں اپنے زمانے كے معروف پاكستانى تاجر جناب يوسف سيٹهى صاحب – جو ان دنوں مكہ مكرمہ ميں قيام پذير تهے – كى دعوت پر ہجرت ثانیہ كركے سعودى عرب آئے تاكہ ديار حرمين ميں مدارس تحفيظ القرآن كى داغ بيل ڈاليں۔ يہ امر قابل ذكر هے كہ 1382ھ ميں سيٹهى صاحب نے سعودى عرب كے اولين جمعيہ تحفيظ القرآن كى داغ بيل مكہ مكرمہ ميں ڈالى۔ غور طلب امر يہ ہے كہ اس وقت جزيرهء عرب ميں رمضان ميں تراويح اور قيام الليل كى امامت كے لئے حفاظ ناياب تهے۔ محمد يوسف سيٹهى اور اسوقت كے معروف سعودى تاجر محمد بن لادن كى مخلصا نہ كاوشيں رنگ لائيں كہ محض 10 سال كى قليل مدت ميں مكہ اور اسكے اطراف كے قريوں ميں 150 سے زياد مساجد ميں حفاظ كى امامت ميں تراويح اور قيام الليل كى نمازيں ادا كى جانے لگيں اور اتنى هى تعداد ميں لقمہ دينے كے لئے حفاظ موجود رهنے لگے۔ اس طرح كى مثال حجاز كى تاريخ ميں پہلے كبهى نهيں ملتى۔
مكہ مكرمہ آمد كے ايک سال بعد تك قارى ذاكر وہاں سيٹهى صاحب كے قائم كرده مدرسہ تحفيظ القرآن ميں تدريس كا فريضہ انجام ديتے رهے. 1384ھ ميں آپ شہر بريده منتقل ہو گئے جہاں 1385ھ تك حفظ وقرأت كى تعليم ميں مصروف رهے. بريده ميں قيام كے دوران آپ كے ممتاز طلباء ميں سے د. عبد الكريم عبد الله الخضير – جو هيئۃ كبار العلماء كے ممبر هيں – اور د. صالح عبد الله الحميد – قضاء كى مجلس اعلى كے رئيس اور مسجد حرام كے خطيب وامام هيں – قابل ذكر هيں۔ اسكے علاوه آپ كے شاگردوں كى ايک بڑى تعداد هے جن ميں مفتی اعظم شيخ عبد العزيز آل شيخ، امام حرم عبد الرحمن السديس اور امام مسجد نبوى د. حسين آل شيخ كے اسمائے گرامى قابل ذكر هيں.
1383ھ ميں قارى صاحب كا تقرر رياض ميں سينير مدرس كے طور بر جمعيۃ تحفيظ القرآن ميں ہوا اور اس وقت سے زندى گى كى آخرى سانس تك آپ رياض كى مختلف مساجد ميں كتاب الله كى تعليم كا فريضہ بحسن و خوبى انجام ديتے رهے۔ يہ پورى مدت 45 سالوں پر محيط هے۔ قحط الرجال كے اس زمانے ميں كتاب الله كے ايسے خادم خال خال هى مليں گے. ايں سعادت بزور بازو نيست.
بقول قارى صاحب جب وه رياض تشريف لائے تهے اس وقت يہاں كى مساجد ميں حلقات تحفيظ كا چلن بالكل نہيں تها۔ پورے رياض ميں صرف شيخ محمد سنان كا ايک مدرسہ تها جہاں تحفيظ كى تعليم كا بندوبست ہوا كرتا تها اور اس مدرسہ كى عمارت بہت ہى بوسيده تهى. ليكن جمعيہ تحفيظ قرآن كے قيام كے بعد مساجد ميں حلقات تحفيظ كا چلن عام هونے لگا اور 1426ھ كے اعداد وشمار كے مطابق 5062 حلقے وجود ميں آچكے هيں جن ميں 105493 طلبہ كتاب الہى كى تعليم حاصل كررهے هيں اور 687 حفاظ مكمل قرآن حفظ كرچكے هيں۔
رياض ميں قيام كے دوران موصوف تحفيظ كے مختلف حلقات سے وابستہ رهے. 1402ھ امير عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن آل سعود كى دعوت خاص پر معذر محلہ ميں واقع امير موصوف كى قائم كرده مسجد ميں بحيثيت مدرس وامام وخطيب كى خدمت پر مامور هوئے. آپ جمعہ كا خطبہ عربى ميں ديتے اور ارود داں نمازيوں كى كثرت تعداد كے پيش نظر جمعہ كے بعد اردو ميں بذات خود خطبہ كا ترجمہ كرتے۔ آپ نے شہر رياض كى مختلف مساجد ميں نماز تروايح پڑهائى، علاوه ازين امريكہ اور مليشيا ميں بهى نماز تراويح كى امامت كى بارہا سعادت حاصل ہوئى. مسابقہ قرآن كے سلسلہ ميں كئى ممالك كا سفر كيا اور مملكت سعودى عرب كى نمائندگى كا فريضہ بحسن وخوبى انجام ديا جن ميں پاكستان، مليشيا، برازيل اور ارجنٹائينا وغيره قابل ذكر هيں.
سعودى عرب كے اكابر علماء – جن ميں اكثر آپ كے شا گرد يا شا گردوں كے شاگرد رهے هيں – آپ كو عزت واحترام كى نگاه سے ديكهتے تهے. الله تعالى نے آپ كو مختلف اوصاف حميده سے نوازا تها. آپ حسن خلق، تواضع، انكسارى اور سادگى كا پيكر تهے اور خورد نوازى كا آپ شيوه تها جس كا تجربہ راقم سطور كو بارہا ہوا ہے.
جيسا كہ پہلے ذكر آچكا هے كہ قارى ذاكر محمد يوسف سيٹهى صاحب كى دعوت پر سعودى عرب تشريف لائے تهے، سيٹهى صاحب نے ذاكر صاحب سے پوچها كہ كيا آپ اس ملك ميں كچھ عرصہ قيام كركے واپسى كى نيت سے آئے هيں يا اس مقدس سرزميں پر كتاب الله كى خدمت آپ كى آمد كا مقصد هے؟ پهر فرمايا اگر آپ يہاں اس نيت سے آئے ہيں كہ جب تك زندگى ہے يہاں قيام كريں گے اور كتاب الله كى خدمت كے لئے زندگى كو وقف كريں گے تو ايک نہ ايک دن همارى سعى رنگ لائے گى اور آپ بهى مستفيد هوں گے اور اگر آپ كا اراده اس كے برعكس هے تو همارى سارى جد وجہد لاحاصل هوگى۔قاری ذاكر صاحب كا جواب تها ’’همارى آمد كا مقصد تادم آخريں كتاب الله كى خدمت هے‘‘ اور عملا یہ ثابت كرديا كہ زندگى كے آخرى ايام تك كتاب الله كى تدريس ميں مصروف رهے۔ آسمان تيرى لحد پر شبنم افشانى كرے۔

ذاكر اعظمى
(بصیرت فیچرس)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں