قرآن وسنت کی تعلیمات میانہ روی اور معاشرے کی اصلاح کی راہ پرہیں

قرآن وسنت کی تعلیمات میانہ روی اور معاشرے کی اصلاح کی راہ پرہیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے شرعی احکام کے بعض فوائد اور خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن وسنت کے احکامات کو اعتدال اور معاشرے کی اصلاح کی راہ پر قرار دیا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے خطبہ جمعہ (نو مئی دوہزارچودہ) میں اسلام کو اعتدال ومیانہ روی کا دین قرار دیتے ہوئے کہا: سابقہ آسمانی ادیان میں ان قوموں کی سرکشی اور بغاوت کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے ان پر بعض پابندیاں عائد ہوچکی تھیں، قرآن پاک میں ارشاد ہے: «فبظلم من الذین هادوا حرمنا علیهم طیبات أحلت لهم»، (سو یہود کے ان ہی بڑے بڑے جرائم کے سبب ہم نے بہت سی پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں ان پر حرام کردیں اور بسبب اس کے کہ وہ بہت سے آدمیوں کے لیے الله تعالیٰ کی راہ سے مانع بن جاتے تھے۔)

انہوں نے مزیدکہا: دیگر ادیان کے برعکس اسلام میں آسانی پیدا کی گئی اور تمام احکام اعتدال کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ اسلام کے احکام وتعلیمات میں بہت سارے فوائد اور خصوصیات موجود ہیں۔ مثال کے طورپر روزہ، نماز اور حج میں انسان کی روح اور جسم کے لیے پاکیزگی اور تزکیہ کے اسباب موجود ہیں۔ ان عبادات کی برکت سے انسان گناہوں کی آلودگیوں سے پاک صاف رہتاہے۔ اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے اور دعائیں قبول ہوجاتی ہیں۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے ایمان اور توحید کو اسلام کے اعتدال ومیانہ روی کے ثمرات میں شمار کرتے ہوئے کہا: اسلام خرافات اور باطل عقائد کا دین نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور طریقہ اعتدال ومیانہ روی پر تھا۔ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم بھی اعتدال ہی پر یقین رکھتے تھے۔خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتیں معتدلانہ ہیں اور اگر ان پر عمل کیاجائے تو ان میں انسانی معاشرے کے لیے بے شمارفوائد وخصوصیات موجود ہیں۔

انتہاپسند کسی بھی برادری میں ہوں، انہیں لگام لگانا چاہیے
ممتاز سنی عالم دین نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں معاشرے میں انتہاپسندی و افراط کی اشاعت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہر صورت میں اعتدال ومیانہ روی اختیار کرنے پر زور دیا۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج کی دنیا میں مختلف گروہوں اور معاشروں میں افراط و انتہاپسندی اپنے عروج پر ہے۔ مشورت سے دوری اور اعتدال سے منہ موڑنے کی وجہ سے زندگی لوگوں کے لیے اجیرن بن چکی ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مسلم ممالک میں انتہاپسندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ مسلم ممالک میں بھی بعض فرزندان اسلام افراط وانتہاپسندی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ اسلام میانہ روی، مکالمہ اور امن کا دین ہے۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو خطاب کرکے رب العالمین نے ارشاد فرمایاہے: «وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ»، (اور اگر وہ (کفار) صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی اس طرف جُھک جائیے اور الله پر بھروسہ رکھئیے بلاشبہ وہ خُوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔) لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سرکشوں اور متکبر طاقتوں کے سامنے جہاد کا حکم ہے جو مکالمہ اور مذاکرہ پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: اسلام ایک ایسا دین ہے جو تمام دنیا والوں کے لیے امن کا پیغام لیکر آیاہے۔ اسلامی ثقافت اور روایات میں دوراندیشی اور بلندنظری پائی جاتی ہے اور اس میں سب کے سکون وآرام کے لیے گنجائش ہے۔ اگر مسلمان اسلام اور اعتدال کی راہ پر چل پڑیں اور اسلام کا دایرہ تنگ نہ کریں تو بہت سارے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض لوگ اسلام کو اپنی حد تک محدود رکھتے ہیں اور ان کادعوی ہے کہ صرف ان کی بات درست ہے۔ لیکن یہ ایک غلط نظریہ ہے؛ دوسروں کی باتیں بھی سننی چاہیے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے اسلام کی روح کو تہمت، جھوٹ اور الزام تراشی سے بیزار قرار دیتے ہوئے کہا: بعض اوقات ذرائع ابلاغ میں کچھ مضامین اور خیالات کو دیکھ کر بندہ پریشان اور افسردہ ہوتاہے۔ حالانکہ اسلام الزام تراشی، جھوٹ، تنگ نظری اور افترا سے سخت بیزار ہے۔

ایران میں بعض قدامت پسند سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے ایرانی سنی رہ نما نے کہا: میانہ رو قدامت پسند شخصیات ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن بعض لوگ جو خود کو قدامت پسند جماعتوں سے منسوب کرتے ہیں مختلف طریقوں سے اپنے مخالفین پر بہتان باندھتے ہیں اور جھوٹ وافترا سے کام لیتے ہیں۔ اس سے خود ان کی جماعتوں کو نقصان پہنچتاہے۔ انتہاپسند لوگ کسی بھی گروہ اور جماعت میں ہوں، سب سے زیادہ نقصان ان کی اپنی ہی جماعت کو پہنچتاہے۔ جس طرح اسلام کو نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے لیے اسلام دشمن عناصر انتہاپسندمسلمانوں کے رویوں کو دستاویز بناتے ہیں۔

تقوی وپرہیزکاری کو ہر گروہ اور طبقے کی کامیابی کا راز قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: جب خوف خدا نہ ہو تو لوگ کسی جھجک کے بغیر دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں اور جھوٹ بول کرحتی کہ ان کے اچھے کاموں کو بھی ب ±را دکھاتے ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں پر زور دیاہے کہ دشمنی اور عداوت کی صورت میں بھی انصاف کا خیال رکھیں اور ان کے بارے میں بھی ناانصافی سے کام نہ لیں۔

مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے مزیدکہا: جو لوگ ذرائع ابلاغ میں اسلامی اخلاق کا دامن ہاتھ سے جانے دیتے ہیں اور دوسروں پر الزام لگاتے ہیں، روزقیامت اللہ تعالی کے سامنے ان کاجواب کیا ہوگا؟ وہ اللہ کے غضب سے کیسے بچ سکیں گے؟ مسلمانوں کو ہرحال میں اللہ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ حتی کہ وہ لوگ جو اسلام کو نہیں مانتے ہیں، انہیں بھی کم ازکم اخلاقیات اور آزادی کی پاسداری کرنی چاہیے اور دوسروںکے حقوق کی خلاف ورزی سے اجتناب کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر تم اسلام کو نہیں مانتے تو کم سے کم آزاد بن جاو ¿۔ لہذا تمام لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی لسانی گروہ، مذہب، مسلک اور مشرب سے ہو، وہ کچھ حقوق کے مالک ہیں اور حرمت رکھتے ہیں۔

اپنے خطاب کے ایک حصے میں مولانا عبدالحمید نے صوبہ سیستان بلوچستان میں رہنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہمارے صوبے میں رہنے والے محترم ہیں اور ہماری درخواست ہے کہ سب اس صوبے کی ترقی کے لیے متحد ہوجائیں؛ امن وسکون ترقی کی صورت میں جلد حاصل ہوسکتاہے۔

انہوں نے کہا: بہت سارے خفیہ ہاتھ صوبے میں سرمایہ کاری کی روک تھام کے لیے سرگرم ہیں اور سرمایہ کاروں کو ڈرایا دھمکایاجاتاہے۔ سیستان بلوچستان کی پسماندگی ہی میں ان کی سیاسی حیات ہے ، یہ عناصر تمام مسالک و قومیتوں کے دشمن ہیں۔

انتہاپسندی کے انسداد ومقابلے پر زور دیتے ہوئے رکن ’عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین‘ نے کہا: انتہاپسند چاہے کسی بھی جماعت اور گروہ میں ہوں، انہیں بے دخل کرکے لگام لگانا چاہیے۔ ہم سب کے لیے امن اور عزت چاہتے ہیں، اگر یہاں کوئی خاص گروہ بدامنی کا احساس کرے ہم سمجھتے ہیں یہ ہمارے لیے بھی ہے۔ قومی امن اور بھائی چارہ سب کے لیے قوم کی حدتک ہونا چاہیے۔ جو لوگ فرق کرتے ہیں اور مخصوص برادریوں کے لیے امن ضروری سمجھتے ہیں، وہ اعتدال کی راہ سے بھٹک چکے ہیں۔ انتہاپسندی بہت خطرناک ہے۔ لہذا تمام ریاستی اداروں، تنظیموں،علما اور مدارس سمیت دیگر طبقوں کو میانہ روی کی راہ پر چلنا چاہیے اور انتہاپسند عناصر کی کارستانیوں پر چوکس رہنا چاہیے۔

جنرل السیسی اسرائیل نواز آمر ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے آخری حصے میں مصری فوج کے سابق سربراہ اور آمر جنرل عبدالفتاح السیسی کے ایک بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا: السیسی ایک فوجی بغاوت کے ذریعے مصر میں اقتدار پر قابض ہوگیا ہے اور اب تخت صدارت پر قبضے کے لیے نامزد ہوچکاہے۔ حال ہی میں اس نے کہاہے اگر وہ صدر بن جائے تو اخوان المسلمین تحریک کو جڑ سے اکھاڑدے گا جو ایک اسلام پسند تحریک ہے۔ اس کے بیان پر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتاہے فرعون اب بھی مصر میں زندہ ہے اور اس کی نسل کے لوگ وہاں موجود ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے السیسی اور اس جیسے لوگوں کو اسرائیل اور مغرب کے کٹھ پتلی یاد کرتے ہوئے کہا: یہ لوگ جو مسلمانوں اور کلمہ پڑھنے والوں کو دھمکی دیتے ہیں مغرب کے کٹھ پتلی ہیں اور اللہ تعالی ایسے لوگوں کے ناک مٹی میں ملادے گا۔ ہمارا خیال ہے جو لوگ اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اللہ تعالی انہیں سزا دیکر عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں