نائجیریا:’حکومت بوکو حرام سے مذاکرات کے لیے تیار‘

نائجیریا:’حکومت بوکو حرام سے مذاکرات کے لیے تیار‘

نائجیریا کی حکومت کے ایک وزیر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حکومت 200 سے زائد طالبات کو اغوا کرنے والی اسلامی شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔

بوکو حرام کے رہنما ابو بکر شیکاؤ نے پیر کو کہا تھا کہ وہ طالبات جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا وہ انھیں اپنے ساتھی قیدیوں کے بدلے میں رہا کر سکتے ہیں۔
خصوصی فرائض کے وزیر تنیمو توراکی کا کہنا ہے کہ اگر شیکاؤ پرخلوص ہیں تو انھیں مذاکرات کے لیے نمائندہ بھیجنے چاہیے۔
طالبات کو گذشتہ ماہ شمال مشرقی علاقے کے ایک سکول پر حملے کے بعد اغوا کیا گیا تھا۔
پیر کو منظرِعام پر آنے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ 130 طالبات قرانی آیات کی تلاوت کر رہی ہیں۔
نائجیریا کے وزیر تنیمو توراکی صدر گڈ لک جوناتھن کی جانب سے بنائی گئی اس کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں جس کا کام بوکو حرام کے ساتھ معاہدہ کرنا ہے۔ توراکی کا کہنا تھا کہ شیکاؤ اپنے قابلِ اعتماد بندوں کو کمیٹی سے بات چیت کے لیے بھیجیں۔
انھوں نے بی بی سی کے پروگرام فوکس آن افریقہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بحران کے حل کے لیے مذاکرات ہی اہم راستہ ہیں اور اس طرح کے مسئلے کو تشدد کے بغیر حل کیا جا سکتا ہے۔‘
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نائجیریا کی حکومت نے مذاکرات کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کیا ہے کیونکہ پہلے حکومت کا کہنا تھا کہ بوکو حرام کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہیں کی جائے گی۔
نائجیریا میں حکومت کے محکمۂ اطلاعات کے ڈائریکٹر مائک اومیری نے پیر کو کہا تھا کہ حکام طالبات کی رہائی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ غیر ملکی تعاون کے ساتھ فوجی کارروائی بھی ممکن ہے۔
منگل کو بعض لواحقین نے ویڈیو میں موجود اپنی اپنی بیٹیوں کی شناخت کی ہے۔
نائجیریا کے قومی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر گڈ لک جوناتھن نے منگل کو قومی اسمبلی سے کہا کہ وہ ریاست برونو سمیت تین ریاستوں میں نافذ ہنگامی حالت میں مزید چھ ماہ کے لیے توسیع کر دے۔ ریاست برونو سے ہی ان لڑکیوں کو اغوا کیا گیا تھا۔
مغوی طالبات کی تلاش میں مدد فراہم کرنے کے لیے امریکہ کے دفاع، محکمۂ خارجہ اور ایف بی آئی کے 30 ماہرین پر مشتمل ٹیم نائجیریا پہنچ چکی ہے۔ برطانیہ، فرانس اور چین کی ٹیمیں بھی پہلے ہی اس معاملے میں مدد دینے کے لیے وہاں موجود ہیں۔ اسرائیل کی بھی ایک ٹیم نائجیریا جا رہی ہے۔

بی بی سی اردو

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں