سیاست ہو یا علوم اسلامیہ، جہاد ہو یا دعوت و اصلاح معاشرہ، پھر علوم دینیہ میں تفسیر ہو یا حدیث، فقہ ہو یا صرف ونحو، سیاست کا تعلق پاکستان سے متعلق ہو یا دنیا کے کسی اور حصے سے، سب میں وہ پیش پیش ہیں بلکہ امام کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمدیوسف دامت برکاتہم رحیم یارخان شہر میں جامعہ عثمانیہ کے مہتمم وشیخ الحدیث ہیں، ان کا دورہ نحو اور تفسیر پاکستان میں بے مثال نہ ہو، کم نظیر ضرور ہے جہاں درجنوں علمائے کرام اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں حضرت دارالعلوم زاہدان پہنچ کر چند دن قیام فرمایا جہاں آپ نے علمائے کرام اور طلبہ سمیت ہزاروں شہریوں سے علیحدہ خطاب فرمایا۔ آپ مولانا احمدناروئی رحمہ اللہ کے انتقال پرملال کی خبر سن کر مسلسل کوشش کرتے رہے کسی طرح زاہدان پہنچ جائیں اور اپنی تعزیت کا اظہار براہ راست کرلیں۔ یہاں تک کہ آپ گزشتہ بدھ چودہ مئی کو زاہدان پہنچ گئے۔ مولانا محمد یوسف نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان اور اپنی طرف سے مولانا احمد کے انتقال پر تعزیت و ہمدردی کا اظہار کیا۔
موقع غنیمت سمجھتے ہوئےایرانی اہلسنت کی آفیشل ویب سائٹ’سنی آن لائن‘ نے مولانا محمدیوسف دامت برکاتہم سے خصوصی انٹرویو لیا جو دو قسطوں میں پیش خدمت ہے۔اس انٹرویو میں حالات حاضرہ کے علاوہ مولانا کے سوانح، جمعیت علمائے اسلام کا تعارف وپس منظر اورمتعدد علمی مسائل ومباحث پر گفتگو ہوئی۔
سنی آن لائن: سب سے پہلے آ پ ا پنی تعلیم ، اساتذہ اور مصروفیات و عہدوں کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں۔
مولانا محمدیوسف: میرا نام محمدیوسف ہے اور والد کا نام حافظ عبدالستار رحمہ اللہ ہے۔ میں نے اکثر تعلیم ضلع رحیم یارخان اور ملک کے بعض دیگر حصوں میں حاصل کی ہے۔میرے سب سے بڑے استاذ جن سے میری نسبت ہے وہ حضرت مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہ اللہ ہیں۔دورہ حدیث مولانا جاجروی رحمہ اللہ کے پاس پڑھ کر تعلیم مکمل کی، مشکوة شریف دود فعہ اور تفسیر تین مرتبہ انہی سے پڑھی۔پھر حضرت استاذ کی نگرانی میں جامعہ بدرالعلوم حمادیہ رحیم یارخان میں پڑھایا؛ اسی زمانے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید اور مولانا محمدگل خاشی وہاں پڑھتے تھے چنانچہ تکمیل اسباق میں شرح عقائد وبعض دیگر کتب ان حضرات نے مجھ سے پڑھی۔اس کے بعد میں نے رحیم یارخان کے قریب چک اٹھاسی نامی بستی میں دارالعلوم عثمانیہ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ پھر اس مدرسے کو باقی رکھتے ہوئے میں رحیم یارخان شہر منتقل ہوا۔ سن انیس سو سترعیسوی میں تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا اور میدان سیاست میں بھی قدم رکھا۔
میرا سیاسی تعلق جمعیت علمائے اسلام پاکستان سے ہے، جس وقت میں اس جماعت سے وابستہ ہوا اس کے امیر حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمہ اللہ تھے۔ جبکہ مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ جمعیت کے ناظم عمومی تھے جسے جنرل سکریٹری کہتے ہیں۔ ان حضرات کے ساتھ کام کرتا رہا اور فعال بھی تھا، لیکن ظاہر ہے اس وقت میں نوجوان تھا اور قائدین میں میرا شمار نہیں ہوتا تھا۔اس دور میں ایوب خان صدرپاکستان تھے جس نے پہلے مارشل لا لگایاتھا، ان کے بعد یحیی ٰ خان کا دور آیا اور دوسرا مارشل لا لگا ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے تو مفتی محمود رحمہ اللہ وزیر اعلی سرحد(موجودہ خیبرپختونخواہ) تھے۔مفتی محمود نے نو مہینے وزارت کی لیکن دیگر بعض ناگزیر وجوہ پر انہوں نے از خود استعفا دے دیا۔ تو اس طرح جمعیت علمائے اسلام سیاست میں آگے بڑھی۔
جنرل ضیاالحق کے دور میں مفتی محمود اللہ کو پیارے ہوگئے۔مفتی صاحب رحمہ اللہ نے مولانا فضل الرحمن کو کوئی عہدہ دیا نہ ہی انہیں آگے کیا۔لیکن جماعت نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنا قائد بنالیا۔ حضرت نے بہت بڑے کردار ادا کیااور جماعت کی تقویت کی۔
مجلس عاملہ کے گیارہ عہدے ہوتے ہیں۔ ہم ہر تین سال کے بعد فارم جمع کراتے ہیں جس کا ایک سربراہ ہوتاہے اور اسے ناظم انتخاب کہتے ہیں۔تحصیلوں اور ضلعوں کی سطح پر امیر اور ناظم کا انتخاب ہوتاہے۔ چار سال پہلے ناظم عمومی میںنامزد ہوا۔ قواعد اور اصول کے مطابق جو ہماری جماعت کا ممبر ہوتاہے وہ کسی اور جماعت کا رکن نہیں بن سکتا۔اگر کسی اور تنظیم میں شامل ہو تو ہم اسے رکنیت نہیں دیتے ہیں۔کیوں کہ متعدد جماعتوں میں کام کرنے سے تنازع پیدا ہوسکتاہے اور پالیسیاں مختلف ہوتی ہیں۔
آخری رکن سازی میں ہمارے ارکان کی تعداد چودہ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ ان میں پانچ سوپانچ یا سات اصلی مجلس کے ارکان ہیں۔اصل پالیسی سازی اسی مجلس کے ذمے ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملکی مسئلہ ہو یا اندرون و بیرون کے تعلقات کے بارے میں کوئی مسئلہ ہو تو امیر اور ناظم ان کو بلاتاہے۔ بحث تمحیص کے بعد اگر اتفاق ہوجائے تو ٹھیک ورنہ ووٹ لیاجاتاہے اور اکثریت کی رائے پر امیرعمل کرے گا۔اگر دونوں جانب کی آراءبرابر ہوں تو امیر کو فیصلے کا حق ہے۔
مجلس عاملہ میں چار ناظم ، چار نائب امیرہوتے ہیں اور ایک خزانچی ۔ شوری میں پنتالیس رکن ہوتے ہیں۔امیر کو اختیار پورے ملک سے باصلاحیت لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے۔شوری سارے ملک سے ہوتاہے۔گیارہ آدمی تقریبا مجلس عاملہ کے رکن ہوتے ہیں۔پالیسی مجلس عمومی دیتی ہے لیکن تشریعات شوری کا کام ہے۔ شوری پالیسیوں کو مجلس عاملہ کے ذمے لگاتاہے۔ سال میںایک مرتبہ عمومی اجلاس ضروری ہے۔اگر ڈیرھ سال میں اجلاس نہ ہوسکا تو یہ تشکیل ختم ہوجائے گی اور نئے سے انتخابی عمل شروع ہوگا۔ اس وقت میں جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن ہوں اور اس تنظیمی ترتیب میں مرکزی ناظم ہوں۔جو ناظم ہوتاہے وہ شورا میں ضرور ہوتاہے۔
سنی آن لائن: جمعیت علمائے اسلام کیسے وجود میں آئی ؟ اس کے ماضی پر روشنی ڈالیں۔
مولانا محمدیوسف: جب انگریز برصغیر پر مسلط ہوا تو پہلے عملی جہاد ہوا۔ عملی جہاد میں سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے رفقا پیش پیش تھے جنہوں نے پورے ہندوستان میں کام کیا۔ ان کی شہادت کے بعد اٹھارہ سو ستاون میں انگریز نے باقاعدہ قبضہ جمانا شروع کیا۔ان کے مقابلے پورے ہندوستان نے عملی جہاد کیا گیا، خاص کر دیوبند اور یوپی کے علما نے اپنا کردار ادا کیا۔
دیوبند کے قریب مظفرنگر میں انگریزوں کی ایک بہت بڑی چھاو ¿نی تھی، علمائے کرام کی قیادت میں اکٹھے ہوئے مجاہدین چھاو ¿نی پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ اس پر دو رائے سامنے آئیں؛ حضرت صوفی محمد رحمہ اللہ کا خیال تھا ہم کمزور ہیں اور ان کا مقابلہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ جبکہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی ، مولانامحمدقاسم نانوتوی، حافظ ضامن اور مولانا رشیداحمدگنگوہی رحمہم اللہ کا خیال تھا انگریزوں سے لڑنا چاہیے۔ حاجی امداداللہ کی کمان میں لشکر تیارہوا اور انگریزوں کی فوجی چھاو ¿نی پر حملہ کیاگیااور چھاو ¿نی ان سے چھین لیاگیا۔ حافظ ضامن رحمہ اللہ شہید ہوئے جن کی قبر تھانہ بھون کے قریب بستی سے باہر ہے، پچھلے سال جب میں انڈیا گیا تو حافظ صاحب کی قبر پر حاضری دی۔
یہ مجاہدین بڑھ رہے تھے لیکن دہلی پر قبضہ ہوگیا تھا، بادشاہ کے اپنے رشتے داروںنے جاسوسی کی ، قلعہ انگریزوں کے قبضے میں آگیا اور بادشاہ گرفتار ہوگئے۔ اس سے سب کی کمر ٹوٹ گئی۔اٹھارہ سو ستاون اٹھاون جہاد کا سال ہے۔جب انگریز مسلط ہوا تو ظلم و جبر کی انتہاکی گئی اور پانچ سو جید علما کو پھانسی دے دی گئی۔ لیکن یہ ہمت نہیں ہارے۔تحریک زیرزمین چلی گئی۔انگریزوں نے ان اکابر پر مقدمہ بنایا؛ مولانا گنگوہی گرفتار ہوئے اور مولانا نانوتوی روپوش ہوئے۔ مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رہا کیاگیا۔ پھر انہوں نے مدرسوںکا کام شروع کیا۔ علماءختم ہوئے اور دین کی حفاظت کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
اٹھارہ سو چھیاسٹھ دارالعلوم دیوبند اور مظاہرالعلوم کے قیام کا سال ہے۔ دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تھے۔ مظاہرالعلوم کے پہلے شیخ الحدیث مولانا احمدعلی سہارنپوری تھے جو بخاری شریف کے محشی ہیں اور تمام صحاح پر ان کا حاشیہ ہے۔ مظاہرالعلوم بھی میں گیاہوں، وہاں میرے دادا جن کا نام تاج الدین تھا استاذ رہ چکے ہیں۔ وہاں کے پہلے صدرمدرس مولانا مظہر نانوتوی رحمہ اللہ تھے؛ مولانا احمدعلی سہارنپوری اور مولانا مظہرنانوتوی دونوں شاہ اسحاق کے شاگرد تھے۔ اٹھارہ سو نوے تک یہ تحریک پوشیدہ رہی اور اس دور کی تاریخ تحریر ی شکل میں کم ملتی ہے۔ اندازوں سے لوگوں نے کچھ لکھاہے۔ اس دور میں انگریز پر حملے بھی ہورہے تھے اور بہت کچھ ہوا لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا۔
اس طریقے سے اٹھارہ سو مکمل ہوکر انیس سو آگیا۔ انیس سو کے آٹھ دس سال بعد کچھ تنظیمیں بننا شروع ہوگئیں جن میں مسلم لیگ اور کانگریس شامل ہیں۔ کانگریس مسلمانوں اور ہندوو ¿ں کی مشترکہ جماعت تھی۔ مسلم لیگ صرف مسلمانوںکی تھی۔ علمائے کرام نے ان دونوں جماعتوں کو دین سے دور پایا، اگر ان میں شامل ہوجاتے تو وہ غلط فیصلے بھی کرسکتی تھیں۔ لہذا انہوں نے اپنی ایک مستقل تنظیم بنالی جس کا نام جمعیت علمائے ہند رکھا گیا۔حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا منصوبہ تھا تمام مسلمان اپنا ایک امیر بنالیں۔ لیکن ان کا انتقال ہوگیا اور یہ منصوبہ عملی نہ ہوا۔ پہلے یہ تنظیم منتشر تھی لیکن بعد میں جب مفتی کفایت اللہ اس کے صدر بنے تو جمعیت منظم ہوگئی۔ حضرت شیخ الہند کو کہاگیا آپ پھر سرگرم ہوئے ہیں، یہ انگریز مدرسہ تباہ کریں گے۔ انہوں نے جواب دیا حضرت نانوتوی نے کہاہے جب یہ مدرسہ پچاس سالوں تک رواں دواں ہوجائے تو پھر اسے کوئی نہیں چھیڑسکتا۔ وہ پچاس پورے ہوگئے ہیں۔
آخر میں حضرت شیخ الہند نے پالیسی بدل دی اور کہا ہم ہتھیار کی جنگ نہیں لڑسکتے۔ مسلمانوں کا کوئی مرکز نہیں ہے، جہاد کے لیے مرکز چاہیے جہاں سے تیاری ہوسکے۔ پالیسی یہ اختیار کی کہ ہم عوامی قوت اور احتجاج سے انگریزوں کو نکالیں گے۔ اس کام میں ہندوو ¿ں کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔ مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ بھی مدینے سے واپس آئے اور کام شروع کیا۔ البتہ انہوں نے طے کیا اتحاد سے کام کریں اور مسلم لیگ و کانگریس کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ حتی کے سکھوں سے بھی اتحاد کیا۔ اس وقت کے اکابرین نے کہا انگریز وں کے پاس دو قوتیں ہیں؛ ایک ہتھیار اور دوسرا وجاہت اوراقتدار۔ہتھیار کے مقابلے میں ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہے۔ ہم اگر ایک ماریں تو وہ دس ماریں گے۔ لیکن ان کا اقتدار اور وجاہت احتجاج ومظاہروں اور ریلیوں سے کمزور کیاجاسکتاہے۔ اس کا ان کے پاس جواب نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں توپ نہیں تھی، آگئی تو استعمال کی گئی۔ احتجاج کا ہتھیار بھی پہلے نہیں تھا، اب جب آگیا تو اسے استعمال کیاجائے۔ وہ ظلم کرے تم احتجاج کرو، ہتھیار کا جواب ہتھیار سے دوگے تو مارکھاو ¿گے، لہذا اس کا جواب احتجاج سے دو۔ کانگریس کی بنیاد انگریزکی حمایت میں رکھی گئی تھی۔ لیکن جمیعت العلما نے پورے ہندوستان کو انگریز کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کیا۔ درمیان میں ایک تحریک اٹھی جسے تحریک ریشمی رومال کہتے ہیں۔ س میں جرمنی سے معاہدہ تھاکہ وہ افغانستان کے راستے فوج دے گا اور اندر مسلمانوں اور ہندوو ¿ں کا مشترکہ لشکر اٹھے گا۔ لشکر کا کوئی نام نہیں تھا صرف اسے تحریک ریشمی رومال کہتے تھے چونکہ خط وکتابت کا کام کپڑے اور رومال پر ہوتا تھا۔ منصوبے کے مطابق ایک لاکھ قابض انگریزوں کو ایک رات میں قتل کرنا تھا۔جرمنی کی ساٹھ ہزار فوج کی کمان حضرت شیخ الہند نے کرنی تھی۔ لیکن راز فاش ہوگیا البتہ اس نے انگریزوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ ایک خفیہ تحریک تھی جسے حضرت شیخ الہند نے بنائی مگر اس میں فعال مولانا عبیداللہ سندھی تھے، اسی لیے پچیس سال جلاوطن رہے چونکہ انہیں گولی مارنے کا حکم تھا۔البتہ باہر سے رہنمائی کرتے رہے اور سیاست سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد مکمل احتجاجی طریقہ کار اپنا گیا۔ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ جنگ عظیم شروع ہوگئی اور وہ آپس میں لڑپڑے۔ اگرچہ فتح ان کوملا مگر معیشت پر جنگ نے اثرات چھوڑے اور وہ اتنے کمزور ہوگئے کہ از خود بھاگ گئے ۔
یہ دور تھا جمعیت علمائے ہند کی کارکردگی کا اور تقسیم کے بعد بہت سارے مسلمان پاکستان آئے اور بعض وہیں ہندوستان میں رہ گئے۔ جمیعت بھی دو حصوں میں بٹ گئی، پاکستان میں اس کی تشکیل نو ہوگئی۔ پاکستان میں جمعیت کے پہلے امیر حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ تھے جبکہ پہلے ناظم مولانا غلام غوث ہزاروی تھے۔ ان کے بعد دوسرے امیر مولانا عبداللہ درخواستی بن گئے اور مفتی محمود رحمہ اللہ ناظم عمومی تھے۔الحمدللہ یہ جماعت اب بھی سرگرم ہے اور ہم اسی کا حصہ ہیں۔کچھ عرصہ قبل ہم نے بھارت میں ایک مشترکہ جلسہ کیا جس میں بنگلادش ، بھارت اور پاکستان کی جمعیت علمائے اسلام کی شاخیں اکٹھی ہوگئیں۔ اس کا عنوان تھا امن کا پیغام۔ ہندوو ¿ں اور مسلمانوں سمیت سب سے کہا گیا امن سے رہو اور ایک دوسرے کے ساتھ رہو جیسا کہ پہلے رہتے تھے۔ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرو۔
سنی آن لائن: پاکستان میں متعدد دینی جماعتیں سرگرم ہیں، جمیعت علمائے اسلام ان میں سب سے بڑی ہے، اس کے تعلقات دیگر جماعتوں سے کیسے ہیں اور ماضی کی طرح وہ ایک پلیٹ فارم پر کیوں جمع نہیں ہوسکتیں؟
مولانا محمدیوسف: عالمی تاثر یہ ہے کہ دینی جماعتیں متحد نہیں ہیں تو یہ اسلام کیا لائیں گے؟! تو اس پر ہم نے محنت و کوشش کی اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والی بڑی جماعتوں کو اکٹھا کیا۔ اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود ہم نے اتحاد قائم رکھا اور پانچ سالوں تک حکومت بھی کی۔ ہمیں آگے بڑھنا تھا مگر ہمارے کچھ لوگ سازشوں کا شکار ہوئے جو اب نادم ہیں۔
اب پھر ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ ہوسکتاہے ہم دوبارہ ایک اسٹیج پرآجائیں۔ جب پانچ بڑی جماعتیں اکٹھی ہوجائیں تو فرقہ واریت کا تصور ختم ہوجائے گا۔مسلک تو ہر ایک کا اپنا ہوگا لیکن اس کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھانا فرقہ واریت ہے۔ یہ بھی بیرونی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ وہ نوجوانوں پر کام کرتی ہیں اور اس طرح کی فرقہ واریت موجود ہے۔ لیکن سنجیدہ طبقے جو ملک وملت کی فکر رکھتے ہیں، وہ سب اس پر متفق ہیںکہ ہمیں مشترکہ اہداف پر شریک و متحد ہونا چاہیے۔ متحدہ مجلس عمل میں سات حصے جمعیت علمائے اسلام کے تھے، پانچ حصے جماعت اسلامی کے لیکن باقی جماعتوں نے ایک ایک سیٹیں لیں یا کچھ بھی نہ لے سکیں۔بیرونی مداخلت اور عوام کو لڑانے کے باجود ہم مرعوب ہوئے نہ مایوس۔
سنی آن لائن: متحدہ مجلس عمل کے علاوہ تو خود جمعیت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی، مثلا نظریاتی گروپ سامنے آگیا؟
مولانا محمدیوسف: میں نہیں سمجھتا یہ ٹوٹ پھوٹ ہے؛ نظریاتی کی تو صرف ایک سیٹ ہے۔ کاغذوں پر تو گروہ بنتے رہتے ہیں لیکن عمل میں جمیعت علمائے اسلام ایک ہے۔
سنی آن لائن: دیگر دینی جماعتوں کی بہ نسبت جمعیت علمائے اسلام بہت کم میڈیا میں ظاہر ہوتی ہے اور خاص کر عالم اسلام کے مسائل کے بارے میں کوئی موقف پیش کرتے ہوئے میڈیا میں نہیں آتی، اس کی کیا وجہ ہے؟
مولانا محمد یوسف: مختلف مسائل کے حوالے سے سب سے زیادہ جمعیت علمائے اسلام فعال ہے، لیکن ایسا بیان نہیں دیتی جو اسے فریق بناتاہے۔ اگر ہم فریق بن جائیں تو ہماری کوئی سنے گا نہیں۔ فریق بن کر کام نہیں کرسکتے۔ انفرادی طور پر بہت کام ہوتاہے۔ملاقاتیں ہوتی ہیں، دورے بھی اور تعلقات بھی ہیں۔ بڑے بڑے ملکوں سے تعلقات بھی رہتے ہیں۔
سنی آن لائن: پاکستان اس وقت فرقہ واریت سے نالاں ہے اور لوگ فرقہ وارانہ لڑائیوںکے ہتھے چڑھتے ہیں، اس کہ وجہ کیاہے؟
مولانا محمد یوسف: جب اسحاق خان صدرپاکستان تھے تو ان کی خواہش تھی کہ پاکستان، ایران، افغانستان اور آزاد ریاستوں کو ایک بلاک بنالے، اسی لیے وہ ایران بھی آئے۔ ایرانی حکام نے انہیں ایک لسٹ دیا کہ پاکستان میں ہمارے اتنے لوگ شہید ہوئے ہیں، حالانکہ اتنے لوگ اہل سنت کے بھی شہید ہوئے تھے۔ جب صدراسحاق خان کو فہرست فراہم کی گئی تو انہوں نے صرف ایک جواب دیا: ہمیں بھی تشویش ہے کہ یہ کیوں ہوتاہے؟لہذا ہمارے ملک میں بیرونی مداخلت بند ہونی چاہیے۔ ہمارے پاس باقاعدہ ثبوت ہے کہ بعض ہمسایہ ممالک ہمارے ملک میں مداخلت کررہے ہیں۔اگر یہ مداخلت بند ہوجائے تو چند دنوں میں فرقہ واریت ختم ہوجائے گی۔ ہم پہلے سے اکٹھے رہتے تھے اور اب بھی رہتے ہیں لیکن باہر عصبیت پیدا ہوگئی اور پاکستان میں درآمد ہوگئی۔ جب کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکا سمیت دوسروں کو مداخلت کا موقع ملا۔ بعض مخلصین بھی ہیں جو اخلاص رکھتے ہیں لیکن دشمن کی سازشوں کو نہیں جانتے ہیں۔ جب حکومتیں پیسے خرچ کرتی ہیں تو ہم کیاکرسکتے ہیں!
سنی آن لائن: جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے آپ بلوچستان کے حالات کو کیسے دیکھتے ہیں؟ وہاں امن کیوں قائم نہیں ہوتا؟
مولانا محمدیوسف: بلوچستان کے بعض حصوں میں غفلت و لادینی غالب ہوئی اور پھرمارشل لا کی وجہ سے ٹکراو ¿پیش آیا۔ اس کے بعد بیرونی مداخلت کیلیے راستہ ہموار ہوگیا۔ اب حکومت کے بس میں بھی نہیں کہ یہ ذہنیت بدل دے۔بلوچستان کو الگ کرنا ایک خطرناک ذہنیت ہے۔ اب اگرچہ دباو ¿اور قبضے میں ہیں لیکن بدامنی ختم نہیں ہوسکتی۔
سنی آن لائن: جو علیحدگی کے لیے لڑرہے ہیں یا کسی سطح پر جدوجہد کررہے ہیں، ان کا دعوی ہے بلوچستان پہلے سے ایک الگ ریاست تھی جس کا نام ریاست قلات تھا۔ ہم اب اسی کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں جس پر زبردستی قبضہ کیا گیا، حالانکہ اس وقت کی مجلس زیریں کے ارکان نے ریاست کے استقلال پر رائے دی تھی جن میں علما بھی شامل تھے۔
مولانا محمدیوسف: ریاست کا تو پاکستان سے الحاق ہوا ، یہ قبضہ نہیں ہے بلکہ از خود پاکستان ہے۔ جب پاکستان بن گیا تو آپ کے جتنے مطالبات ہیں وہ پیش کیے جائیں، لیکن لڑائی و تشدد سے نہیں بلکہ احتجاج سے۔ پرامن طریقے سے جدوجہد ہر کسی کا حق ہے۔ اگر یہ راستہ اپنا یا گیا تو سب حمایت کریں گے، لیکن جب بے گناہ لوگوں اور مزدوروں کو صرف ان کے صوبائی یا لسانی تعلق ونسبت کی بنیاد پر مارنا کوئی احتجاج نہیں ہے۔ ہم ایسے اقدامات کے خلاف ہیں۔ جس ملک میں آپ کو احتجاج کا حق ہے پھر آپ تشدد کا راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ بھاولپور بھی ایک ریاست تھی لیکن وہ اپنے حقوق کے لیے لڑتے نہیں ۔ جلسے جلوس اور احتجاج کا حق سب کے لیے محفوظ ہے۔ انگریز کی کوشش تھی لوگ تشدد کی راہ اختیار کریں لیکن اس وقت کے قائدین تشدد پر نہیں آتے تھے۔انہوںنے ظلم برداشت کیا، تشدد نہیں کیا اور کامیاب ہوگئے۔
سنی آن لائن: آپ کے خیال میں حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا مستقبل کیسا ہوگا؟
مولانا محمدیوسف: حکومت کوشش کررہی ہے کہ یہ لوگ ہتھیار رکھ دیں، یہ حکومتوںکا اصول ہے کہ ہتھیار پھینک دو اور مطالبات منوالو۔ اگر وہ ہتھیار نہ پھینکیں اور متوازی قوت بنالیں تو مذاکرات کی کامیابی مشکل ہوگی۔ جب ملک میں احتجاج کا ہتھیار موجود ہے جو موثر بھی ہے یہاں تک کہ حکومتیں بھی اس سے بدل سکتی ہیں، تو پھر آپ اپنی بندوق کا رخ کہیں اور موڑلیں۔ ورنہ آپس کی لڑائیاں شروع ہوں گی اور دوسروں کو مداخلت کا موقع بھی ملے گا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا ایٹم بم ہے اور اسی وجہ سے یورپ اور امریکا ہم سے دشمنی کررہے ہیں۔
سنی آن لائن: جمعیت علمائے اسلام افغان صدارتی انتخابات کو کیسے دیکھتی ہے؟
چونکہ ہماری کوئی حکومت نہیں تو ہم دینی منظر سے کہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ان لوگوں کو اخلاقی طورپر ساتھ دیتے ہیں جو بیرونی طاقتوں کو نکالنے کی محنت کرتے ہیں۔ وہ نکلیں گی تو انتخابات آزاد ہوں گے۔ جمعیت کا موقف ہے کہ جو افغانستان میں خارجہ قوتوں کو نکالنے کے لیے لڑرہے ہیں تو وہ حق پر ہیں۔ طریقہ کار ان کا ہے اور وہ خود اپنی پالیسی بنالیتے ہیں۔ہمارا طریقہ اگرچہ احتجاج کا ہے لیکن ہم انہیں ڈکٹیشن نہیں دیتے کہ وہ اجنبی طاقتوں کو کیسے نکالیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم دوسرے ملکوں میں مداخلت کی وجہ سے رونما ہوئیں اور اب بھی بڑی طاقتیں وہی غلطی دہراتی ہیں۔ہتھیار بہت آگیاہے ہر ایک کے پاس ہتھیارہے، کیا پھر دنیا کو تباہ کرنا چاہتے ہیں!طاقت ہمیشہ نہیں رہتی۔جن کے پاس طاقت تھی ان کا حشر کیا ہوا؟
سنی آن لائن: بھارت میں عام انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوتاہے دائیں بازو کی ایک حکومت بننے والی ہے اور پہلی مرتبہ مسلمانوں کو کم تعداد میں سیٹیں ملی ہیں؛ آپ وہاں کے مسلمانوں کا مستقبل کیسے دیکھتے ہیں؟
مولانا محمدیوسف: بھارت میں جمہوریت کا راج ہے۔ تو اگر مودی آیاہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی فوجی آیاہے۔اگر یہ خلاف چلے تو جو سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں انہیں روک لیں گی۔ وہاں مسلمانوں کو ایک طاقت ہے، سیٹ اگر نہیں ہے عوامی حمایت تو حاصل ہے۔ ہمارے ملک میں بھی شاید ہم سے سیٹیں چھین لی جائیں لیکن عوامی حمایت کی وجہ سے وہ ہمارے محتاج ہیں، ہمارے تعاون کے بغیر وہ چل ہی نہیں سکتے۔
سنی آن لائن: آپ کے خیال میں اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے؟
مولانا محمدیوسف: عالم اسلام میں سب سے بڑا مسئلہ افتراق و انتشار ہے۔بیرونی دنیا اتحاد ہونے نہیں دیتی ورنہ ہم متحد ہوسکتے ہیں۔
سنی آن لائن:جمعیت علمائے اسلام ایرانی اہل سنت کے حالات ومطالبات کو کیسے دیکھتی ہے؟
مولانا محمدیوسف: ہرملک کے رہنے والوںکے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ سب کو ان کے حقوق ملنے چاہییں۔ لڑو نہیں احتجاج کرو۔ اگر کوئی ملک صرف طاقت کی زبان میں بات کرے اور لوگوںکو احتجاج کی اجازت نہ دے تو یہ ایک کمزوری ہے۔ جتنا کسی کو دباو ¿گے اتنا ہی وہ ابھرے گا۔جتنا کسی پر پابندی لگاو ¿گے اتنا ہی خود کمزور ہوجاو ¿گے۔ ایک مرتبہ کوئی وزیر صاحب ہمارے شہر رحیم یارخان آئے، بہت سارے لوگوں نے احتجاج کیا، گالیاں دی اور بے عزتی کی۔ اس سے پولیس پریشان ہوگئی، انتظامیہ بھی پریشان ہوگئی کہ وزیر صاحب کی بے عزتی ہوئی۔ جب اکیلے بیٹھے تو ان سے معذرت کی گئی کہ لوگوں نے گندا کام کیا۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں، کسی پر مقدمہ نہ بناو ¿۔ سب کو رہنے دو۔ ایک حق ان کا ہے ایک ہمارا؛ہم حکومت کریںگے اوروہ گالیاں دیں گے۔ یہ سیاسی ذہن ہے۔
اگر کوئی حکومت اپنے عوام کو بولنے کا حق نہیں دیتی وہ اپنا نقصان کرتی ہے۔کسی کی آواز بند کرنے کا مطلب ہے دبانے والے شخص کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ میرے خلاف کوئی بولتاہے اور اس کے جواب میں میرے پاس دلیل ہے تو اس کا منہ میں کیوں بند کروں۔ ہر بڑی طاقت ایک دن ختم ہوجائے گی۔ اس لیے عوام کو بولنے کا حق دینا چاہیے۔ پھر دلیل سے اس کا جواب دیں۔ میڈیا اور طاقت سب آپ کے پاس ہیں۔
سنی آن لائن: ایرانی اور پاکستانی عوام کے درمیان بعض غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں،مثلا وہاں کے لوگ سمجھتے ہیں ایرانیوں کو صرف گالیاں دینے اور گستاخی کا شوق ہے اور یہ ان کا معمول ہے جبکہ یہاںکے لوگ پاکستانیوں کو صرف دھماکوں اور تشدد سے پہچانتے ہیں، ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟
مولانا محمدیوسف: پاکستان میں دلیل کا بول بالا ہے اور عوام کی سطح پر اگرفرقہ وارانہ اختلافات ہیں، حکومتوں میں کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔ یعنی اداروں اور محکموں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا، سب برابر ہوتے ہیں۔ یہاں دوبھائی کہہ کر ثابت کردیاجاتاہے کہ اختلاف و افتراق ہے۔ لوگوں کو بولنے دیا جائے۔ اگر کوئی حکومت عوام کی آواز نہ سنے تو یہ اس کی کمزوری کی دلیل ہے اور وہ سمجھتی ہے عوام کی دلیل کا کوئی جواب اس کے پاس نہیں ہے۔
جاری ہے۔۔۔
آپ کی رائے