ماہ ِرجب اور اس کے فضائل ومسائل

ماہ ِرجب اور اس کے فضائل ومسائل

رجب المرجب کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔رجب اسلامی وقمری سال کا ساتواں مہینہ ہے ،اس کا شمار حرمت کے چار مہینوں میں ہوتا ہے،حرمت کے چار مہینے جس طرح قبل ازاسلام معزز ومحترم جانے جاتے تھے اسی طرح بعد از اسلام بھی ان کو وہی حیثیت حاصل ہے ،

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ﴿ِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ﴾(سورة التوبة،آیت:36پارہ:10)یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے،جو اللہ تعالی کی کتاب(لوح محفوظ)کے مطابق اس دن سے چلی آ رہی ہے جس دن اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا،ان (بارہ مہینوں )میں سے چار حرمت والے مہنے ہیں،یہی دین (کا) سیدھا سادہ(تقاضا) ہے۔

ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم اور رجب یہ حرمت کے چار مہینے ہیں ان مہینوں میں جہاں نیک کام کا اجرو ثواب دوگنا ہو جاتا ہے ،اسی طرح گنا ہ کے ارتکاب پر وبال اور عذاب بھی دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے،علامہ قرطبی فرماتے ہیں”فیضٰعف فیہ العقاب بالعمل السيّء کما یضاعف بالعمل الصالح“(تفسیر قرطبی :8/134،دار الکتب المصریہ)

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے ا ور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔“حضرت مفتی صاحب ”منھاأربعة حرم“کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ”ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ہے، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے،اور دوسرا اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ان میں پہلا حکم تو شریعت ِاسلام میں منسوخ ہوگیا مگر دوسرا حکم (احترام وادب)اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں ابھی باقی ہے۔“(معارف القرآن:4/370تا372)

رجب عربی زبان کا لفظ ہے۔ ترجیب سے مشتق ہے۔ اس کے معنی تعظیم وتکریم کے آتے ہیں،بعض حضرات نے اس کا معنی ”ڈرنا “سے کیا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے مہینوں کی طرح اس مہینہ میں بھی اللہ تعالی سے خوب ڈرنا چاہیے۔یہ مہینہ حرمت کے مہینوں میں ہونے کی وجہ سے محترم اور متبرک ہے اسی طرح اس میں عبادت کا اجر وثواب بھی زیادہ ہے،اس مہینے کے بہت سے فضائل احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں۔احادیث مبارکہ میں اس مہینہ میں روزے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اوراس پر بہت زیادہ اجروثواب کی خوشخبری دی گئی ہے۔

رجب کا مہینہ شروع ہوتاتو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے”اللّٰھمّ بارک لنا في رجب وشعبان،وبلّغنا رمضان“ یعنی:اے اللہ!رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرما ئیے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دیجئے۔(شعب الایمان :5،348، رقم:3534، مکتبة الرشد، ریاض)

اسلام نے اس مہینہ کو بہت معزز ومحترم بتلایا ہے ،مگر افسوس،صد افسوس کہ بعد کے جہلاء نے اس مہینہ میں بہت سی من گھڑت خرافات شروع کردیں جس کا دین ِ اسلام اور شریعتِ محمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ قرآن وحدیث میں ان کے بارے میں کوئی ذکر ملتا ہے۔

صحابی رسول،کاتب رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یوم وفات
22رجب صحابی رسول،کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا دن ہے،علامہ طبری  لکھتے ہیں :” مات معاویةبدمشق سنة ستین یوم الخمیس لثمان بقین من رجب“(تاریخ طبری:5،324،دار التراث، بیروت)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں اللہ کے رسول نے دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا:”اللّٰھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھد بہ“(جامع الترمذی :2/247)اے اللہ! تو معاویہ کو ہادی اور ہدایت یافتہ بنا،ان کو ہدایت عطافرما اور اس کے ذریعے ہدایت دے۔ایک اور جگہ فرمایا: اللّٰھم علّم معاویة الکتاب والحساب وقہ العذاباے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما،اور اس کو عذاب سے محفوظ فرما۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ”اللّٰھمّ علّمہ الکتاب ومکن لہ في البلادووقہ العذاب“(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،ج:9ص:356طبع بیروت)یعنی اے اللہ! معاویہ کو کتاب سکھا دے اور شہروں میں اس کے لیے ٹھکانے بنا دے اور اس کو عذاب سے بچا لے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہا کو کسی مشورے کے لیے طلب فرمایا،مگر دونوں حضرات مشورہ نہ دے سکے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ادعوا معاویة احضروہ أمرکم فإنّہ قويّ أمین“(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:9/356)ترجمہ:معاویہ کو بلاوٴاور معاملے کو ان کے سامنے رکھو ،کیونکہ وہ قوی ہیں (مشورہ دیں گے)اور امین ہیں(غلط مشورہ نہیں دیں گے) ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار کاتبان ِوحی میں ہوتا ہے اس پر تمام امت کا اجماع ہے ۔علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے کاتبین میں سے سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا ،یہ دونوں حضرات دن رات آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔“(ابن حزم ،جوامع السیرة،ص:27)
٭…حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مراسلہ ء نبوی کے قاری تھے۔(مسند احمد:3/441،مجمع الزوائد،البدایة والنھایة)
٭…آپ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا عظیم اعتماد تھا کہ خصوصی خطوط کے محرر رہے۔(الاصابة:3/393)
٭…آپ رضی اللہ عنہ کو پہلوئے نبوت میں بیٹھنے کا شرف حاصل رہا۔
٭…آپ رضی اللہ عنہ کونبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بال مبارک تراشنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔(تاریخ ابن عساکر)
٭…آپ رضی اللہ عنہ غزوات میں بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے،چنانچہ غزوہ حنین میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے 100،اونٹ اور40،اوقیہ بھی عنایت فرمائے ۔(بخاری ومسلم)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کامقام حضرت عبد اللہ ابن مبارک کی نگاہ میں
عبد اللہ ابن مبارک رحمةاللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ افضل ہیں یا عمربن عبد العزیز؟حضرت عبد اللہ ابن مبارک نے جواب دیا: ”جومٹی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت میں پڑی وہ عمربن عبدالعزیز سے ہزار درجہ افضل ہے۔“

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام حضرت پیرانِ پیر کی نگاہ میں
پیرانِ پیرحضرت عبد القادرجیلانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:”میں معاویہ کے راستے میں بیٹھوں،اس کے گھوڑے کے پاوٴں کی مٹی میرے اوپر پڑے میں اسے اپنے لیے باعثِ نجات اور فخرسمجھتاہوں۔“

٭…حضرت عمیربن سعیدرضی اللہ عنہ حمص کے والی تھے، ان کوحضرت عمررضی اللہ عنہ نے معزول کرکے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کومقررفرمایا تو اس موقع پر حضرت عمیرنے فرمایاکہ: معاویہ کو صرف خیرکے ساتھ یادکرو،کیونکہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کومعاویہ کے حق میں یہ دعاکرتے ہوئے سنا : ”اے اللہ! معاویہ کو ہدایت عطافرما۔“

کونڈوں کی شرعی وتاریخی حیثیت
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی ابدی کامیابی کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری میں رکھا ہے، انسان اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و رضا سے حا صل کرنے کیلیے ہر ممکن کو شش کرتا ہے مگر چونکہ انسان کی کامیابی شیطان کو اچھی نہیں لگتی تو جب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، شیطان اگر چہ اس سے خوش ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پر یشانی کی بات یہ ہوتی ہے کہ گناہ گار انسان جب ندامت و شر مند گی سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے گا تو اپنے گناہ سے بالکل پاک صاف ہوجائے گا اور شیطان سوچتا ہے، میری ساری محنت رائیگاں جائے گی، تو پھر…انسان کو ایک ایسے گناہ میں مبتلا کر کے مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس کے ارتکاب پر انسان کو تو بہ کی توفیق نہیں ملتی، اور وہ گناہ”بدعت“ ہے۔جی ہاں !بدعت بہت ہی سنگین گناہ ہے، کیوں کہ بدعتی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ بہت بڑی نیکی کر رہا ہے جبکہ وہ اپنے عمل کو گناہ تصور ہی نہیں کرتا تو وہ تو بہ کیسے کرے گا؟ تو بدعتی ہمیشہ توبہ سے محروم رہتا ہے۔

انہی بدعات میں سے ایک قبیح بدعت 22 رجب کے کونڈوں کی رسم ہے۔یہ بغضِ صحابہ اور تو ہینِ صحابہ پر مبنی رسم دشمنان صحابہ کی ایجاد کردہ ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ22رجب کی شب کو عورتیں نہا دھو کر با وضو ہو کر خاص طریقہ کے مطابق پوریاں بنا کر مٹی کے کورے کو نڈوں میں بھر کے…چوکی یا صاف چادر پر رکھ کر ایک منظوم کتاب پڑھواتی ہیں، اس رسم کی ابتداء سنہ1906ء میں ریاست رام پور (یوپی)سے ہوئی۔

کونڈوں کی من گھڑت کہانی:رجب کے کونڈوں کو ثابت کرنے کے لیے ایک جھوٹی کہانی کا سہارا لیا جاتا ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینے میں ایک غریب لکڑہارے کی بیوی نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو22 رجب کو میرے نام کے کونڈے بھرے گا پھر اللہ سے جو بھی دعا کریگا وہ قبول ہوگی ورنہ قیامت کے دن وہ میرا گریبان پکڑلے۔چنانچہ اس لکڑہارے کی بیوی نے ایسا ہی کیا ۔اس کا شوہر بہت سا مال لیکر واپس لوٹااور ایک شاندار محل تعمیر کر کے رہنے لگا،اور وزیر کی بیوی نے کونڈوں کو نہ ماناتو اس کے شوہر کی وزارت ختم ہوگئی۔پھر اس نے توبہ کی اور کونڈے بھرے تو دوبارہ وزیر بن گیا۔اس کے بعد بادشاہ اورقوم ہر سال دھوم دھام سے یہ رسم منانے لگے۔

یہ ایک قبیح بدعت و رسم ہے جو دشمنان صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایجادکردہ ہے،اس کی ایجاد صرف اور صرف بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اظہار کے لیے ہے ۔اس کا دین ِاسلام اور شریعتِ محمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :رجب کے کونڈوں کی کوئی حیثیت نہیں،یہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں،ان کو ترک کر دینا چاہئے…ان کو شرعی سمجھ کر پکانا، بنانا،کھانا بدعت ہے۔“(کفایت المفتی:2/283،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”کونڈوں کی مروجہ رسم محض بے اصل،خلافِ شرع اور بدعت ہے۔22رجب نہ حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کی تاریخِ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخِ وفات ،اس کا حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کے ساتھ کیا تعلق؟22رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ ِ وفات ہے۔اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔درحقیقت یہ رسم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے۔جس وقت یہ رسم بجا لائی گئی اس وقت اہل سنت کا غلبہ تھا( اس لیے خفیہ منائی گئی)،لہٰذا برادران اہل سنت کو اس رسم سے بہت دور رہنا چاہئے،نہ خود اس رسم کو بجا لائیں اور نہ ہی اس میں شرکت کریں۔“(فتاوی محمودیہ:1/220، ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کونڈوں کی مروجہ رسم دشمنان صحابہ رضی اللہ عنھم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اظہار مسرت کے لیے ایجاد کی ہے․․․․․․․مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہرگز ایسی رسم نہ کریں،دوسروں کو بھی اس کی حقیقت سے آگاہ کر کے اس سے بچانے کی کوشش کریں(احسن الفتاوی:1/368)

حضرت مولاناخیرمحمد جالندھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اس رسم میں ہرگز شرکت نہیں کرنی چاہئے،بلکہ حتی الوسع اسے مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے،اس دن نیک مقصد کے تحت خیرات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ،کیونکہ اس میں تشبہ بالروافض ہے،نیزان کے مکروہ ترین عمل کو تقویت دیناہے،اس عمل کی بنیادی غرض ہی صحابی رسول کی توہین اور مسلمانوں کے جذبات کومجروح کرنا ہے۔“( خیر الفتاوی:1/572)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:”آج کل معاشرے میں فرض، واجب کے درجہ میں جوچیز پھیل گئی ہے وہ کونڈے ہیں،نماز پڑھے نہ پڑھے ،روزہ رکھے نہ رکھے،گناہوں سے بچے نہ بچے لیکن کونڈے ضرور کرے،․․․․خداجانے یہ کونڈے کہاں سے نکل آئے،نہ قرآن کریم سے ثابت ہیں ،نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم سے،نہ تابعین سے نہ تبع تابعین سے اور نہ بزرگانِ دین سے،اس کی کوئی اصل نہیں،․․․(بس) ہماری قوم مزہ اور لذت کی خوگر ہے،․․․․․اس طرح کی چیزوں نے امت کو خرافات میں مبتلا کر دیا۔

حقیقت روایات میں کھو گئی ․․․․․․․․ یہ امت خرافات میں کھو گئی۔ (مأخوذ ازاصلاحی بیانات:1/54)

شب معراج منانے کی حقیقت
27رجب کی شب، شب معراج کے نام سے مشہور ہے ،اس رات میں خاص طریقے پر خاص تعداد میں نفل نمازیں پڑھی جاتی ہیں، ان کو ”صلوٰة الرغائب“کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،اس شب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس شب کو معراج پر تشریف لے گئے تھے ،پہلی بات تو یہ کہ واقعہ معراج کی تا ریخ میں اختلاف ہے ،کسی نے بھی تعیین کے ساتھ نہیں لکھا ہے کہ یہ واقعہ ستائیس رجب کی شب کو پیش آیا ہے ،بالفرض والمحال اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر قرآن وحدیث اور صحابہ وتابعین میں سے اس رات میں اس مخصو ص عبادت کے بارے میں کہیں بھی منقول نہیں ہے بلکہ محدثین اور فقہاء نے اس کی بھر پور تردید فرمائی ہے۔

علامہ محی الدین امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: 27 رجب اور شعبان کی پندرہویں رات کی مخصوص نمازیں سنت نہیں، بلکہ ناجائز اور بدعت ہیں۔

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے۔(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی)

27 رجب کا روزہ
عوام الناس میں ستائیس رجب کے روزے کو فضیلت والا سمجھا جاتاہے اوروہ رجب کی ستا ئیسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا ثواب ایک ہزار روزہ کے برابر سمجھتے ہیں۔ اسی واسطے اس روزہ کو” ہزاری روزہ“ کہتے ہیں ،مگر یہ فضیلت ثابت نہیں، کیونکہ اکثر روایات اس بارے میں موضوع ہیں اور بعض جو موضوع نہیں وہ بھی بہت زیادہ ضعیف ہیں، اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقا دنہ رکھاجائے۔علماء کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے ،حافظ ابن حجر عسقلانی نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ رجب کے مہینے میں ”تبارک“ اور27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:”اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے“۔(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148)

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ستائیسویں رجب کے روزے کو جوعوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزارروزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔(فتاوٰی دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ماہ رجب میں تاریخ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار دہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنتہ“ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔(فتاوٰی محمودیہ، 3/281،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:”27 رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں۔“(سات مسا ئل صفحہ:5)

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بدعت کا سد باب کیا
یہ تمام فتاوی جات ما ضی قریب کے ہیں، مگر اس سے بڑھ کر یہ کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت میں بعض لوگ 27رجب کو روزہ لازم سمجھ کررکھنے لگے ۔جب حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا کہ 27 رجب کا خاص اہتمام کر کے لوگ روزہ رکھ رہے ہیں، تو چونکہ ان کے یہاں دین سے ذرا ادھر ادھر ہونا ممکن نہیں تھا،چنانچہ وہ فوراً گھر سے نکل پڑے ،اور ایک ایک شخص کو جاکر زبر دستی فرماتے کہ” تم میرے سامنے کھانا کھاؤ ،اور اس بات کا ثبوت دو کہ تمہاراروزہ نہیں ہے“، باقاعدہ اہتمام کر کے لوگوں کو کھانا کھلایا ،حضرت عمر فاروق کا یہ عمل اور صحابہ کرام کا خاموش رہنااس لیے تھا تاکہ لوگوں کو یہ خیال نہ ہو کہ آج کا روزہ زیادہ فضیلت کا ہے،بلکہ جیسے اور دنوں میں نفلی روزہ رکھے جا سکتے ہیں ،اسی طرح اس دن کا بھی نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں، آپ نے یہ اہتمام اس لیے فرمایا تا کہ، بدعت کا سدباب ہو، اور دین کے اندر اپنی طرف سے زیادتی نہ ہو۔

اس رات میں جاگ کر کونسی برائی کرلی
اس سے اس بات کا جواب بھی معلوم ہوگیا کہ بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ” اگر ہم نے اس رات میں جاگ کر عبادت کرلی اور دن میں روزہ رکھ لیا تو کو نسا گناہ کرلیا؟کیا ہم نے چوری کرلی؟ یا شراب پی لی ؟یا ڈاکا ڈالا؟ ہم نے رات میں عبادت ہی تو کی ہے، اور اگر دن میں روزہ رکھ لیا تو کیا خرابی کا کام کیا؟“

دین ”اتباع“ کا نام ہے
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتلا دیا کہ خرابی یہ ہوئی کہ، اس دن کے اندر روزہ رکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے نہیں دیا،اور” خود ساختہ اہتمام والتزام ہی اصل خرابی ہے“، سارے دین کا خلاصہ ” اتباع“ ہے ،کہ ہمارا حکم مانو،نہ روزہ رکھنے میں کچھ رکھا ہے، نہ افطار کرنے میں کچھ رکھا ہے، اور نہ نماز پڑھنے میں کچھ رکھا ہے، جب ہم کہیں کہ نماز پڑھو تو نماز پڑھنا عبادت ہے، اور جب ہم کہیں کہ نماز نہ پڑھو تو نماز نہ پڑھنا عبادت ہے،جب ہم کہیں کہ روزہ رکھو تو روزہ رکھنا عبادت ہے اور جب ہم کہیں کہ روزہ نہ رکھو تو روزہ نہ رکھنا عبادت ہے، اگر اس وقت روزہ رکھو گے تو یہ دین کے خلاف ہوگا۔ تو دین کا سارا کمال ”اتباع “ میں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ حقیقت دل میں اتاردے تو ساری بدعتوں کے خود ساختہ التزامات کی جڑکٹ جائے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ ہر خرافات کو عبادات کے درجہ میں سمجھا جاتا ہے اور جوان کو نہ کرے اسے برابھلا کہا جاتا ہے، حالانکہ خود ان خرافات کی کوئی اصل نہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی وفات پر خوشی یہ ایک مسلمان کیسے کر سکتا ہے، مگر افسوس کہ دشمنان صحابہ کی ایجاد کردہ خرافات ان کی دیکھادیکھی اہل سنت میں بھی عام ہوتی چلی گئی، اور حالت یہ ہے کہ نادان اور ناواقف مسلما ن ان خرافات کو بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔ یہ بات تمام مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسی رسمیں جو بغض صحابہ اور تو ہین صحابہ پر مبنی ہیں اسے ہم اہلسنت بڑے اہتمام سے عبادت سمجھ کر ادا کریں، تمام مسلما نوں پر لازم ہے کہ ان تمام خرافات کو حتی الوسع مٹانے کی کوشش کریں اور نا وا قف مسلمانوں کودین کی حقیقت سے آگاہ کریں، کہں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن ہمیں دشمنان صحابہ کی صف میں کھڑا کردیا جائے۔

رجب کی روٹی
رجب المرجب کا مہینہ جب آتا ہے تو کچھ لوگ جمعہ کے دن میٹھی روٹی پکاتے ہیں اور اکتالیس مرتبہ سورہ ملک پڑھتے ہیں، اس کو ”تبارک“کہتے ہیں اور روٹی کو میت کی طرف سے فدیہ صدقہ خیرات سمجھ کر تقسیم کرتے ہیں ۔شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، رجب کی روٹی کے بارے میں مفتی محمودحسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”یہ نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ فقہا و محدثین کی کتب سے بلکہ من گھڑت ہے ،ایسی چیز کو شریعت میں بدعت کہتے ہیں، اس کاترک کرنا واجب ہے۔“(فتاوی محمودیہ: 3 /282،ادارہ الفاروق کراچی)

ان مذکورہ بالا تمام باتوں کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصل کی جانب لوٹ آئیں اور بدعات وخرافات سے توبہ تائب ہو کر فرائض،واجبات اور سنن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ۔اس سے پہلے جتنی بھی خرافات کی ہیں اس کی اللہ تعالی سے خوب گڑگڑا کر معافی مانگیں اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کریں، اللہ ہم سب کو اس توفیق عطافرمائے۔آمین!

ڈاکٹر مفتی احمد خان
استاد ورفیق دارالافتاء، جامعہ فاروقیہ کراچی
الفاروق میگزین

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں