وقت کی اہمیت، مسلمان کی نظر میں

وقت کی اہمیت، مسلمان کی نظر میں

الحمدلله وحدہ والصلاة والسلام علی من لانبّی بعدہ․
الله رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَآتَاکُم مِّن کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّہِ لاَ تُحْصُوہَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ﴾ ․(ابراہیم:34)

ترجمہ: او رتم نے جو چیز مانگی وہ ہم نے تم کو عطا کی اور اگر تم الله کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے، بے شک انسان بہت بڑا ظالم اور ناشکرا ہے۔

الله رب العزت نے اس انسان ناتواں پر بہت ہی زیادہ انعامات فرمائے ہیں، جن کی اصول وفروع اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ایک انسان کے بس میں نہیں ، ان اصولی اور بنیادی نعمتوں میں ایک نعمت ایمان کی دولت ہے، جو ایک مسلمان کی روح او رجان ہے ، اس کے بغیر اس کی مثال جمادات ونباتات کی سی ہے، اسی طرح الله رب العزت کے بتلائے ہوئے احکامات پر ان کے مقتضا کے مطابق عمل کرنا بھی ایک نعمت عظمی ہے، جس کا تشکر محال ہے اور ان تمام نعمتوں کی اصل اور بنیاد وہ علم کی نعمت ہے، یہی نعمت ہے کہ جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا اور اسی نعمت پر انسان کی دنیا وآخرت کی سعادت مندی کا دارو مدار ہے۔

لیکن ان سب سے بڑھ کر ایک نعمت ایسی ہے جو تمام نعمتوں کے لیے اصل الاصول ہے اور بیش بہا قیمتی ہے، وہ وقت کی نعمت ہے، یہ نعمت الله نے ہر انسان، خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان، غریب ہو یا امیر، قوی ہو یا ضعیف، مردوزن ہر ایک کے پاس بطورِ امانت ودیعت رکھی ہے اور اس کے صحیح استعمال کا اس کو مکلف بنایا ہے۔

زمانہ کیا ہے ؟؟ زمانہ تمام تر عرصہ حیات کا نام ہے، انسان کی زندگی ہی اس کا کل زمانہ ہے او رانسان کا وجود اس کا میدان ہے، قرآن نے اس نعمت کی طرف متعدد مقامات میں اشارہ فرمایا ہے، الله رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:

﴿وَسَخَّر لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنَ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ، وَآتَاکُم مِّن کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّہِ لاَ تُحْصُوہَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّار﴾․(ابراہیم:34-33)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:﴿وَجَعَلْنَا اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْْلِ وَجَعَلْنَا آیَةَ النَّہَارِ مُبْصِرَة…﴾․(الاسراء:12)

ایک اورجگہ الله رب العزت نے اپنی ذات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ الله وہ ذات ہے جو تمام زمان ومکان او راسی طرح ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کا مالک ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ ولہ ما سکن فی اللیل والنہار…﴾․

زمانہ کی اہمیت کے لیے خو دالله رب العزت نے اس کی قسم کھائی ہے، یہ قسم کھانا اس کی اہمیت میں چار گنا اضافہ کر دیتا ہے اور زمانہ کی قسم الله رب العزت نے دو بہت ہی اہم مقامات پر کھائی ہے۔

ایک وہ جگہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم پر فترة وحی کا زمانہ طویل ہو گیا اور مشرکین نے آپ کو طعنہ دیا کہ الله نے اپنے نبی کو چھوڑ دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس اعتراض سے بہت زیادہ دلی صدمہ ہوا تو الله رب العزت نے زمانہ کی قسم کھا کر اس اعتراض کو رد کیا، الله رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَالضُّحَی، وَاللَّیْْلِ إِذَا سَجَی، مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلَی﴾․ (الضحی:3-1)

دوسرا وہ مقام جب الله رب العزت نے انسان کے خسارے کو بیان کیا تو زمانے کی قسم کھا کر اس کو بیان کیا، الله رب العزت کا ارشاد ہے:﴿وَالْعَصْر،إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ،إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾․(العصر)

قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جوالله پر ایمان لائے، نیک عمل کیے اور اپنے مسلمان ساتھیوں کو حق اور صبر پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی تو وہ کام یاب ہیں۔

حبر الأمة، مفسر قرآن حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے عصر کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ اس سے مراد زمانہ ہے ذرا غور کیجیے کہ الله رب العزت نے مخصوص زمانے کی قسم کیوں کھائی؟ اس لیے کہ انسان بھی مکمل زمانہ نہیں، بلکہ زمانہ کا ایک جز ہے، انسان کا زمانے کا جز ہونا اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔

حضرت امام حسن بصری رحمة الله علیہ سے سوال کیا گیا کہ انسان کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: ”الإنسان بعض الزمن“ انسان زمانے کا جزہے اور اس کا ایک حصہ ہے اور فرمایا کہ جب اس کا بعض حصہ ضائع ہو گیا تو گویا کہ اس کا کل حصہ ضائع ہو گیا۔

آج کل کے معاشرے میں اگر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آج کا انسان مکمل خسارے میں ہی پڑا ہوا ہے ، کیوں کہ وہ اپنی زندگی کو لغویات میں بغیر کسی فائدے کے ضائع کر دیتا ہے، انسان کی زندگی بھی اس کی کل متاع ہے، مگر جب وہ اس سے فائدہ حاصل نہیں کرے گا اوراس کو ضائع کرے گا تو تحقیق وہ کھلے خسارے میں پڑا ہوا ہے ،مگر قرآن نے اس شخص کو مستثنیٰ قرار دیا ، جو ایمان اور عمل صالح کو اختیار کرے۔

ذخیرہ احادیث میں بھی بہت ساری احادیث بھی وقت کی اہمیت سے متعلق وارد ہوئی ہیں، صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”نعمتان مغبون فیھا کثیر من الناس الصحة والفراغ“․

ترجمہ: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، ایک صحت اوردوسری فرصت۔

اس حدیث میں فراغ سے مراد وقت ہی ہے، معاشرے کا بغور مطالعہ ہمیں قطعی طور پر اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ آج کا مسلمان بھی اس دھوکہ میں مبتلا ہو کر وقت جیسی قیمتی متاع کو ضائع کر رہا ہے۔

اسی طرح ایک طویل حدیث میں جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ:”لاتزول قدما عبد حتی یسأل عن أربع: عن عمرہ فیما أفناہُ، عن شبابہ فیما أبلاہُ، عن رزقة من أین اکتسبہ؟ وفیما أنفقہ؟ وعن علمہ ما ذا عمل بہ “․(الحدیث)

ترجمہ: کسی بھی بندے کے قدم الله رب العزت کے دربار سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکتے جب تک وہ چار چیزوں کے متعلق سوال نہ کیا جائے، اس نے اپنی عمر کہاں خرچ کی؟اس نے اپنی جوانی کو کہاں استعمال کیا، اس کے رزق کے متعلق ،کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اس کے علم کے متعلق کہ جو اسے دیاگیا اس پر کتنا عمل کیا؟

اس حدیث میں اس بات کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ وقت الله کی ایک امانت ہے اور بروزجزا اس کا حساب چکانا ہر آدمی کے ذمے ضروری ہے۔

جس وقت اس دنیا میں قدم رکھتا ہے، اس وقت سے ہی دار آخرت کی طرف اس کا سفر شروع ہو جاتا ہے، اس کی مدتِ سفر لوح محفوظ میں لکھ دی جاتی ہے، یہ دن او ر رات اس سفر کی منازل ہیں، جن پر رکتے رکتے آخر کار انسان اس سفر کا اختتام کرتا ہے اور یہ ہر مرحلہ زندگی کے مراحل میں کمی کرتا ہے، انسان تمام مراحل کو طے کرنے کے بعد موت کو گلے لگاتا ہے، لیکن عقل مند اور فطین آدمی وہ ہے جوان تمام مراحل کو ایک مقصد کے تحت گزارے، زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت جانتے اور اس سے مکمل فائدہ اٹھائے، ناامید ی اور مایوسی سے کنارہ کشی اختیار کرے اور الله رب العزت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھے، جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

”الکیس من دان نفسہ، وعمل لما بعد الموت“․(الحدیث)

ناکام او رنامراد ہیں وہ لوگ جو اپنی زندگی کو لغویات میں ضائع کرتے ہیں او راپنی بدبختی کا سامان کرتے ہیں اور یہ عمر بھی ایک ایسی چیز ہے جس کو الله رب العزت نے کفار کے کفر کے خلاف حجّت قرار دیا… تو گویا کہ انہوں نے اپنی عمروں کو ضائع کیا… ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وألم نعمر کم ما یتذکر فیہ من تذکر وجاء کم النذیر…﴾․ الآیة

ترجمہ: کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر عطاء نہیں کی جس سے نصیحت حاصل کرنے والے نصیحت حاصل کر لیتے ہیں ۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے #
        فیا عجبا من معرض عن حیاتہ
        وعن حظہ العالي یلہو ویلعب
        ولو علم المحروم أي بضاعة
        أضاع لأمسی قلبہ یتلھب
        فإن کان لایدري فتلک مصیبة
        وإن کان یدري فالمصیبة أصعب
ترجمہ: تعجب ہے اس شخص پرجو اپنی زندگی اور اس کے بڑے حصے سے اعراض کرنے والا ہے اور اس کو لہو ولعب میں ضائع کرنے والا ہے او راگر محروم شخص یہ جان لے کہ اس نے کون سی متاع ضائع کی ہے تو اس کا دل جلنے لگے او راگر اس کو معلوم نہیں تو یہ مصیبت ہے او راگر معلوم ہو جائے تو مصیبت مزید بڑھ جائے گی۔

اے نوجوانو! اپنی زندگی کی حفاظت کرو اور اپنے وقت کو بے فائدہ کاموں میں مت ضائع کرو، یہ زمانہ ایک ایسی چیز ہے جو پلٹ کر نہیں آتی، جو بوسیدہ ہونے کے بعد دوبارہ نئی نہیں ہو سکتی ہے ۔

کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے #
        دقات قلب المرء قائلة لہ
        إنّ الحیاة دقائق وثوان
        فارفع لِنفسک بعد موتک ذکرھا
        فالذکر للإنسان عمر ثانٍ
ترجمہ: آدمی کے دل کی دھڑکنیں اس سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں کہ بے شک زندگی منٹوں اور لمحوں کا نام ہے، پس تم اپنے نفس کے لیے اس کے ذکر کو بلند کرو ، مرنے کے بعد کے لیے، اس لیے کہ مرنے کے بعد انسان کا اچھا ذکر انسان کی دوسری زندگی ہے۔

اخیر میں چند وہ امور ذکر کیے جاتے ہیں جو ایک طالب علم کو اس کے مقاصد کے حصول میں ممد او رمعاون ہوں گے۔
1…تمام کاموں میں نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے ، جو کام سب سے زیادہ اہم ہو اس کو اہم کام پر مقدم کرے اور اہم کام کو غیر اہم پر مقدم کرے۔
2…ان لوگوں کی صحبت اختیار کرنا جو وقت کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہوں، شیخ سعدی رحمة الله علیہ نے اس بات کو فارسی میں کچھ یوں بیان کیا ہے #
        صحبت صالح ترا صالح کندد
        صحبت طالح ترا طالح کند
3…فضول مجالس سے احتراز کرنا۔
4…ان علماء کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا جنہوں نے وقت کی قدروقیمت کو پہچان کر اسلام اور دین کی خاطر گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں، جیسا کہ امام ابویوسف رحمة الله علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ نزع کے وقت بھی اپنے ایک عیادت کرنے والے سے کسی فقہی مسئلہ میں گفتگو فرمارہے تھے ؛ تاکہ اس سے انہیں یا مخاطب کو فائدہ حاصل ہو جائے، امام ابن تیمیہ رحمة الله علیہ انتہائی کم وقت میں اتنی زیادہ تألیف فرمالیتے تھے کہ کوئی کاتب ہفتوں میں بھی اس کی تکمیل نہیں کر سکتا تھا۔
5…اپنے مطالعے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کرنا جو اس کے لیے زیادہ مفید ہو ، ایسا وقت جس میں ہر طرف خاموشی ہو اور آدمی ذہنی تھکاوٹ سے بھی دو چار نہ ہو، ایسے وقت کا مطالعہ بہت ہی دیرپا اور مفید ثابت ہوتا ہے۔

پس الله رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اوقات سے مکمل طور پر فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے او رہمارے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے۔ (امین!)

مولانا حبیب الله زکریا
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی
الفاروق میگزین

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں