مولانا عبدالحمید: قیامت کا واقعہ بہت عظیم، خوفناک اور اہم ہے

مولانا عبدالحمید: قیامت کا واقعہ بہت عظیم، خوفناک اور اہم ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے نیک اعمال سے روزِقیامت کے لیے تیاری پر زور دیتے ہوئے اسے ایک عظیم، خوفناک اور اہم واقعہ قرار دیا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطبہ جمعہ تیرہ جون دوہزار چودہ کا آغاز قرآنی آیت: «يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا» [احزاب: 63]؛ (آپ سے لوگ قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس کا علم تو صرف الله ہی کو ہے اور اپ کو کیا خبر کہ شاید قیامت قریب ہی ہو) کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: قیامت ایک ایسا اہم دن ہے جس کے بارے میں تمام سابقہ مذاہب کے انبیائے کرام اور کتابوں نے خبردار کیاہے۔ یہ ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس کی مانند پہلے کسی انسان نے دیکھی ہے نہ بعد میں کوئی دیکھ سکے گا۔

انہوں نے مزیدکہا: روزِقیامت کروڑوں لوگ جو اس دنیا میں آئے اور پھر موت کا شکار ہوئے، ایک آواز سے اٹھیں گے اور قبروں سے نکل کر حساب وکتاب کے لیے اکٹھے ہوجائیں گے۔ اس دن سب اکیلے ہوں گے؛ خاندان، اولاد، ہم زبان اور ہم وطن لوگ ساتھ نہیں ہوں گے۔ ہر شخص صرف اپنے اعمال سمیت اللہ تعالی کے دربار میں حاضر ہوگا۔

مولانا عبدالحمید نے قیامت کی توصیف کرتے ہوئے کہا: قرآن پاک میں قیامت کو مختلف تعبیروں سے یاد کیاگیاہے جیسا کہ ’الحاقہ‘، ’القارعہ‘ اور ’الساعہ‘۔ ہر لفظ کا اپنا خاص معنی ہوتاہے۔ روزِ قیامت میں انسان کے چھوٹے بڑے تمام اعمال کا احتساب ہوگا۔ اس دن ہمارے اپنے اعضا وجوارح بول پڑیں گے اور ہمارے کرتوتوں پر گواہی دیں گے۔ قرآن پاک نے حضرت لقمان کی زبان سے ارشاد فرمایاہے: «يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ»؛ (بیٹا اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر ہو پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا وہ آسمان کے اندر ہو یا وہ زمین کے اندر ہو تب بھی اس کو الله تعالیٰ حاضر کر دے گا بےشک الله تعالیٰ بڑا باریک بین باخبر ہے۔) ایک دوسرے مقام پر ارشادِالہی ہے: «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ* وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ»؛ (سو جو شخص (دنیا میں) ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ (وہاں) اس کو دیکھ لے گا۔ اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا۔) جب ہمارے جوارح اور کراما کاتبین ہمارے تمام اعمال اور حرکات وسکنات کو ریکارڈ کرتے ہیں تو کوئی راہِ فرار نہیں ہوگا۔ اس دن ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ روزی کہاں سے آئی؟ پیسہ کیسے ملا؟ جوانی، علم اور پیسہ کہاں لگایا؟ جب کوئی مرجاتاہے تو اس کا حساب کتاب شروع ہوجاتاہے۔ ارشاد ہے: «قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ» [جمعه:8]؛ (آپ (ان سے یہ بھی) کہدیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ (موت ایک روز) تم کو آپکڑے گی ․ پھر تم پوشیدہ اور ظاہر جاننے والے (خدا ) کے پاس لیجائے جاؤ گے پھر وہ تم کو تمہارے سب کیے ہوئے کام بتلادے گا (اور سزا دے گا)۔)

ممتاز سنی عالم دین نے کہا: لہذا ہم سب کو اس عظیم اور یقینی طور پر آنے والے دن کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ جو چیز قیامت کو فائدہ پہنچائے گی وہ صرف اللہ کی رضامندی اور اچھے اعمال ہیں۔ یہ دنیا عمل کا مقام ہے۔ ہمیں سفرِآخرت کے لیے زادِ راہ اور توشہ تیار کرنا چاہیے، دولت اکٹھی کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے ’امانت میں خیانت‘ کو قیامت کی علامات میں شمار کرتے ہوئے کہا: ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا قیامت کب بپا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب امانت میں خیانت کی جائے قیامت ہوگی۔ ایمان اور امانت کا مادہ اور جڑ ایک ہی ہے؛ جو ایمان کا دعویدار ہے مگر امانتدار نہیں ہے، وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔ حدیث میں آیاہے «لا إیمان لمن لا أمانة له»؛ جو امانت دار نہیں ہے وہ صاحب ایمان نہیں ہے۔ دینداری، امانت داری اور سچائی انسان کی فطرت میں موجود ہیں لیکن بعد میں انسان حالات و ماحول سے متاثر ہوکر فطرت کی راہ سے بھٹک جاتاہے۔

انہوں نے مزیدکہا: تمام آسمانی ادیان میں امانت کی خیال داری وحفاظت پر زور دیاگیاہے اور اسلام میں سب سے زیادہ امانت اور وعدے کی وفاداری پر زوردیاگیاہے۔ البتہ امانت کا معنی ومفہوم بہت عام ہے۔ اسلامی احکام کی رعایت بھی امانت داری ہے۔ جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی باتوں سے اعراض خیانت اور بغاوت ہے۔ اگر انتخابات میں کوئی اپنا ووٹ نااہل امیدواروں کے نام اس لیے استعمال کرتاہے تاکہ کوئی پیسہ حاصل کرے یا اسے کوئی عہدہ مل جائے، تو یہ خیانت ہے۔ ووٹ دینا ایک قسم کی گواہی ہے جسے بخوبی استعمال کرنا چاہیے۔ جب مسلمان اور دیگر انسان امانت دار نہ ہوں، تو ان میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ امانت کس طرح ضائع ہوتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: «إذا وسد الأمر إلی غیر أهله فانتظر الساعة»؛ جب ذمہ داری نااہل لوگوں کے سپرد کی گئی تو قیامت کا انتظار کرو۔ شریعت نے زوردیاہے کہ جو لوگ اعلی عہدوں پر ہیں، صرف اہل اور قابل لوگوں کو ذمہ داریاں دیں اور انہیں عہدے سونپ دیں۔ اگر ایسا نہ کیاجائے تو افراتفری پیدا ہوگی۔ دنیا میں انقلابات کے رونما ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ نااہل لوگ حکومت پر قابض ہوتے ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے ’وفائے عہد‘ پر زور دیتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے: «لا إیمان لمن لا أمانة له و لا دین لمن لا عهد له»؛ جو امانتدار نہیں ہے اس کا ایمان نہیں ہے اور جو وعدہ خلافی کرتاہے، اس کا دین نہیں ہے۔ ایک سچا مسلمان ہر حال میں اپنے وعدے پر قائم رہتاہے۔ اقوام اور ریاستوں کو بھی اپنے وعدوں اور شرطوں پر قائم رہنا چاہیے۔ انسانی زندگی کی بنیاد بھروسہ پر ہے، اگر بھروسہ باقی نہ رہا تو پوری زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ احادیث میں عہدشکنی منافقوں کی نشانیوں میں شمار ہوچکی ہے۔

انتہاپسندی کی اصل وجہ سے مقابلہ کیاجائے
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے عالم اسلام کی تبدیلیوں اور بعض مسلم ممالک میں بدامنی کی نئی لہر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انتہاپسندی و شدت پسندی کی بنیادی وجہ سے مقابلے پر زور دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان، ایران، نے کہا: آج کل دنیا کے مختلف ملکوں میں بدامنی و تشدد کا بازار گرم ہے۔ شیعہ وسنی سب انتہاپسندی سے نالاں ہیں اور سب کو نقصان پہنچاہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ کچھ لوگ تشدد کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔

عالم اسلام میں جاری مشکلات و مسائل کے حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: ان تمام تنازعات کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے؛ مثلا تکفیر اور شدت پسندی کی کچھ وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے ’علت‘ سے مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ ’معلول‘ خودبخود ختم ہوجائے۔ موجودہ مشاجرات وتنازعات سے نجات کا واحد راستہ باہمی مکالمہ اور ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم کرنا ہے۔ جب ہم ساتھ بیٹھیں گے، ایک دوسرے کو تسلیم کریں گے اور اپنے حقوق کا خیال رکھیں گے تو مسائل حل ہوں گے۔

دارالعلوم زاہدان کے مہتمم وشیخ الحدیث نے مزیدکہا: تشدد اور دوسروں کو قتل کرنا ہرگز کوئی مناسب حل نہیں ہے؛ لڑائی اور تشدد سے مزید تشدد پیدا ہوتاہے۔ شام، عراق اور دیگر ملکوں میں جب تمام گروہ اور جماعتیں اکٹھی ہوکر ساتھ بیٹھیں گی اور مذاکرہ ومکالمہ کریں گی تو تنازعات کا تصفیہ ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہیے خود اپنے مسائل حل کریں۔ عالمی طاقتیں صرف اپنے مفادات کے پیچھے ہیں اور ان کے لیے صرف اسرائیل کا امن اہم ہے۔ مسلمانوں کے تنازعات سے اسرائیل اور عالمی طاقتیں اچھی طرح فائدہ اٹھاتی ہیں۔

خطے میں ایران کے اثرورسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: خطے میں جاری تنازعات کے حل کے لیے ایران کو آگے ہونا چاہیے۔ تمام بااثر مسلمان ملکوں کو اختلافات ختم کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور محنت سے متنازع گروہوں کو مذاکرات کے میز پر لانا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے توقع یہی ہے کہ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ مسلم علما اور دانشوروں کو بھی اپنی قوت اور اثرورسوخ کی حدتک کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم بھی مسلمانوں کے تنازعات کے حل کے لیے دعا کرتے ہیں اور اپنی حدتک تعاون کے لیے تیار ہیں تاکہ مسائل گفت وشنید اور منطق سے حل ہوجائیں۔

ایرانی قوم نے ایک سال قبل میانہ روی ومکالمے کو ترجیح دی
خطیب اہل سنت زاہدان نے صدر روحانی کے انتخاب کی پہلی سالگرہ کے حوالے سے کہا: آج سے ایک سال قبل ایرانی قوم کی اکثریت نے صدارتی انتخابات میں شرکت کی اور اپنے بجا اور درست انتخاب سے پوری دنیا کو حیرت میں ڈالا۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ قوم ڈاکٹر روحانی کو ووٹ دے گی۔

انہوں نے مزیدکہا: گزشتہ سال چودہ جون کو ایرانی ووٹروں نے اپنی راہ انتخاب کیا؛ مسٹر روحانی کو ووٹ دینے کا مطلب تھا قوم میانہ روی اور مکالمے کو ترجیح دیتی ہے۔ انتخابات سے پہلے تمام امیدواروںنے اپنے پروگرامز کا اعلان کیا لیکن عوام نے صدر روحانی کو ووٹ دے کر یہ مطالبہ پیش کیا کہ امتیازی سلوک ملک سے ختم ہوجائے اور تمام لسانی ومذہبی برادریاں اپنے حقوق حاصل کریں۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: صدرمملکت اور ’تدبیروامید‘ کی حکومت سے ہماری درخواست یہی ہے کہ مسائل کو مکالمہ اور قوت کے ساتھ حل کریں اور انتخابی مہم کے دوران دیے گئے وعدوں پر عمل کریں۔ اس حوالے سے صدرممکت کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ عوام کو بھی چاہیے حکومت اور صدر کی حمایت کریں تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرکے وعدوں کو آسانی سے جامہ عمل پہنائیں۔

صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان نے نیوکلیئر مسئلے پر حکومت کی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا: قوم عالمی طاقتوں سے مذاکرات کے مسئلے پر حکومت کے ساتھ ہے۔ جب ہم ایٹمی اسلحے کی تلاش میں نہیں ہیں تو ہم کیوں اس کی سزا بگتیں اور پابندیوں کے دلدل میں پھنس کر ہم کیوں کمزور ہورہے ہیں؟ لہذا شفافیت اور تدبیر سے پابندیاں ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس مسئلے میں ایرانی قوم حکومت کے ساتھ ہے۔

تفتان میں شیعہ زائرین پر حملہ چونکا دینے والا واقعہ تھا
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں پاکستان کے سرحدی شہر تفتان میں شیعہ زائرین پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک چونکا دینے والا واقعہ قرار دیا۔

انہوں نے سوال اٹھایا: ان افراد کو کیوں قتل کیاگیا اور ان کا جرم کیا تھا جس کی بنا پر ان کا قتل ضروری ٹھہرا؟ کیا انہوں نے کسی کو قتل کیا تھا کہ انہیں اس طرح قتل کرنا ضروری تھا؟ کون انہیں مارنے کا فتوا دے سکتاہے؟ وہ صرف زائر تھے جو آیت اللہ خمینی کی سالگرہ کے موقع پر ایران آئے تھے؛ اگر یہ کوئی برا کام ہے تو حملہ آوروں سے اس کا کیا تعلق؟ وہ خود جوابدہ ہوں گے۔ ہم دوسروں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اللہ تعالی ایسے نادان لوگوں کو ہدایت فرمائے، اگر ناقابل ہدایت ہیں تو ہمیں ان کے شر سے محفوظ فرمائے۔

آخر میں تہران یونیورسٹی کے معروف پروفیسر ڈاکٹر صادق زیباکلام کی موجودی پر مولانا نے مسرت کا اظہار کیا اور انہیں ملک کے اچھے دانشوروں میں شمار کیا۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں