البصیر جل جلالہ

البصیر جل جلالہ

البصیر جل جلالہ، الله رب العزت کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے ۔ بصر اس قوت کو کہتے ہیں جو مشہودات کا ادراک کرتی ہے، الله رب العزت کو جملہ مبصرات ومدرکات او رمشہودات کا ادراک حاصل ہے اور وہی البصیر جل جلالہ ہیں۔

سورہ یونس میں فرمایا:﴿ام من یملک السمع والابصار﴾ ترجمہ: ”شنوائی اور بینائی کا مالک کون ہے ؟ سورہٴ دہر میں فرمایا:﴿فجعلناہ سمیعاً بصیرا﴾ ترجمہ:” ہاں رب العالمین وہی ہے جس نے انسان کو سمیع وبصیر بنایا۔“ سورہٴ آل عمران میں فرمایا :” الله تعالیٰ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔“ سورہ انفال میں فرمایا:” الله اپنے بندوں کے اعمال کو دیکھنے والا ہے“۔ ”الله ہر شے کو دیکھنے والا ہے ۔

الله رب العزت نے کائنات کو رنگا رنگ عجائبات سے معمور فرمایا ہے، وہ تمام الوان واجسام افعال واعمال کو دیکھنے والا ہے، ہیئات واشکال کو دیکھنے والا بھی ہے۔

البصیر جل جلالہ وہ ہے جو سمندروں کی گہرائیوں ، رات کی تاریکیوں کا خالق ہے، لہٰذا تمام مخلوقات بّری، بحری او رخاکی کو دیکھنے اور ان کے حوائج وضروریات کو پورا کرنے والا ہے، تمام مخلوقات کی بصارتیں اسی البصیر جل جلالہ ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ بعض جانور ایسے ہیں جو اپنی تیز بینائی کے باعث شب تاریک میں بھی اپنا سفر جاری رکھنے والے ہیں، بعض ایسے ہیں کہ وہ اپنی بینائی کا کام دیگر حواس سے لیتے ہیں، مثلاً بچھو بینائی سے محروم ہوتا ہے، لیکن وہ اپنی قوت سماعت سے آنکھ کا کام لیتا ہے، سانپ کانوں سے محروم ہوتا ہے، الله رب العزت کی پیدا کردہ ناری اور نوری مخلوقات بینائی رکھتی ہے، لیکن غیر مرئی ہیں ،جنہیں ہماری آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے۔

انسانی بصارت کسی چیز کے فہم وادراک کے لیے بیرونی محرک روشنی کی محتاج ہے، چاہے وہ روشنی مصنوعی ہو یا قدرتی! البصیر جل جلالہ ہی نے انسانی آنکھوں کی بناوٹ مختلف بنائی ہے، کسی کو عقابی نظریں دے دیں تو کسی کی کبوتر جیسی۔ اختلافات نظر وبصر بھی اس البصیر جل جلالہ نے پیدا کیے ہیں۔ آنکھ دیکھنے کا آلہ ہے جو کسی بھی چیز یا منظر کو دیکھتی ہے، اعصاب پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں اور دماغ فہم وادراک کرتا ہے اور فکر ونظر کے پیمانے بُنتا ہے۔ دِل اور آنکھوں میں گہرا رشتہ ہے، آنکھیں دِل کی ترجمان ہوتی ہیں، یوں سمجھیں کہ شب تاریک کی آنکھ کھلتی ہے تو نور سحر کی نمود ہوتی ہے، آفتاب کی کرنیں شفق کی سُرخی کو چوم کر نوید مسرت دیتی ہیں، اگر دیکھنے والی آنکھ سحر خیزی کی عادی ہو تو ایک ننھی سی کرن گلاب کی کلی کو چومنے کا دل کش اور خوب صورت منظر پیش کرتی ہے اور آنکھ اس خوب رو اور خوب صورت منظر کو دیکھ سکتی ہے ،رات کو ہوا کا آنسو جو شبنم کا قطرہ نہیں، موتی بن کر کلی کی آغوش میں پناہ گزیں ہوتا ہے گر جاتا ہے اورکلی کی انتہائی نرم ونازک پتیاں ایک دل نشین انداز میں کھل جاتی ہیں اور کلی کھل کر خوب صورت او رخوبُ ر و پھول بن جاتا ہے، جو صاحب خرد وعقل انسان کو نویدمسرت دیتی ہے او رانسانی آنکھ نے یہ منظر دیکھا، دماغ سے فہم وادراک کیا تو دِل نوید مسرت سے محظوظ ہوا اور زبان نے ان سب کا ساتھ دیا اور کہا:
﴿فتبارک الله احسن الخالقین﴾․
دِل ضمیر کی خواب گاہ ہے، شرارتوں اور سازشوں کی آما ج گاہ، خواہشات کا خزانہ، مسرتوں کا گہوارہ، غموں کا سمندر اور ارمانوں کا بجلی گھر ہے او را س کے ساتھ ہی تمناؤں کا مرکز، حسرتوں کا قبرستان، عشق کا میدان اور خودی کا دولت خانہ ہے، اگر دِل پر جذبات موجود ہوں تو آنکھیں خوشی سے چمک اٹھتی ہیں اور اگر دِل سیاہ ہو تو چمکتی ہوئی، آنکھیں کچھ کام نہیں دیتیں حقیقی خوب صورتی کا سرچشمہ دِل ہے۔

ایمان، ارادہ اور نیت بھی دل ہی میں ہوتی ہے ، معلوم ہوا کہ دل اور آنکھوں میں گہرا رشتہ ہے، اگر انسانی آنکھ کسی اندوہناک منظر کو دیکھتی ہے تو فوراً دِل پر چوٹ پڑتی ہے اور پیمانہ چھلک پڑتا ہے اور اگر اندر غم کا بادل چھا جائے تو باہر رم جھم لگتی ہے اور بقول شاعر #
        مانا کہ ضبط عشق پہ ہے دِل کو اعتماد
        لیکن ہجوم اشک پہ کب اختیار ہے؟
شعراء ہجرو صال کا تذکرہ کرتے ہوئے آنکھوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے #
        آنکھوں نے خطا کی تھی آنکھوں کو سزا ملتی
        دِن رات تڑپنے کی کیوں دِل نے سزا پائی؟
البصیر جل جلالہ کے حضور اپنے گناہوں پر نادم معافی کی طلب گار آنکھ کی کیفیت کو شاعر نے یوں بیان کیا #
        جس آنکھ کے پردے میں چھلکتے رہیں آنسو
        دراصل وہ سرچشمہٴ انوارِ خدا ہے
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ دل خودی کا دولت خانہ ہے، جس کا علامہ اقبال  نے اپنے کلام میں مفصل ذکر کیا ہے، اسی طرح ایمان کا خزانہ بھی دل ہی میں ہوتا ہے اور حکمت اور دانائی دل ہی میں ہوتی ہے، جسے قرآن مجید میں الله رب العزت نے خیر کثیر فرمایا ہے، یہی حکمت ”بصیرت“ بھی کہلاتی ہے، بصارت آنکھ میں ہوتی ہے اور بصیرت دل میں !!

غزوہ خندق میں رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کدال چلاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ ایران وروم فتح ہو جائیں گے، میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی بصارت کا کام نہیں تھا، بلکہ بصیرت ہی کا تھا۔ نا آشنا بصیرت ،منافقین نے مذاق اڑایا کہ بھوکے پیٹ ، چٹان پر کدال مار رہے ہیں او رروم ویران کی فتح کی باتیں کرتے ہیں ؟ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کو فتح وغلبہ حاصل ہوا اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور روم وایران فتح ہوا، جہاں اسلام کا پرچم لہرایا گیا اور اہل اسلام کام یاب وکامران ہوئے #
        جھکا دیں گردنیں فرط ادب سے کج کلاہوں نے
        زباں پر جب عرب کے سارباں زادوں کا نام آیا

بصیرت دل کی آنکھ کی روشنی ہے جس کے حامل پاکیزہ قلوب ہوتے ہیں،مجاہدین اسلام دشمنان اسلام سے برسر پیکار تھے،حضرت عمر نے اپنی خداداد بصیرت سے خطبہ جمعہ دیتے ہوئے دیکھا کہ دشنمنان اسلام پہاڑ کے پیچھے سے حملہ کرنے والے ہیں تو دوران خطبہ پکار کر فرمایا ” یا ساریة الجبلَ“ یا ”ساریة الجبل“ یہ آواز فارس میں مجاہدین اسلام تک پہنچی!! خداداد بصیرت تھی، جس سے حضرت عمر نے سینکڑوں میل دور کیفیت جنگ کو دیکھ لیا تھا۔

حیاء انسان کی آنکھ میں ہوتی ہے، جسے حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طرف مردوں کو بھی نظروں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ۔ لہٰذا ایک سچے او رپکے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی فرماں برداری کرتے ہوئے ان نعمتوں پر عطائے البصیر جل جلالہ کا شکر ادا کرے۔ اگر دل میں یقین پیدا ہو جائے کہ ہمارا رب جوالبصیر جل جلالہ ہے و ہ ہماری طرح کی حرکات وسکنات کو ہر آن دیکھ رہا ہے تو بہت سے صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے حفاظت ہو سکتی ہے۔ ہر انسانی آنکھ سونے کی محتاج ہے، لیکن البصیر جل جلالہ کی ذات نیند اور اونگھ سے بری ہے۔ اور وہ ہر آن وہر لمحہ تمام چھوٹی بڑی، آبی، بری، ناری، نوری مخلوقات کو دیکھ رہا ہے، ایک لمحہ بھر کے لیے غافل نہیں۔ جو غافل ہو وہ رب نہیں ہو سکتا، لہٰذا جس البصیر جل جلالہ نے ہمیں بے شمار ولامتناہی نعمتوں سے نوازا ہے اسی کو راضی کرنے کے لیے اپنی آنکھوں جیسی نعمت کو صحیح استعمال کریں اور اسی کے سامنے پُرخلوص دِل، پرنم آنکھوں او رانتہائی خضوع وخشوع کے ساتھ دستِ دعا اٹھائیں۔

البصیر جل جلالہ ہماری بصارت اور بصیرت کو محفوظ رکھے۔ آمین!

ڈاکٹر محمد اشرف کھوکھر
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ کراچی)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں