شعبان، شبِ برأت اور شریعت

شعبان، شبِ برأت اور شریعت

شعبان کی فضیلت
شعبان المعظم اسلامی کیلنڈر کے مطابق آٹھواں مہینہ ہے، اس ماہ کی بہت سی فضیلتیں احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئیں ہیں۔

شعبان کی نسبت رسول اللہ کے ساتھ
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ (کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر ودیلمی ،فیض القدیر)

شعبان کے چاند اور تاریخ کا اہتمام
آپ صلى الله عليه وسلم نے امت کو یہ حکم فرمایا کہ ”احصوا ہلال شعبان لرمضان“․رمضان کے لیے شعبان کے چاندکو اچھی طرح یاد رکھو۔(ترمذی)

شعبان میں برکت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اللّٰھمَّ باَرِکْ لَنَافِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَان․
اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔(مسند احمد ،رقم الحدیث2228)

روزوں کا اہتمام
ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان کے بعد سب سے زیادہ اس ما ہ میں روزوں کا اہتمام فرمایاکرتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ: میں نے رمضان کے علاوہ رسول صلی الله علیہ وسلم کوکبھی پورے مہینے کے روزے رکھتے نہیں دیکھاسوائے شعبان کے، کہ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپ صلی الله علیہ وسلم روزے رکھتے تھے۔ (بخاری،مسلم،ابوداوٴد)

شعبان کے روزوں کا اہتمام
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں(نفلی) روزے رکھتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ:رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں،اس ماہ میں اللہ تعالی کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں،میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزے سے ہوں۔(نسائی،مسند احمد،ابوداوٴد:2076)

ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھانے رسول صلى الله عليه وسلم سے معلوم کیا کہ کیا آپ شعبان کے روزے بہت پسند کرتے ہیں ؟آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنے والوں کے نام اس ماہ میں لکھتا ہے،میری خواہش ہے کہ میری موت کا فیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزے سے ہوں۔(رواہ ابو یعلی)بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری عشرے میں روزے رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے تا کہ رمضان کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔

رمضان کی تیاری کا مہینہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخوں میں آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک خطبہ دیا،(اس خطبے میں رمضان کی عظمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کا تفصیل کے ساتھ ذکرفرمایا۔(ترغیب وترہیب:2/57)

شب برأت
اسی طرح اس ماہ کو پندرہویں رات کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے، جس کو قرآن کریم نے ”لیلة المبارکہ“ ،اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ”لیلةالبرأة“ فرمایا اور ہماری اصطلاح میں ”شب برأت“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، شب برأت فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی” نجات پانے کی رات “ کے ہیں،اس رات میں چونکہ بہت سے گناہ گاروں کو مغفرت مل جاتی ہے اس لیے اس شب کو شب برأت کہا جاتا ہے، شب برأت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے مروی ہے کہ ایک رات آپ صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا کہ:تجھے معلوم ہے یہ کون سی رات ہے؟میں نے عرض کیا :اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں،تو آپ نے فرمایا:یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے،اللہ رب العزت اس رات میں اپنے بندوں پر رحمت کی نظر فرماتے ہیں،بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں،رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں،کسی مسلمان کے بارے میں اپنے دل میں بغض رکھنے والوں کو اپنے حال پر چھوڑدیتے ہیں۔(شعب الایمان للبھیقي:3/382)

مغفرت کی رات
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی رات میں آ سما نِ دنیا کی طرف(اپنی شان کے مطابق )نزول فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جا تی ہے ،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔ (اخرجہ البزار والبیھقی،مجمع الزوائد للھیثمی)

اللہ تعالیٰ جسمِ مادی سے پاک ہیں، اس لیے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں کی طرف اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور بخشش بندوں پر زیادہ ہو تی ہے، اور اللہ تعالیٰ بندوں کی دعا کو منظور اور توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔(مجالس الابرارص:210،مجلس نمبر: 24)

حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالی پندرہویں شب میں تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور ساری مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے والوں کے سب کی مغفرت فرماتا ہے۔( صحیح ابن حبان ،طبرانی،ذکرہ الحافظ السیوطی في”الدر المنثور“)، حضرت عبد اللہ بن عمر سے ”مسند احمد“(2،176)میں اس کو الحافظ الہیثمی نے صحیح قرار دیا ہے، حضرت ابو موسی اشعری سے ”ابن ماجہ“(کتاب اقامت الصلوة:1/455) میں اس کو نا صر الدین البانی نے صحیح قرار دیا ہے،حضرت ابو ثعلبہ الخشنی سے ”الطبرانی“اور”الدر المنثور“میں،میں مروی ہے۔(ایضاً)

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”شعبان کی پندرہویں رات میں الله پاک اپنی مخلوق پر رحمت کی نظر فر ماتے ہیں، سوائے مشرک اور کینہ ور کے باقی سب کی مغفرت فرمادیتے ہیں۔ “(البزار، مجمع الزوائد)

حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ ور کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔(اخرجہ البزار،مجمع الزوائد للہیثمی) ۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آ پ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں را ت ہوتی ہے تو (الله پاک کی طرف سے )ایک پکارنے والا پکارتاہے کہ” کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں ؟کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو عطا کردوں؟ اس وقت الله پاک سے جو (سچے دل کے ساتھ ) مانگتا ہے اس کو (اس کی شان کے مطابق ) ملتا ہے سوائے بدکار کے۔“(شعب الایمان للبھیقی:3/383)

شب بیداری کرنے والے پر جنت واجب
ایک روایت میں ہے کہ لیلة القدر کے بعد سب سے افضل رات شب برأت ہے،حضرت معاذ سے روایت ہے کہ جو آدمی پانچ راتوں میں شب بیداری کریگا اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ،ان میں سے ایک شب برأت بھی ہے(ترغیب وترھیب)۔

دعا رد نہیں ہوتی
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھماسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی یعنی ضرور قبول ہوتی ہے،ان میں سے ایک شب برأت بھی ہے۔(بہیقی:2/312)

شبِ برأت کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے مروی ہے کہ اس رات(نفل) نماز کے سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعامانگتے ہوئے سنا:اَعُوْذُبِعَفْوِکَ مِنْ عقَابِکَ،اَعُوْذُ برِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ،اَعُوْذُبِکَ مِنکَ جَلَّ وَجْھُکَ،لَا اُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلی نَفْسِکَ“․

پھر جب صبح ہوئی تو میں نے اس دعا کاآپ صلی الله علیہ وسلم سے ذکر کیا، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اے عائشہ! اس کو سیکھ لے اور دوسروں کو بھی سکھادے ،کیوں کہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھ کو سکھائی اور کہا کہ اسے سجدے میں بار بار پڑھوں۔(عین ما ثبت بہ السنة عن البیھقی والنسائی)

دوزخ سے آزادی کی رات
ایک روایت میں ہے: اس رات اللہ قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتے ہیں(ایضا)

ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شب برأت انتہائی مبارک رات ہے،دعاوٴں کی قبولیت کی رات ہے،جھنم سے برأت کی رات ہے ،،لوح قلم سے اہم فیصلے نازل ہونے کی رات ہے،اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔اس رات میں نفلی عبادت کرنا ، موقع مل جا ئے تو چپکے سے قبرستان جا کر مردوں کے لیے دعا وغیرہ کرنا، کرنے کے کام ہیں ۔

لیکن کچھ بدبخت ایسے ہیں جو اس رات کی خیر اور برکت سے محروم رہتے ہیں جیساکہ احادیث میں مذکورہے، وہ یہ ہیں:
اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا، کینہ اور بغض رکھنے والا،  بدکار، کسی انسان کو ناحق قتل کرنے والا،  رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا،  پاجامہ ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا مرد،  والدین کا نافرمان ،  شراب کا عادی۔

اس رات میں ان اعمال صالحہ کا خاص اہتمام کرنا چاہیے:
عشاء اور فجر کی نمازیں وقت پر ادا کریں ۔بقدرِہمت نفل نمازیں خاص کر نماز ِتہجد ادا کریں۔اگر ممکن ہو تو صلوٰة التسبیح پڑھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت اوردرود شریف کااہتمام کریں۔کثرت سے اللہ کا ذکر کریں۔اللہ تعالی سے خوب دعائیں مانگیں،خاص کر اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں۔

پندرہ شعبان کا روزہ
15 شعبان کا روزہ ثابت نہیں ،پس کوئی شخص اس نیت سے روزہ رکھے کہ یہ ایّام بیض میں شامل ہے تو گنجا ئش ہے،لیکن 15 شعبان کے روزے کے مخصو ص ثواب کے اعتقاد سے روزہ رکھنا درست نہیں۔(فتاوی عالمگیری:1/170،فتاوی تاتارخانیہ:2/164)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:کوئی15 شعبان کا روزہ اس نیت سے رکھے کہ شعبان کا دن ہے،اور پورے شعبان کے مہینے میں روزے رکھنے کی فضیلت ہے،اور اس وجہ سے رکھے کہ 15تاریخ ایام بیض میں داخل ہے،تو ان شاء اللہ موجبِ اجر ہوگا،لیکن خاص پندرہ تاریخ کے روزے کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزے کو سنت قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں۔(اصلاحی بیانات: 4/273)

شبِ برأت کی بدعات
شب برأت میں بہت سی ایسی خرافات اور بدعات کی جاتی ہیں جن کا دین اسلام اور شریعت ِمحمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
حلواپکانا،  آتش بازی کرنا،  اجتماعی طور پر قبرستان جانا،  قبرستان میں عورتوں کا جانا،  قبرستان میں چراغاں کرنا،  مختلف قسم کی ڈیکوریشن کا اہتمام کرنا،  عورتوں اور مردوں کا اختلاط کرنا،  قبروں پر چادر چڑھانا،  مسور کی دال پکانے کو ضروری سمجھنا، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس رات میں مُردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور یہ دیکھتی ہیں کہ ہمارے لیے کچھ پکایاہے یا نہیں۔یہ بات بغیر کسی دلیل کے ہے،لہذا یہ اعتقاد صحیح نہیں۔حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو روحیں جنت میں ہیں ان کو آپ کے پکائے ہوئے کی ضرورت نہیں اور جو جہنم میں ہیں ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔

بعض لوگوں کاخیال ہے کہ شبِ برأت سے پہلے کوئی مر جائے تو جب تک اس کے لیے شبَ برأت میں فاتحہ نہ کی جائے وہ مُردوں میں شامل نہیں ہوتا۔یہ محض بے اصل بات ہے۔

”مغرب کی نماز کے بعددودو کر کے چھے رکعت پڑھنا اور ہر دورکعت کے درمیان سورہ یاسین پڑھنا“ یہ بھی ثابت نہیں،سنت سمجھ کر یا شبِ برأت کا مخصوص عمل سمجھ کر کرنا بدعت اور ناجائز ہے۔

حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:بعض لوگوں نے اس رات میں برتنوں کابدلنا،گھر کا لیبنا،کلی چونا ،رنگ وروغن،اور چراغوں کا زیادہ روشن کرناوغیرہ بدعت(اختیار)کر لی ہے یہ بالکل کفار کی نقل ہے اورحدیث تشبہ سے حرام ہے؛(اصلاح الرسوم،ص134)

ان خرافات اور بدعات کے متعلق حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی نوّر اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ:
اس رات میں نفلی عبادت کرنا،(کبھی)موقعہ ملے تو چپکے سے قبرستان جاکرمردوں کے لیے دعائے خیر کرنا، کرنے کے کام ہیں(جائز ہیں)۔لیکن نفل کی جماعت کرنا، قبرستان میں جمع ہو کر تقریب کی صورت بنانا،آتش بازی کرنا،حلوہ کا التزام کرناجائز نہیں۔(فتاوی محمودیہ:3/253، ادارہ الفاروق کراچی)

شب برأت میں قبروں پر روشنی کرنا اور اگر بتی جلانا رسمِ جہالت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔(فتاوی محمودیہ:3/285،ادارہ الفاروق کراچی)

ان راتوں میں شریعت نے عبادت ،نوافل،تلاوت،ذکر وتسبیح،دعا،استغفارکی ترغیب دی ہے،پھول وغیرہ سے سجانے کی ترغیب نہیں دی…مسجد میں جمع ہوکراجتماعی حیثیت سے جاگنا مکروہ اور ممنوع ہے۔ (فتاوی محمودیہ:3/263،ادارہ الفاروق کراچی)

شب برأت میں بلا کسی قیدو خصو صیت کے مطلق نماز کا ثبوت ہے،ہر شخص اپنے طور پر عبادت کرے، جس میں نما ئش یا کسی اورہےئتِ مخصو صہ کی پا بندی نہ ہو تو مستحسن ہے،… اور اگر اس میں رسوم اور ہئیتِ مخصوصہ کی پا بندی ہو گی توبدعت ہے،…15 شعبان کو مزاروں پر جا نا منع نہیں ہے لیکن 15شعبان کی وجہ سے مسنون بھی نہیں ہے۔(فتاوی محمودیہ:3/265،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جمہور انفراداً عبادت کے قائل ہیں،اس پر پوری امت کا اجماع ہے، اس رات میں کسی قسم کی عبادت کی تعیین ،مختلف قسم کے تقییدات و اجتماعات وغیرہ سب خرافات و بدعات ہیں۔(احسن الفتاوی:10/80)

اس رات میں قبر ستان جانے کا حکم
اس رات میں قبر ستان میں جا کر اپنے عزیزوں کے لیے ایصال ثواب کرنا ،دعائیں مانگنا اچھی بات ہے ۔احادیث میں اس کا حکم ہے، کبھی کبھی زیارت قبور کے لیے جانا چاہیے ، لیکن خاص اس رات میں جانا،پھر وہاں جا کر مختلف قسم کی خرافات کا انجام دینا…چراغاں کرنا، اگربتی جلانا،ٹولیوں کی شکل میں جانا اور آنا ،خصوصاََ عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا، یہ سارے کام شریعت کے خلاف ہیں ۔ایسے موقع پر عورتوں کا قبرستان جانا سخت گناہ کا کام ہے ۔اسی طرح مردوں کے لیے بھی اس رات میں قبرستان جانے کو ضروری سمجھنا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ:شب برأت میں قبرستان جانے کا خاص اہتمام کوئی ضروری نہیں ہے،کیوں کہ پوری زندگی میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے صرف ایک مرتبہ اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔

مسئلہ:شب برأت میں پوری رات جاگنا ضروری نہیں ہے،جتنا آسانی سے ممکن ہو عبادت کرلیں اور ساتھ میں اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی شخص کو آپ کے جاگنے کی وجہ سے تکلیف نہ ہو۔

آتش بازی
اس رات میں بلکہ اس سے کئی روز پہلے سے ہی آتش بازی شروع ہو جا تی ہے، پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں ۔اس میں ایک تو اپنے مال کو ضائع کرناہے اور دوسرا بے جا اسراف ہے ،جس سے متعلق قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے :”ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین․“( بنی اسرائیل:27) یعنی”بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔“اور ارشاد فرمایا:”ولا تسرفوا اِنہ لا یحب المسرفین“(انعام:141)”یعنی اسراف نہ کرو کیوں کہ بلا شبہ اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔“

یہ بھی تو عقل سے سوچنے کی بات ہے کہ کمائی کو اس مبارک رات میں نذرِ آتش کر دینا کتنی افسوس کی بات ہے ․․․․نیز اس گناہِ بے لذت کے نتیجہ میں کتنی جانیں تلف ہوئیں ،کتنے مکانات جل گئے ؟ اور پٹاخوں کے شور شرابے سے مریضوں اور عبادات میں مشغول لوگوں کو سخت اذیت پہنچتی ہے ،اور ایذاء مسلم حرام ہے، اسی طرح بہت سی مساجد اور گھروں میں بے ضرورت لائٹس کا انتظام کیا جاتا ہے ،چراغاں کیا جاتا ہے،یہ بھی درحقیقت ہند وؤں کی دیوالی کی نقل ہے اور غیر قوموں کی نقالی اور مشابہت اختیار کرنے میں آپ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:”من تشبہ بقومِِ فھو منھم“۔ یعنی”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی قوم میں سے شمار ہو گا۔“(ابوداأد)ایک اور جگہ آپ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:”من تشبہ بغیرنافلیس مِنّا“”جس نے غیروں کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں ہے “۔

اِدھر آسمانی رحمتوں کا نزول ہو رہا ہے اور ادھر اس کا مقابلہ رسومات اور بدعات ،آتش بازی ،چراغاں اور دیگر خرافا ت کے ذریعے کیا جا رہا ہے،اس سے بڑھ کرتعجب کی بات اور کیا ہو گی ۔اللہ تعالی ہی سمجھ عطا فرمائے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

ڈاکٹر مفتی احمد خان
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں