اپنی نسلوں کو مشقت کا عادی بنائیے

اپنی نسلوں کو مشقت کا عادی بنائیے

انسان کو اس زندگی میں خاص مدت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ لیکن وہ اس غلط فہمی میں ہے کہ اسے اس دنیا ہی میں رہنا ہے۔

اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کا اصل مقصد بھول جاتا ہے، اور چھوٹے چھوٹے اور بے ہنگم مسائل میں پھنس کر اپنی زندگی کو برباد کر بیٹھتا ہے۔ ایک عام انسان عموماً اسی طرح زندگی کے شب و روز بسر کرتا ہے اور پھر جب زندگی ختم ہوتی ہے تو اسے نہ پیچھے کچھ نظر آتا ہے اور نہ آگے اسے امید کی کوئی کِرن نظر آتی ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر آج جس ڈگر پر زندگی گزارنے کا ڈھنگ لوگوں نے اختیار کررکھا ہے وہ پُرکیف اور لذت بھری زندگی ہے۔ چناں چہ شادی بیاہ سے لے کر تعلیم و تربیت، روزگار ، سماجی تعلقات حتیٰ کہ موت تک کے مواقع کو لذت و لطف کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔

قوموں کی ترقی میں لذت اور مشقت کی بڑی اہمیت ہے۔ جو قوم، مشرق کی ہو یا مغرب کی، اپنی زندگی کے روز و شب محنت اور مشقت کے ساتھ بسرکرتی ہے اور آرام و آسائش کو پس پشت ڈال دیتی ہے، وہی ترقی کرتی اور دنیا میں نام کماتی ہے۔ اس کے برخلاف جس قوم کے افراد بالخصوص نوجوان اپنی سرگرمیوں کو لذت و مسرت کا مرکز بناتے ہیں، اور دن رات آرام سے گزارنے کی فکر کرتے ہیں، ایسی قومیں کبھی نام اور مقام نہیں پاتیں۔

زندگی محنت سے عبارت ہے۔ اس دنیا کا نظام اس قانون کے تحت چل رہا ہے کہ جو قوم اور فرد اپنی زندگی میں محنت اور مشقت کو اختیار کرتا ہے، وہی نام اور آرام پاتا ہے۔ اور اسی قانون کے تحت جو فرد یا قوم آرام اور آسائش کے چکر میں پڑجاتے ہیں، وہ زندگی بھر مشقت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔

اسلام ہمیں ایسی زندگی اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے جہاں لطف کی جگہ اللہ کی رضا کو فوقیت دی جائے؛ جہاں راحت کے بجائے مشقت اختیار کرنے کا مادہ پایا جائے؛ جہاں دنیا کے عارضی آرام کی جگہ آخرت کے ابدی آلام سے بچنے کی جدو جہد کی جائے۔

اس تعلیم کی فراہمی کی اسلامی معاشرے میں سب سے بڑی ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے، لہٰذا اس تعلیم کا آغاز انسان کی پیدائش سے پہلے ہی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس بنا پر مسلمان والدین یعنی ماں اور باپ دونوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تعلیم اور تربیت اس انداز سے کریں کہ ان کی اولاد لطف کی جگہ اللہ کی رضا کو فوقیت دینے والی بن جائے؛ راحت کے بجائے مشقت اختیار کرنے کا مادہ اُن میں پایا جائے؛ اور اُن کی اولاد دنیا کے عارضی آرام کی جگہ آخرت کے ابدی آلام سے بچنے کی جدو جہدکررہی ہو۔

مگر افسوس آج مسلمان مائیں اپنے بچوں کو ان دنیا رخی زندگی کی تربیت دینے پر مضر اورتُلی ہوئی ہیں تو باپ دنیا کی تعلیم پر یہ سوچے بغیر پیسہ بہارہے ہیں کہ ان کی دی ہوئی یہی تعلیم ان کی اولاد کو نہ صرف خدا سے بیزار کردے گی بلکہ خود والدین کا نافرمان بھی بنا دے گی۔

ماں اور باپ کی حیثیت سے مسلمان والدین کی یہ اوّلین ذمے داری ہے کہ وہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اپنے بچے (بچوں) کی درست اسلامی تعلیم اور اسلامی تربیت کا انتظام کرنے کی فکر کریں۔کہیں ایسانہ ہوکہ دنیا کی عارضی زندگی کی راحت کی لالچ میں آخرت کی لافانی زندگی کے آرام و آلام سے بے پروا تو ہوئے ہی ہیں، یہ تعلیم آپ کی نسلوں کو دنیا سے بھی محروم کردے اور آخرت میں تو پھر ایسے لوگوں کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے!

عبید اللہ خالد
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ کراچی)

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں