اسلام میں نکاح کا آسان طریقہ

اسلام میں نکاح کا آسان طریقہ

﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجاً وَذُرِّیَّة﴾․(سورہ رعد:38)

ترجمہ:” اور ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے یقینا بہت سے رسول بھیجے او رانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔“

 

نکاح کے فضائل او راہمیت سے متعلق بے شمار حدیثیں ہیں ،لیکن میں تفصیل میں نہ جاتے ہوئے چند احادیث پر اکتفا کرتے ہوئے ساتھ ہی سماج اور معاشرہ میں رائج اور غیر ضروری رسم ورواج پر روشنی ڈالوں گا، جس نے نکاح جیسی اہم اور پاکیزہ ضرورت کو مشکل بنا دیا ہے۔

اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے متعلق جو معتدل فکر او رمتوازن نظریہ پیش کیا ہے وہ نہایت ہی جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے، بلکہ نکاح انسان کی بہت ساری فطری ضروریات میں سے ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ چنا ں چہ اسلام نے نکاح کو انسان کی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے او راحساس بندگی اور شعور زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ مذکورہ بالاآیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام بھی صاحب اہل وعیال رہے ہیں او ران کی سنتوں میں نکاح کرنا بھی شامل ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے فرمایا:”النکاح من سنتی“ نکاح میری سنت ہے او رایک دوسری جگہ نکاح کو آدھا ایمان کہا: عن انس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”إذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین، فلیتق الله فی النصف الباقی․“ (رواہ البیھقی)

حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملہ میں الله سے ڈرتا رہے۔“

نکاح سے متعلق معاشرہ میں رائج رسم ورواج
چند رسم ورواج کا تعلق لڑکے والوں کی طرف سے ہے توبعض لڑکی والوں کی طرف سے ، دونوں ہی افراط وتفریط میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ میں کبھی شادی سے اعراض ہوتا ہے، تکمیل تعلیم کا بہانہ ہوتا ہے ، عورتوں کا غیر ضروری تعلیم میں مشغول ہو نا ہوتا ہے اورتنگ دستی کا بہانہ تو کبھی ذمہ داریوں سے فرار۔ یہ ساری کے ساری غیر ضروری وجوہات ہیں، جو حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل منافی ہیں۔

بعض رسم ورواج لڑکی والوں کی طرف سے ہیں
وقت اور زمانہ کے لحاظ سے مختلف ملکوں میں مختلف رواج ہیں۔ کہیں مہر کی زیادتی اور زیور کا مطالبہ ہوتا ہے ، جس سے بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جس کی تمام تر ذمہ داری لڑکی کے اولیا پر عائد ہوتی ہے۔

٭… یہ چیز لا تعدادلڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
٭ …لوگ انجام سے بے خوف ہوکر اپنی لڑکی کا رشتہ اس شخص سے کر دیتے ہیں جو حق مہر زیادہ سے زیادہ ادا کرے۔
٭ …حق مہر او رزیور کی زیادتی سے شادی میں تاخیر ہوتی ہے۔
٭…اگر میاں بیوی میں اختلاف ہو جائے تو شوہر بیوی کو طعنہ دیتا ہے کہ میں نے تمہیں اتنا حق مہر اور زیور زیادہ دیا ہے۔
٭ …اگر میاں بیوی میں آسانی سے گزار ہ نہ ہو سکے تو آسانی سے علیحدگی نہیں ہوتی، کیوں کہ شوہر زیور او رمہر کی اتنی کافی مقدار کے لیے متفکر رہتا ہے اور بیوی کو بہت زیادہ تنگ کرتا ہے، حتی کہ نوبت خاندانی لڑائیوں تک پہنچ جاتی ہے۔

لہٰذا حق مہر میں آسانی کی فضا قائم کرنے سے ہی معاشرہ میں امن وسکون پیدا ہو گا اور بے شمار لوگوں کی شادیاں بآسانی انجام پائیں گی۔

بعض رسم ورواج لڑکے والوں کی طرف سے ہیں
جہیز کا ظالمانہ مطالبہ۔

لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ ہندوؤں کی رسم ہے،وہ اپنی لڑکیوں کو وراثت سے محرم کرنے کے لیے شادی پر کچھ نہ کچھ دیتے تھے، تاکہ لڑکی اس سامان کے عوض وراثت سے اپنا حصہ مانگنا ترک کر دے۔
٭… جہیز کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی تاخیر کا سبب بنتی ہے اور بہت ساری لڑکیاں شادی کی نعمت سے محروم رہ جاتی ہیں۔
٭… لڑکی کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے بے جا اور غیر ضروری جہیز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وراثت میں حصہ دیگر وارثین کی طرح لڑکیوں کا بھی حق ہے، الله کا ارشاد ہے:﴿یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ فَإِن کُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَیْْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَإِن کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَہَا النِّصْف﴾․( سورہ النساء:11)

” الله تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے او راگر صرف لڑکیاں ہی ہوں انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے صرف آدھا ملے گا۔“
٭…حد تو یہ ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے ایک لسٹ بھیجی جاتی ہے جو گھڑی، سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی، سوٹ کیس، بیڈ ، مکان اور ملبوسات وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔
٭… اخلاقی حالت اتنی پست ہو چکی ہے کہ لڑکیوں کو طعنہ دیا جاتا ہے ،کہ وہی چیز استعمال کرنا جو اپنے گھر سے لائی ہو۔
٭… جس کے گھر میں دو چار بچیاں ہو جائیں تو ان کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے اور جیتے جی مردہ معلوم ہوتے ہیں۔
٭…مرد عورت کا غلام ومحکوم ہو جاتا ہے او رعورت حاکم ہو جاتی ہے۔ ( راقم الحروف کے والد محترم جناب مولانا علی حسن صاحب اپنی تقریر میں ایک مرتبہ فرمارہے تھے کہ آج کل ہمارے معاشرہ میں ہر آدمی کا ایک اسٹنڈرڈ بن گیا اور اپنی سطح کے مطابق، بلکہ بڑھ کر اگر گھڑی مانگنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو گھڑی کے انداز میں او رگاڑی موٹر سائیکل والے اپنے اپنے انداز میں مانگتے ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عورت حاکم بن جاتی ہے اور مرد محکوم ہو جاتا ہے ،کیوں کہ عورت نے جہیز سے مرد کو خرید لیا ہے، لہٰذا مرد بیوی کے اشارہ پر ناچتا ہے)
٭…اخباروں کی سرخیاں اس طرح کی خبروں سے بھری پڑی ہیں کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے باپ نے پھانسی لگالی تو بیٹی نے خود کشی کر لی یا کہیں بہو کو جلا دیا گیا۔
٭…والدین سے مجبوراً جہیز لینا یقیناً باطل طریقہ سے مال کھانے کے ضمن میں آتا ہے ، الله پاک کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾․(سورہ نساء:29)

اے ایمان والو! ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔“ ایک حدیث میں حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ایک مسلمان کا خون، اس کا مال، اس کی عزت وآبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔“ اس آیت کریمہ او رحدیث مبارکہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جہیز کا لینا اور اس کا استعمال کرنا ناجائز ہے۔

٭…عام طور پر بہت بڑی بارات ایک جلوس کی شکل میں لے جاتے ہیں، جس میں ناچ گانے کا اہتمام کرتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والوں کو ایک اچھی خاصی تعداد کے لیے کھانا تیار کرنا پڑتا ہے، جو ان کے لیے ایک بے جا بوجھ ہے۔ اور لڑکے والوں کو باراتیوں کو منتقل کرنے کے لیے کئی کئی بسوں اور کاروں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جس میں کافی پیسوں کا بے جا اسراف ہوتا ہے۔ یہ وہی نکاح ہے جس کو شریعت نے دو خاندانوں کے مابین محبت، مؤدت او ررحمت کا ذریعہ بنایا ہے، جو باہمی نفرت وعداوت اور دشمنی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ظلم سے جہیز حاصل کرنے والوں کو خود ہی اپنی بیٹیوں کے معاملہ میں بہت زیادہ پریشان کن او رتکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑے: ﴿وَتِلْکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْْنَ النَّاس﴾ (سورہ آل عمران:140) یہ تو زمانہ کے نشیب وفراز ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ آج ہماری کل تمہاری باری ہے !!!!

بعض لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ لڑکی والے خود سے جہیز دے رہے ہیں۔ پھر بھی یہی حکم ہے کہ اس موقع سے آپ ان کو منع کر دیں، کیوں کہ یہ فتنہ کو فروغ دینا ہے او راگر دینا ہی ہے تو سال دوسال کے بعد دیں، پھر دیکھیے ملتا ہے کہ نہیں؟ اس لیے اس فتنہ سے بچنے کے لیے ہمیں ہر مشتبہ چیز سے بچنا ہو گا۔ والله ولی التوفیق․

مذکورہ بالا دو طرفہ ظالمانہ رسم ورواج سے بچنے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو دیکھتے اور صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے او راس کے مطابق شادیاں کرتے، جس سے ہمارا معاشرہ مثالی شوہر او رمثالی بیوی سے مزّین ہوتا۔ یہ ساری پریشانیاں او رمصیبتیں اس لیے ہیں کہ ہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے اور ایک نئی قسم کی شریعت گھڑ لی ہے۔

شوہر کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عن عائشة قالت قال رسول صلی الله علیہ وسلم:”خیرکم خیرکم لأھلہ، وأنا خیرکم لأھلی، واذا مات صاحبکم فدعوہ․“ (رواہ الترمذی)

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے اچھا ہو اورمیں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب میں اچھا ہوں، جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو اس کی بری باتیں کرنا چھوڑ دو۔“

”عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خیرکم خیر کم للنساء․“ (رواہ الحاکم) حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو۔“

”عن عائشة  قالت: ماضرب رسول الله صلی الله علیہ وسلم خادما ولا إمراة قط․“ (رواہ ابوداؤد) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم یا عورت کو نہیں مارا۔

گھر کے کام کاج میں شوہر کو بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔

عورت کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات
حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال اور اس کی عزت کی محافظ ہو۔ شیریں گفتار ہو، خوش مزاج ہو، قناعت پسند ہو اور شوہر کا دل لبھانے والی ہو۔ شوہر کی اطاعت گزار اور شکر گزار ہو اور اپنے بچوں سے پیار کرنے والی ہو۔

”عن ابی ھریرة قال: قیل یا رسول الله: أی النساء خیر؟ قال التی تسرہ إذا نظر، وتطیعہ إذا امر، ولا تخالفہ فی نفسھا ومالھا بما یکرہ․“ (رواہ النسائی)

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول الله بہترین عورت کون سی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” وہ عورت کہ جب اس کی طرف اس کا شوہر دیکھے تو اسے خوش کر دے، جب کسی بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرے، نیز عورت کی جان او رمال کے معاملے میں شوہر جس چیز کو ناپسند کرتا ہو اس میں اس کی مخالفت نہ کرے۔“

حضرت ابوہریرہ سے مزید روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو عورت پانچ وقت کی نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کرے، اسے ( قیامت کے روز) کہا جائے گا جنت کے (آٹھوں) دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے۔“

ہمارے لیے نبی صلی الله علیہ وسلم کی شادیاں، آپ صلى الله عليه وسلم کی پیاری بیٹیوں کا نکاح اور صحابہ کرام  کا نکاح نمونہ ہے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اپنی چار صاحب زادیوں کی شادی کی، ان میں سے ام کلثوم اور حضرت رقیہ کو کسی قسم کا جہیز دینا ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت زینب کو حضرت خدیجہ نے اپناایک ہار دیا تھا، جو جنگ بدو میں حضرت زینب  نے اپنے شوہر ابو العاص بن ربیع کو چھڑوانے کے لیے بطور فدیہ بھجوایا تھا، جسے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد واپس بجھوایا۔ حضرت فاطمہ  کو حضرت علی  نے مہر میں ایک ڈھال دی تھی، جسے فروخت کرکے رسول صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو گھر کا ضروری سامان پانی کا مشک، تکیہ اور چادر بنوا کردی تھی۔

صحابہ کرام  کے نکاح کے واقعات
صحابہ کرام کے ایسے بہت سارے واقعات ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے چندہ کرکے ان کی شادیاں کرائیں، حتی کہ مہر او رولیمہ بھی چندہ سے ہوا۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کے خادموں میں سے ربیعہ بن کعب بھی تھے۔ ایک مرتبہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا یا ربیعہ! تم نے شادی کی یا نہیں؟ حضرت ربیعہ  نے کہا نہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اسی طرح دوسری مرتبہ سوال کیا، چناں چہ تیسری بار حضرت ربیعہ نے کہا کہ یا رسول الله ! میں بہت غریب ہوں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں مجھ سے کون شادی کرے گا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ فلاں انصار کے قبیلہ میں جاؤ او رکہنا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے میری شادی کروانے کے لیے بھیجا ہے، لہٰذا انہوں نے ایسا ہی کیا اور قبیلہ والوں نے ان کی شادی کرا دی۔ پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے انصار کے سردار حضرت بریدہ بن حصیب کو سونے کی تھوڑی مقدار جمع کرنے کو کہا، جس سے مہر ادا کیا گیا اور پھر حضرت بریدہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بکری کے لیے کہا اور حضرت عائشہ نے جَو دیا، پھر روٹی اور گوشت سے ولیمہ کیا گیا۔ (الامام احمد فی المسند:4:58)

حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سہل بن سعد ساعدی کا نکاح ایک عورت سے کرایا، حضرت سہل بن سعد ساعدی اتنے غریب تھے کہ ان کے پاس مہر میں دینے کے لیے ایک لوہے کی انگوٹھی تک نہ تھی تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ چلو اس کو قرآن سکھا دینا۔ (بخاری:5087، مسلم:1425)

حضرت بلال نے جب اپنی شادی کی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک سونے کا ٹکڑا لے کر آئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ اس کو بیچ دو اور صحابہ سے کہا کہ اپنے بھائی کی ولیمہ میں مدد کرو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص نادار غریب ہو تو عورت کے والدین حسب استطاعت اپنے داماد کا تعاون کرنے کے لیے گھر کا بنیادی اور ضروری سامان دے سکتے ہیں۔ والله ولی التوفیق․

محترم اشرف علی قاسمی
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ کراچی)

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں